وسعت اللہ خان کا کالم ’بات سے بات‘: بیس برس دریا میں بہہ گئے ہائے!
مہلت تھی جب تو دل کو تھا بےکاریوں سے شغل
اب کام یاد آئے تو مہلت نہیں رہی (احمد نوید)
بیس برس کے دوران اربوں ڈالر، غیر مشروط عالمی معاشی و عسکری مدد دستیاب تھی، ازقسمِ حامد کرزائی، عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی وغیرہ وغیرہ کو، کہ اس مہلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے افغانستان کو قرونِ وسطی سے کھینچ کر قرنِ جدید میں لے آئیں۔
مگر جنھیں یہ پہاڑ سر کرنا تھا وہ ذاتیات کے فریم میں ہی ٹنگے رہے، یہی سوچتے رہے کہ یہ کھڑکی تا قیامت کھلی رہے گی، من و سلویٰ براہِ راست جیبوں پر اترتا رہے گا اور ہم صرف ایک دوسرے سے سینگ پھنسانے کے شغل میں ٹائم پاس کرتے رہیں گے اور گوری پلٹنیں ہمارا پہرہ دیتی رہیں گی۔
انھوں نے بھی پچھلوں کی طرح کابل کو ہی افغانستان سمجھا اور اسے ہی ترقی کا شو کیس بنانے پر تین چوتھائی توانائی لگا دی۔ باقی ملک حسبِ سابق اٹھارویں اور انیسویں صدی میں ہی اٹکا رہا۔ بیرونِ ملک افغان مہاجرین جوں کے توں رہے اور اندرونِ ملک دربدر غربا آنے والے کل کے بے یقین جھولے میں معلق رہے۔
اور پھر تھکن زدہ غیر ملکیوں کی واپسی کا گجر بج گیا۔ جب بازی گر نے جوتے کے تسمے باندھ لیے۔ تب سے افغان قیادت سر کٹے مرغ کی طرح کبھی دائیں بھاگ رہی ہے کبھی بائیں لڑھک رہی ہے۔ ہائے کیسے قیمتی بیس برس دریاِ کابل کی لہروں میں بہہ گئے۔
طالبان کو بھی چھ برس کے اقتداری تجربے کی پاداش میں اگلے بیس برس کے لیے جنگلوں اور صحراؤں میں یہ سکھانے کے لیے بھیج دیا گیا کہ جسم کے بجائے دلوں پر حکومت کیسے ہوتی ہے مگر لگتا ہے کہ بیس برس کی شدید بیابانی بھی ذہنی کایا کلپ کے مضمون میں طالبان کو 33 نمبر نہ دلا سکی۔
وہ آج بھی کل کی طرح بیلٹ کو نہیں بلٹ کو آخری ثالث مانتے ہیں۔
نذر محمد عرف خاشہ زوان افغانستان کے شہر قندھار کے ایک مزاحیہ اداکار تھے
خانہ جنگی ہو کہ آمنے سامنے کی جنگ، لاکھوں لوگوں کا مرنا تاریخی تناظر میں ایک ناگزیر عام سی بات ہے مگر جس طرح قندھار کے ایک عوامی کامیڈین سپاہی نذر محمد خاشہ کو پھبتیوں اور لطائف کی سزا موت کی شکل میں ملی، اس ایک چاول کے مسلے جانے سے پوری ذہنی دیگ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
وسعت اللہ خان کے دیگر کالم پڑھیے
ویسے بھی جس کے ہاتھ میں ہتھوڑا ہو اسے ہر مسئلہ کیل نظر آتا ہے۔ امریکی ذہن کا بھی یہی پرابلم ہے اور طالبانی دماغ کا بھی۔
مگر ان بیس برسوں میں پاکستان نے کیا سیکھا۔ پاکستان سرحد پار سے آنے والی پہلی مصیبتیں ہی جھیل نہ پایا کہ نائن الیون سر پر گر پڑا۔ پھر سٹیبلشمنٹ پر یہ بھی کھلا کہ یہ تیر وہ ہے جو لوٹ کر بھی آتا ہے مگر سیکھا کیا؟ آج بھی یہ صورت ہے کہ:
محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پے دم نکلے (غالب)
سٹرٹیجک ڈیپتھ نظریے کے جملہ حقوق آپ کے پاس تھے مگر یہ نظریہ عملاً اچک لیا کالعدم ٹی ٹی پی وغیرہ وغیرہ نے۔ اب وہ پھر سے جسم پر تیل مل کے ڈنڈ بیٹھکیں نکال رہے ہیں اور ہماری ذہنی تنہائی کا یہ عالم ہے کہ افغان طالبان کے بارے میں بھی پورا یقین نہیں کہ ہمارے ہیں یا کسی کے بھی نہیں۔ ککر تے انگور چڑھایا ہر گچھا زخمایا۔
تماشا گر تماشا دکھا کے روانہ ہوئے۔ ان کی نشانیاں ہیں اور ہماری حسرتوں کا ملبہ اور مقامی صناعوں کی بے بس چہرے کے ساتھ لاعلمی کی اوور ایکٹنگ۔
الاؤ پھر سے روشن ہو چکا ہے پر سردیاں کافی دور ہیں۔ سایوں کے تعاقب کا اگلا موسم شروع ہوا چاہتا ہے۔ مومن اسی سوراخ سے تیسری بار ڈسے جانے کے لیے تیار بیٹھا ہے۔ ہم جیسے کروڑوں سڑک چھاپ کل بھی اس تھوپے ہوئے کھیل کے تماشائی تھے آج بھی ہیں۔
اب تو لگتا ہے ذات کے بھی تماشائی ہیں اور اس پر ’بے دار مغز قیادت‘ اللہ اللہ۔۔۔
Comments are closed.