american hookup lisa wade pdf dknight magicbox ii bluetooth hookup hookup Cragsmoor New York casual encounter hookups hookup Wurtsboro NY

بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

وہ خاتون جو تین ملکوں میں رہنے کے باوجود ’بے وطن‘ ہیں

ایلا پوپٹ: خاتون جنھیں انڈیا، برطانیہ اور یوگینڈا نے ’بے وطن‘ قرار دیا

  • میرل سیبشین
  • بی بی سی نیوز، کوچین

ایلا پوپٹ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

ایلا پوپٹ دس سال کی عمر میں اپنی والدہ کے ساتھ انڈیا آئیں اور یہیں رہ گئیں

ایلا پوپٹ پانچ دہائیوں سے زیادہ عرصے سے انڈیا میں مقیم ہیں۔انھوں نے یہاں شادی کی، یہاں ان کے بچے پیدا ہوئے، انڈین ڈرائیونگ لائسنس اور یہاں تک کہ ووٹر شناختی کارڈ بھی حاصل کیا۔

لیکن وہ اب بھی ایک انڈین شہری کے طور پر بیرون ملک سفر نہیں کر سکتی ہیں کیونکہ ان کے پاس پاسپورٹ نہیں ہے، جس کی وجہ سے وہ ایک طرح سے بے وطن ہیں۔

اب انھوں نے اس سلسلے میں بمبئی ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے کہ عدالت عالیہ انڈین حکام کو پاسپورٹ جاری کرنے کی ہدایت کرے۔

66 برس کی ایلا پوپٹ سنہ 1955 میں یوگنڈا میں پیدا ہوئیں اور اپنی والدہ کے پاسپورٹ پر دس برس کی عمر میں جہاز کے ذریعے انڈیا آئیں۔

اس کے بعد سے وہ اس ملک میں رہتی رہیں اور اسے اپنا گھر بنالیا۔ ان کے پاس خود کو انڈین ثابت کرنے کے لیے بہت سے سرکاری دستاویزات ہیں۔

لیکن اس کے باوجود وہ اس انوکھی صورتحال سے دوچار ہیں کیونکہ پاسپورٹ حاصل کرنے کی ان کی دہائیوں سے جاری کوشش کے باوجود تین مختلف ممالک نے انھیں ‘بے وطن’ کے طور پر دیکھا۔

وہ کہتی ہیں کہ ‘ہر بار، وہ میری شہریت کے سوال پر پھنس جاتے۔’

ایلا پوپٹ کے والد مغربی انڈین ریاست گجرات کے بندرگاہ والے شہر پوربندر میں پیدا ہوئے اور وہیں ان کی پرورش ہوئی۔

پھر سنہ 1952 میں وہ کام کے سلسلے میں یوگنڈا چلے گئے اور چند سال بعد انھوں نے برطانوی پاسپورٹ حاصل کر لیا۔

ایلا پوپٹ نے تین بار پاسپورٹ کے لیے درخواست دی اور ہر بار ان کی درخواست مسترد کر دی گئی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

ایلا پوپٹ نے تین بار پاسپورٹ کے لیے درخواست دی اور ہر بار ان کی درخواست مسترد کر دی گئی

مواد پر جائیں

پوڈکاسٹ
ڈرامہ کوئین
ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

ایلا پوپٹ مشرقی افریقی ملک یوگینڈا کے کمولی قصبے میں سنہ 1955 میں پیدا ہوئیں۔ اس طرح ان کی پیدائش برطانوی راج سے یوگینڈا کی آزادی سے سات سال پہلے ہوئی۔

سنہ 1966 میں وہ اپنی والدہ اور اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ انڈیا چلی آئیں کیونکہ یوگنڈا شدید سیاسی بحران کے دور سے گزر رہا تھا جس کی وجہ سے اس کا آئین معطل ہو گیا تھا اور ہنگامی حالت نافذ ہو چکی تھی۔

ایلا پوپٹ کہتی ہیں: ‘میں ایک بچی کے طور پر انڈیا آئی تھی، میری ماں کے پاسپورٹ پر میرا نام درج تھا۔ ان کے پاسپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ وہ ایک ‘برطانوی تحفظ یافتہ شخص’ ہیں۔ یہ پاسپورٹ حکومت برطانیہ کی طرف سے دی گئی قومیت کا درجہ تھا۔

