عثمان کوالا: وہ مقدمہ جس نے ترکی کو مغرب کے ساتھ تصادم کے راستے پر لاکھڑا کیا
- اورلا گیورن
- بی بی سی نیوز، استنبول
یہ وہ خطوط ہیں جو آئیسی بگرا کے پاس محفوظ ہیں جنھیں ان کے شوہر عثمان کوالا نے ہاتھ سے لکھا ہے۔ جو اس وقت جیل میں قید ہیں۔ گھنگریالے بالوں والا یہ شخص بنا کسی جرم کے گذشتہ چار برسوں سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہے۔
انسانی حقوق کی یورپی عدالت کا کہنا ہے کہ 64 سالہ عثمان کو انسانی حقوق کی آواز بلند کرنے سے باز رکھنے کے لیے قید میں رکھا گیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظمیوں کا کہنا ہے کہ یہ ترک صدر رجب طیب اردوغان کے اقتدار میں انسانی حقوق کے علمبرداروں کو خاموش کروانے کے واقعات کی صرف ایک جھلک ہے۔
ان کی 33 سالہ اہلیہ، جو ایک معروف ادبی شخصیت ہیں اور جو ذرا دھمیے مزاج کی خاتون ہیں، مہینے میں دو بار جیل میں عثمان کوالا سے ملاقات کر سکتی ہیں۔ تاہم کوویڈ وبا کے باعث ان کی ملاقات کے دوران شیشے کی ایک حفاظتی رکاوٹ اُن کے درمیان حائل ہوتی ہے۔ ان کے ایک دوسرے کے لیے لکھے گئے الفاظ ہی ان کی ملاقات ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ہم ایک جیسی کتابیں پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمیں ایک دوسرے کے لیے خط لکھتے ہیں، ہم اپنے خیالات کا تبادلہ کرتے ہیں، ہم ایک دوسرے کو بتاتے ہیں کہ ہم آج کل کون سے کتابوں کا مطالعہ کر رہے ہیں، تمام چیزوں کے باوجود ہم جینے کی کوشش کرتے ہیں۔‘
’ان کی غیر موجودگی ہر جگہ ہے‘
عثمان کوالا پر بہت سے الزامات ہیں۔ ان پر سب سے پہلے سنہ 2013 میں شروع ہونے والے ملک گیر حکومت مخالف مظاہروں کو منظم کرنے اور مالی اعانت فراہم کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔ ان الزامات سے انھیں بری کر دیا گیا تھا، لیکن چند گھنٹوں کے اندر اندر ان پر جاسوسی کرنے اور 2016 میں بغاوت کی کوشش کا حصہ بننے کے نئے الزامات لگائے گئے تھے جو امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق ’جھوٹے مگر قابل یقین الزامات‘ تھے۔
ان کا کتابوں سے بھرا دفتر ویسا ہی ہے جیسا ان کی گرفتاری کے وقت تھا، مخلتف آرٹ ورکس کے فریموں، مجسموں اور کاغذوں کے بڑے بڑے ڈھیروں سے بھرا ہوا۔ ان کے دفتر کے کمرے میں نظر دوڑاتے ہوئے ان کی اہلیہ کا کہنا تھا کہ ’اُن کی غیرموجودگی ہر جگہ ہے۔‘
‘وہ اچھی طرح سُن سکتے ہیں، وہ سمجھنے کی کوشش کر سکتے ہیں، وہ ہمیشہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ کسی سے بھی بات کر سکتے ہیں۔ ان کے لیے لوگوں کے درمیان تعلق بنانے کے لیے مکالمہ اہم تھا۔ میرے شوہر ملک میں بڑھتی ہوئی تقسیم کے باوجود بھی یہ کام کرتے رہے۔‘
استنبول کے مضافات میں قائم سلوری جیل میں قید عثمان کوالا نے جیل سے بی بی سی کو بتایا کہ ملک کی عدلیہ کو ’حکومت کی ترجیحات کے مطابق بدلہ لینے کے آلے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے
