وہ انگریز جس نے برطانیہ میں کرشنا مندر بنانے کے لیے اپنا بنگلہ اور زمین عطیہ کیے
- مصنف, لوئس پیری اور دیپک پٹیل
- عہدہ, بی بی سی نیوز
سنہ 1973 میں مشہور بینڈ ’بیٹلز‘ کے رکن جارج ہیریسن نے برطانیہ میں ’ہرے کرشنا ابھیان‘ کو ایک بنگلہ تحفے میں دیا تاکہ وہ یہاں بھی اپنا ایک مرکز بنا سکیں۔
ہرٹ فورڈ شائر میں یہ بنگلہ اب برطانیہ کے مشہور ہندو مندروں میں سے ایک ہے۔
اس کے سرکردہ اراکین نے بنگلے کے قیام اور اس کے بند ہونے کے بعد کی جدوجہد اور اس کی آج کی وراثت کی کہانی بیان کی۔ انھوں نے یہ کہانی اس بنگلے کی 50 ویں سالگرہ کے موقع پر شیئر کی ہے۔
دسمبر 1968 میں ایپل ریکارڈز پارٹی میں جارج ہیریسن سے شیامندرداس کی ملاقات کوئی اتفاقی بات نہیں تھی۔ تاہم انھیں یہ امید نہیں تھی کہ یہ ملاقات زندگی بھر کی دوستی میں بدل جائے گی۔
وہ ایک مشن کے ساتھ انگلینڈ آئے تھے۔ اس مشن کا مقصد بھگت ویدانتا سوامی پربھوپادا کی خواہشات کے بعد ’ہرے کرشنا ابھیان‘ کی بنیاد رکھنا تھی۔
شیام سندرداس ایک خاص مقصد کے لیے بیٹلز کے ریکارڈ لیبل پر ایک پارٹی میں گئے۔ ان کے مطابق ’ہم ستمبر 1968 میں آئے اور کرسمس کے وقت جارج ہیریسن سے ملے۔ ہم نے بیٹلز کے ساتھ ہرے کرشنا کا نعرہ لگانا شروع کیا۔‘
شیام سندرداس اب 81 سال کے ہیں اور امریکہ میں رہتے ہیں۔
وہ دنیا کے سب سے مشہور شخص کے ساتھ کرشن کے فلسفے پر گفتگو کے اس وقت کو یاد کرتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ’1969 کے اوائل میں ہم جان لینن کی ٹٹن ہارسٹ سٹیٹ (بنگلے) میں چلے گئے۔ لندن میں ہم نے اس دوران اپنا مندر تیار کیا۔ نتیجتاً ہم ریکارڈنگ کے فنکار بن گئے۔ ایک چیز دوسری کا باعث بنی اور پھر بیٹلز کے تعاون سے ہم مشہور ہوئے اور ملک میں ہرے کرشنا مہم تیزی سے پھیل گئی۔‘
سنہ 1970 میں ’مائی سویٹ لارڈ‘ البم کی ریلیز کے بعد انھوں نے کہا کہ نوجوانوں کا ایک بڑا ہجوم وسطی لندن میں واقع ’انٹرنیشنل سوسائٹی فار کرشنا کانسیئسنس کے مرکز میں آنا شروع ہوا۔
بنگلہ تحفے میں دینا
یہ ایک پانچ منزلہ عمارت تھی اور ہمارا خیال تھا کہ یہ کافی جگہ ہے لیکن ہمارے کامیاب البم کے علاوہ ہم اس دوران معاشرے میں ہر سطح پر جو سرگرمیاں کر رہے تھے، برطانوی نوجوان مرد و خواتین بڑی تعداد میں آنے لگے اور عقیدت مند بن گئے۔
یوں وہ چھوٹی سی عمارت لوگوں سے بھر گئی۔ لوگ ہال میں اور سیڑھیوں پر سوتے تھے۔
شیام سندر داس کہتے ہیں کہ سنہ 1972 میں وہ اور بھگت ویدانت سوامی ہیریسن کے آکسفورڈ شائر بنگلے پر گئے تھے۔ یہ سن کر کہ لندن کا مندر عقیدت مندوں سے بھر گیا ہے، ہیریسن نے جواب دیا کہ ’میں آپ لوگوں کے لیے ایک خانقاہ خریدنا چاہتا ہوں۔ ایسا گھر جیسا کہ اب میرے پاس ہے۔‘
ایک سال بعد انھوں نے پگٹ کا بنگلہ تحفے میں دیا، جو ہرٹ فورڈ شائر کے دیہی علاقے میں واقع ہے۔
اسے ایک نیا نام دیا گیا – بھگت ویدانتدھام (بنگلہ)۔ بھکت ویدانت ایک قدیم سنسکرت لفظ ہے جس کا مطلب ہے تمام روحانی علم کا جوہر یا نتیجہ۔
شیام سندرداس اسے بہت اہم قدم قرار دیتے ہیں۔ اس وقت 50 نوجوان مرد اور خواتین اس بھکت ویدانت دھام کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔ بنگلے کی 50 ویں سالگرہ کا جشن منانے کے لیے واپس آ کر ان کے لیے یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ یہ جگہ اتنی اہم کیسے ہو گئی۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’مجھے ایسا لگتا ہے جیسے ہم نے یہاں ایک چھوٹا سا بیج لگایا تھا اور اب 50 سال بعد یہ ایک بڑا درخت بن گیا ہے۔ بھکت ویدانت بنگلہ اب ایک بڑا ’بلوط کا درخت‘ بن گیا ہے۔‘