ایلا پوپٹ کے وکیل آدتیہ چٹالے بتاتے ہیں کہ وہ اس وقت بغیر پاسپورٹ کے انڈیا میں کیسے داخل ہوئیں۔

‘ممکنہ طور پر اس وقت کے قوانین کے مطابق ایک بچہ اپنے والدین کے پاسپورٹ پر ملک میں داخل ہوسکتا تھا، نہیں تو انھیں کبھی بھی داخلے کی اجازت نہیں ہوتی۔’

انڈیا میں ایلا پوپٹ کا خاندان پہلے پوربندر میں رہتا تھا لیکن سنہ 1972 میں خاندان ممبئی منتقل ہو گیا۔

بہر حال سنہ 1977 میں ایلا پوپٹ نے انڈیا کے 1955 کے شہریت ایکٹ کے تحت شرائط پوری کرتے ہوئے انڈیا کی شہریت کے لیے درخواست دی۔ انڈیا کے شہریت کے قانون کے مطابق شہریت کی شرائط میں ایک شہری کے لیے ہندوستانی شہری سے شادی اور سات سال کی رہائش شامل ہے۔ لیکن ان کی درخواست کو ‘ہمدردانہ طریقے سے نہیں دیکھا گیا’ اور مسترد کر دیا گیا۔

اس کے بعد انھوں نے ممبئی میں برطانوی ہائی کمیشن سے رابطہ کیا کیونکہ ان کے والدین کے پاس برطانوی پاسپورٹ تھے اور ان کی والدہ کا خاندان اب بھی برطانیہ میں تھا۔

تاہم ہائی کمیشن نے کہا کہ وہ برطانوی پاسپورٹ کے لیے درخواست دینے کی اہل نہیں ہیں کیونکہ نہ ہی ان کے والد اور نہ ہی ان کے دادا سنہ 1962 کے بعد ملک یا اس کی کالونیوں میں ‘پیدا ہوئے، رجسٹرڈ یا نیچرلائز’ رہے۔

بہر حال یہ بھی کہا جانے لگا کہ ایلا پوپٹ کے یوگنڈا کی شہری ہونے کا امکان ہے ‘لیکن اگر یوگینڈا کے حکام پاسپورٹ کی سہولیات سے انکار کرتے ہیں پھر تو وہ ایک بے وطن شخص دکھائی دیں گی۔’

یہ متعدد مواقعوں میں سے پہلا موقع تھا جب انھوں نے خود کو اس طرح لیبل لگاتے ہوئے سنا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

اگلی دہائیوں میں انھوں نے دو بار انڈین پاسپورٹ کے لیے درخواست دی، جسے ہر بار حکام نے مسترد کر دیا۔

وہ کہتی ہیں: ‘میں نے پوچھا کہ کیا میں کم از کم برطانیہ میں اپنے دادا سے ملنے کے لیے سفری پاسپورٹ حاصل کر سکتی ہوں، لیکن مجھے وہ بھی نہیں مل سکا۔’

ان کے چھوٹے بھائی جو گجرات کے شہر وڈودرا میں رہتے ہیں ان کے پاس ان کے والدین کی طرح برطانوی پاسپورٹ ہے۔

1972 میں بہت سے ایشیائی شہریوں نے یوگینڈا چھوڑ دیا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

1972 میں بہت سے ایشیائی شہریوں نے یوگینڈا چھوڑ دیا

وہ ان سب کے درمیان کیسے چھوٹ گئیں اور ان کے والدین ان کے لیے برطانوی پاسپورٹ نہ حاصل کر سکے؟

وہ کہتی ہیں: ‘ہم ایک مشترکہ خاندان میں رہتے تھے۔ ہم زیادہ نہیں جانتے تھے اور بزرگوں کے کہنے پر چلتے تھے۔ مزید جاننے کے لیے پوچھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا، اس لیے ہمیں نہیں معلوم تھا کہ کیا غلطیاں ہوئیں۔’