انھوں نے ہمارے سوالوں کے تحریری جوابات بھیجے تھے۔ انھوں نے لکھا کہ ’2016 کی ناکام بغاوت کے بعد بنا کسی ٹھوس ثبوت کے گرفتار کرنا اور نوکریوں سے نکال دینا ایک عام وطیرہ بن چکا ہے۔ جس طرح سے اس وقت ترکی پر حکمرانی کی جا رہی ہے یہ اصل جمہوریت نہیں لگتی۔‘
انھوں نے یہ تسلیم کیا کہ جب بھی وہ جیل سے رہا ہوں گے وہ شاید مکمل آزادی محسوس نہ کر سکیں۔
استنبول کے مضافات میں قائم سلوری جیل میں قید عثمان کوالا نے جیل سے بی بی سی کو بتایا کہ ملک کی عدلیہ کو ’حکومت کی ترجیحات کے مطابق بدلہ لینے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے‘
کیا وہ جلد رہا ہو سکتے ہیں؟
ان کے مقدمے کے اگلی سماعت جمعے کو ہے۔ ان کی اہلیہ آئیسی بگرا کا کہنا ہے کہ ’وہ ہمیشہ کوشش کرتی ہیں کہ کوئی امید نہ لگائے کیونکہ امید مایوسی کی جانب لے جاتی ہے۔‘
عثمان کوالا کی اس مسلسل نظربندی نے ترکی کو اپنے مغربی اتحادیوں اور کونسل آف یورپ کے ساتھ تصادم کے راستے پر ڈال دیا ہے، جس کی ترک کے جنگجو رہنما (طیب اردوغان) کو پرواہ نہیں ہے۔ کونسل آف یورپ نے دھمکی دی ہے کہ اگر انھیں اس ماہ کے آخر تک رہا نہ کیا گیا تو وہ خلاف ورزی کی غیر معمولی کارروائی شروع کر دیں گے۔
اور بالآخر، یہ ترکی کو 47 ممالک کے انسانی حقوق کے ادارے کی رکنیت سے نکالنے کا باعث بن سکتا ہے۔
انسانی حقوق کی یورپی عدالت کو عثمان کوالا کی رہائی کے احکامات جاری کیے دو برس ہو چکے ہیں۔ دس مغربی سفیروں نے حال ہی میں اس معاملے پر آواز اٹھائی ہے اور ترکی کو 47 ممالک کے اتحاد کی انسانی حقوق کی تنظیم سے نکالنے کی دھمکی دی ہے۔
جبکہ ترک صدر اردوغان جارحانہ انداز اپنائے ہوئے ہیں، عدالت پر حملہ کر رہے ہیں اور عثمان کوالا کے ارب پتی جارج سوروس کے ساتھ تعلقات پر ان کی تضحیک کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’یورپی عدالت برائے انسانی حقوق نے یہ فیصلہ دیا ہے۔‘ انھوں نے عدالت سے سوال کیا کہ ’وہ ترکی کو سوروس کی باقیات کے حوالے سے سزا دینا چاہتے ہیں، کیا آپ اپنے ملک میں ڈاکؤوں، قاتلوں یا دہشت گردوں کو رہا کرتے ہیں؟‘
ترک صدر نے اس سے قبل انصاف کو ایک پودے سے تشبیہ دے چکے ہیں۔ انھوں نے مارچ میں انسانی حقوق کے ایکشن پلان کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’اگر پودے کو کم پانی دیا جائے تو وہ سوکھ جاتا ہے اور اگر زیادہ پانی دیا جائے تو وہ جل جاتا ہے۔‘
بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظمیوں کا کہنا ہے کہ اُن کا اصل منصوبہ یہ ہے کہ انسانی حقوق کو ملک سے ختم کیا جائے اور قانون کی حکمرانی کو کمزور کیا جائے۔ استنبول میں ہیومن رائٹس واچ کی ایما سنکلیئر ویب کہتی ہیں کہ ’ملک میں جمہوریت کو کھوکھلا کر دیا گیا ہے۔ دہشت گردی کے جعلی الزامات کے تحت دسیوں ہزار افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ ترکی اپنے ناقدین کو پابند سلاسل کر کے کام چلا رہا ہے۔‘
