لاہور ہائی کورٹ نے وزیرِ اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کے الیکشن کے خلاف پاکستان تحریکِ انصاف کی درخواستیں منظور کر لیں۔
پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی اپیلوں پر جسٹس صداقت علی خان کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے سماعت کی۔
لارجر بینچ میں جسٹس شہرام سرور چوہدری، جسٹس ساجد محمود سیٹھی، جسٹس طارق سلیم شیخ اور جسٹس شاہد جمیل خان بھی شامل ہیں۔
لارجر بینچ نے فیصلہ چار ایک کی اکثریت سے سنایا ہے، ایک جج جسٹس ساجد محمود سیٹھی نے 4 ججز کے فیصلےکے کچھ نکات سے اختلاف کیا۔
جسٹس ساجد محمود سیٹھی نے اپنے اختلافی نوٹ میں میڈیا کی رپورٹنگ کی تعریف کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ میڈیا نے پروفیشنل رپورٹنگ کی، کچھ وی لاگرز نے کیس کو اسکینڈلائز کیا، پیمرا اور ایف آئی اے اسکینڈلائز کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرے۔
لارجر بینچ میں پی ٹی آئی، ق لیگ، اسپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الہٰی کی اپیلوں کی سماعت کی گئی۔
عدالتِ عالیہ میں حمزہ شہباز کی بطور وزیرِ اعلیٰ پنجاب انتخاب اور سنگل بینچ کے فیصلوں کے خلاف اپیلیں دائر کی گئی تھیں۔
عدالت نے اپنے تحریری فیصلے میں کہا ہے کہ نئے الیکشن کا حکم نہیں دیا جا سکتا، دوبارہ الیکشن کا حکم سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہو گا۔
لاہور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ ہم پریزائیڈنگ افسر کے نوٹیفکیشن کو کالعدم کرنے کا بھی نہیں کہہ سکتے، عدالت پریزائیڈنگ افسر کا کردار ادا نہیں کر سکتی۔
عدالتِ عالیہ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ منحرف ارکان کے 25 ووٹ نکال کر دوبارہ گنتی کی جائے، دوبارہ رائے شماری میں جس کی اکثریت ہو گی وہ جیت جائے گا۔
لاہور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ اگر کسی کو مطلوبہ اکثریت نہیں ملتی تو آرٹیکل 130 چار کے تحت سیکنڈ پول ہو گا۔
عدالتِ عالیہ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ 25 ووٹ نکالنے کے بعد اکثریت نہ ملنے پر حمزہ شہباز وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے عہدے پر قائم نہیں رہیں گے۔
عدالت نے حکم دیا ہے کہ گورنر پنجاب کا یکم جولائی کو طلب کیا گیا اجلاس یقینی بنایا جائے، پنجاب اسمبلی کا اجلاس الیکشن ہونے تک ملتوی نہیں کیا جائے گا، الیکشن مکمل ہونے کے بعد نئے وزیرِ اعلیٰ کا حلف 2 جولائی کو دن 11 بجے یقینی بنایا جائے۔
وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے معاملے پر صوبہ کئی ہفتے آئینی بحران کا شکار رہا، وزیرِ اعلیٰ کے انتخاب کے روز پنجاب اسمبلی میں ہنگامہ بھی ہوا، ڈپٹی اسپیکر کو پولیس کی حفاظت میں اجلاس کی کارروائی چلانا پڑی۔
16 اپریل کو حمزہ شہباز 197 ووٹ لے کر وزیرِ اعلیٰ پنجاب منتخب ہوئے، پی ٹی آئی اور ق لیگ کے امیدوار پرویز الہٰی کو ایک ووٹ بھی نہ ملا۔
پی ٹی آئی اور ق لیگ نے وزیرِ اعلیٰ کے انتخاب کے عمل کا بائیکاٹ کیا تھا۔
حمزہ شہباز کے وزیرِ اعلیٰ منتخب ہونے کے بعد گورنر پنجاب نے ان سے حلف نہ لیا، وزیرِ اعلیٰ کے حلف کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی گئی تھی۔
لاہور ہائی کورٹ نے پہلے گورنر پنجاب پھر صدر کو وزیرِ اعلیٰ سے حلف لینے کا کہا۔
گورنر پنجاب اور صدر کی جانب سے حلف نہ لینے پر قومی اسمبلی کے اسپیکر سے حلف لینے کا کہا گیا۔
اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے ہائی کورٹ کے حکم پر حمزہ شہباز سے وزیرِ اعلیٰ کا حلف لیا۔
اس کے بعد پی ٹی آئی نے لاہور ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی تھی کہ قومی اسمبلی کا اسپیکر حلف نہیں لے سکتا۔
لاہور ہائی کورٹ کے 2 رکنی بینچ نے لارجر بینچ تشکیل دینے کے لیے معاملہ چیف جسٹس کو بھجوا دیا۔
لاہور ہائی کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے پی ٹی آئی اور ق لیگ کی پٹیشنز پر سماعت کی۔
پٹیشنز میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب کا الیکشن ٹھیک نہیں ہوا۔
Comments are closed.