بہر حال جب سنہ 2015 میں تیسری بار ان کی درخواست مسترد کر دی گئی تو انڈین حکام نے ان سے کہا کہ وہ پہلے ملک کے شہری کے طور پر اندراج کرائیں۔

آدتیہ چٹالے اس بات سے اتفاق کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ‘انھیں پہلے شہریت کے لیے درخواست دینی چاہیے تھی جس کے بغیر وہ پاسپورٹ حاصل نہیں کر سکتیں۔’

ایلا پوپٹ کہتی ہیں کہ ان کی صحیح رہنمائی نہیں کی گئی۔

‘ہمیں زیادہ کچھ نہیں معلوم تھا، اور کسی نے ہمیں نہیں بتایا کہ کیا کرنا ہے۔ ہم مختلف سرکاری دفاتر کے اندر اور باہر اس کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے۔ ہر جگہ لوگ مجھے ‘بے وطن’ کہتے اور کوئی امید نہیں دلاتے۔’

سنہ 2018 میں ان کی بیٹی نے نیو دہلی میں یوگینڈا ہائی کمیشن کو شہریت یا پاسپورٹ کے لیے خط لکھا، جس کی بنیاد پر ایلا پوپٹ انڈین پاسپورٹ کے لیے درخواست دے سکتی ہیں۔

قونصل خانے نے تصدیق کی کہ وہ اس ملک میں پیدا ہوئی تھیں لیکن کہا کہ وہ ‘کبھی یوگینڈا نہیں رہیں’۔

اس کے بعد ان سے ایک بار پھر ‘ایک بے وطن شخص کے طور پر’ انڈیا کی شہریت کے لیے درخواست دینے کو کہا گیا۔

سنہ 2019 میں ایلا پوپٹ نے بالآخر انڈیا کی شہریت حاصل کرنے کے لیے درخواست دی، لیکن ان کی درخواست مسترد کر دی گئی۔ سرکاری حکم میں کہا گیا ہے کہ وہ بغیر کسی مناسب ویزا یا پاسپورٹ کے ملک میں رہ رہی تھیں اس لیے سنہ 1955 کے شہریت کے قانون کے تحت وہ شہریت کے شرائط کو پورا نہیں کرتیں۔

ایلا پوپٹ نے بمبئی ہائی کورٹ میں اپنی 2022 کی درخواست میں کہا کہ اس سے وہ افسردہ ہوگئیں۔

یہ بھی پڑھیے

انھوں نے بی بی سی کو بتایا: ‘لیکن میرے شوہر انڈین ہیں، میرے بچے اور پوتے انڈین ہیں۔ میرے پاس آدھار (تمام ہندوستانی باشندوں کے لیے جاری کردہ ایک منفرد شناختی کارڈ) سمیت دیگر تمام سرکاری دستاویز موجود ہیں، اور پھر بھی ان میں سے کوئی بھی کافی نہیں ہے۔’

سنہ 1972 میں جب یوگینڈا کے آمر عیدی امین نے تمام ایشیائی باشندوں کو وہاں سے جانے کے لیے کہا تھا تو بہت سے ہند نژاد لوگوں نے یوگنڈا چھوڑ دیا تھا۔ اور ان میں سے زیادہ تر کو برطانیہ، کینیڈا یا انڈیا میں شہریت ملی تھی۔

بمبئ ہائی کورٹ اگست میں ایلا پوپٹ کے کیس کی سماعت کرنے والی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ پہلے ہی برطانیہ میں اپنے دو بھتیجوں کی شادیوں میں شرکت کرنے سے محروم رہ گئی ہیں۔ وہ کہتی ہیں: ‘میں دبئی میں ایک اور بھتیجے کی شادی میں شرکت سے محروم رہ جاؤں گی جو عدالت میں سماعت کی تاریخ سے چند ہفتے پہلے ہو رہی ہے۔’

اب وہ صرف اتنا چاہتی ہیں کہ وہ اپنے ثقافتی اور موروثی ملک کی شہری کہلائیں، جہاں انھوں نے اپنی بالغ زندگی کا بیشتر حصہ گزارا ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.