ترکی کے مقبول اور تجربہ کار انسانی حقوق کے کارکن گنال کورسن کو جولائی 2017 میں پولیس اس وقت گرفتار کرنے آئی تھی جب وہ اور ان کے ساتھی کارکن انسانی حقوق کی ایک ورکشاپ میں تھے۔
انھوں نے کہا کہ ’دروازہ کھلا‘ اور پولیس نے آتے ہی کہا ’ہاتھ اوپر کر لو۔‘ وہ بتاتے ہیں کہ ’یہ پولیس کا ایک چھاپہ تھا، اور ہم سب کو حراست میں لے لیا گیا۔ یہ میرے اور میرے دوستوں کے لیے بہت حیران کن تھا۔ ہم گذشتہ 20 برسوں سے لوگوں کو حراست میں لیے جاتے دیکھ رہے تھے لیکن یہ پہلی مرتبہ ہمارے ساتھ ہوا تھا۔‘
ترکی کے انسانی حقوق کے کارکن گنال کورسن
ڈاکٹر کورسن جو اب ایک فوجداری مقدمات کے وکیل ہیں نے جلد ہی اپنے آپ کو عثمان کوالا والی جیل میں پایا۔ سو دن سے زائد عرصے تک جیل میں قید رہنے کے بعد اب وہ رہا ہو چکے ہیں، کم از کم کاغذی کارروائی کی حد تک۔ تاہم اب بھی ایک دہشت گرد تنظیم کی مدد کرنے کے جرم میں دو سال کی سزا کے خلاف ان کی اپیل زیر التوا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’دہشت گرد ہونے کا الزام آپ کو تکلیف پہنچاتا ہے۔ لیکن وہ اکیلے نہیں ہیں۔‘
انھوں نے مجھے بتایا کہ ’دسیوں ہزار افراد ایسے ہی بیہودہ الزامات کا سامنا کر رہے ہیں اور ترکی کی جیلیں ایسے افراد سے بھری پڑیں ہیں۔ لہذا میں اکیلا نہیں ہوں اور یہ ہی بات مجھے تسلی دیتی ہے۔‘
مزید پڑھیے
جب ایک روشن دن میں ہم نے دریائے باسفورس کے کنارے پر ان سے ملاقات کی تو یہ پہلے کی طرح ایک پیشہ ور انسان کی طرح اچھے لباس میں تھے لیکن ان کی دنیا محدود ہو چکی ہے۔ 46 سالہ گنال اب بنا دیواروں والی ایک جیل میں رہتے ہیں۔ ناکام بغاوت کے بعد سے انھیں کریمنل لا کے اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سرکاری حکمنامے کے تحت سنہ 2016 میں تقریباً سوا لاکھ افراد کو نوکریوں سے برخاست کر دیا گیا تھا۔
آج پانچ سال گزرنے جانے کے بعد بھی گنال کورسن پریشان ہیں کہ یہ ملک کسی جانب گامزن ہے۔ ایسا ہی کچھ ترکی کے مغربی اتحادیوں کا معاملہ ہے جو اسے جمہوری اقدار اور آزادی اظہار رائے سے دور جاتے دیکھ رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میرا خیال ہے کہ اگر یہ حکومت رہی تو ترکی روس جیسا ہو جائے گا۔ کچھ حد تک تو ویسا ہو چکا ہے۔ اور ہر روز یہ اور مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ جب بھی آپ انسانی حقوق کے متعلق کچھ کہتے ہیں تو آپ کو آسانی سے حکومت کی جانب سے الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور سزا دی جاتی ہے۔‘
ہم نے ترک حکومت سے ملک میں انسانی حقوق کے حوالے سے بین الاقوامی خدشات و تحفظات اور عثمان کوالا کے مقدمے کے متعلق بات کرنے کے لیے انٹرویو کی درخواست دی تھی جس کا اب تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔
Comments are closed.