تاہم ہرٹ فورڈ شائر میں پھیلنے والی ’ہرے کرشنا مہم‘ سب کے لیے قابل قبول نہیں تھی۔
مندر بند تھا
آکھندھی داس، جو سنہ 1975 میں مندر کا حصہ بنے اور بعد میں اس کے صدر بھی بن گئے نے بتایا کہ ’تقریباً جب سے اسے خریدا گیا تھا یعنی سنہ 1973 میں ہرے کرشنا کے عقیدت مندوں کی منتقلی ہوئی تھی، وہاں آنے والے کچھ لوگوں کے بارے میں یقینی شکایات تھیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’آپ تصور کر سکتے ہیں کہ اگر لیچمور ہیتھ میں مرکزی جگہ کرشنا مندر بن جائے تو مقامی دیہات اسے پسند نہیں کریں گے۔‘
مشرقی افریقہ سے بے دخل کیے گئے مقامی ہندوستانیوں کی آمد کے بعد بھکت ویدانت بنگلوں کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ سنہ 1970 کی دہائی کے اوائل میں یہ لوگ شمالی لندن میں رہنے لگے۔
ہندو سنت کرپا مویاداس یہاں آنے والے پہلے لوگوں میں سے ایک تھے اور ان کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگوں نے اس ہرے کرشنا دھام میں آ کر بہت سکون محسوس کیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ان تمام لوگوں کو اب احساس ہو گیا ہے کہ ان کے پاس عبادت کرنے کی جگہ ہے اور یہ ان کے ملک میں چند قدم کے فاصلے پر ہے۔ لیکن سنہ 1990 کی دہائی میں صورتحال سنگین ہو گئی۔ صورت حال اس کے برعکس تھی۔ شور کی شکایت کے بعد مندر کو سنہ 1994 میں عوامی عبادت کے لیے بند کر دیا گیا تھا۔
مندر کی بندش کے بارے میں آکھندھی داس کا کہنا ہے کہ ’برطانیہ اور بیرون ملک ایک زبردست ہنگامہ ہوا اور 30,000 لوگ سینٹرل لندن میں مندر کی حمایت میں ایک احتجاج کا حصہ بن گئے۔‘
ہرٹمر بورو کونسل کے خلاف طویل قانونی جنگ کے بعد بالآخر سنہ 1996 میں بھکت ویدانتا دھام (ایک بنگلے میں مندر) کوعبادت کے لیے کھول دیا گیا۔
آکھندھی داس نے بی بی سی کو بتایا کہ ’مجھے اس مہم پر فخر ہے۔‘
کورونا وائرس کے دنوں میں بھی مندر کھلا رہا
انھوں نے کہا کہ ’ہماری کمیونٹی نے اپنے درد کا اظہار کیا اور مظاہرے کو غیر متشدد رکھا۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’اس کے بعد مندر اور ہندو برادری دونوں مضبوط ہوتے گئے۔ پچھلے سال تقریباً 45 ہزار لوگوں نے جنم اشتمی تہوار میں شرکت کی تھی۔ مندر کی مینیجنگ ڈائریکٹر نیلا مادھو داس کے مطابق ہر سال 22 ہزار سکول کے بچے یہاں آتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
سال بھر ہندو تہوار منانے کے ساتھ ساتھ، بھکت ویدانت دھام ایک وسائل کے مرکز کے ساتھ ساتھ ’آرگینک‘ کاشتکاری کے فارم اور گوسیوکندر کے طور پر بھی کام کرتا ہے۔
نیلا مادھوداس کا کہنا ہے کہ کورونا وبا کے دوران کونسل نے انھیں دھام کو کوویڈ ٹیسٹنگ سینٹر بنانے اور اسے عوام کے لیے کھلا رکھنے کا مشورہ دیا۔
ان کے مطابق ’ایک وقت تھا جب صرف ہمارا مندر کھلا تھا۔ چرچ، عبادت گاہیں بند کر دی گئیں۔ ہندو مندر اور مساجد سب بند کر دیے گئے تھے۔ لہٰذا ہم ہر قسم کے لوگوں کا خیرمقدم کر رہے تھے اور لوگ دباؤ میں تھے اس لیے اس وقت یہ زیادہ اہم تھا۔‘
مندر کے صدر وشاکھا دیو داس کا کہنا ہے کہ وہ لوگوں کو روایتی اور صحت مند زندگی دکھانا چاہتے ہیں۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’یہ اس زندگی کے بالکل برعکس ہے جو ہم آج دنیا میں دیکھتے ہیں۔ آج کی زندگی صرف اشیا خرچ یا استعمال کرنے پر ہی زور ہے۔
لیکن یہاں ہم نے سیکھا کہ اگر ہم اپنی زندگی گائے کی خدمت اور دودھ کی پیداوار اور پھلوں اور پھولوں پر رکھیں تو صحت اور زندگی دونوں کو صحت مند رکھا جا سکتا ہے اور اس کی وجہ سے ہمارے پاس اعلیٰ تعلیم کے لیے بھی وقت ملے گا۔
Comments are closed.