وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے وفاق سے بین الصوبائی ٹرانسپورٹ پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کردیا۔
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ گذشتہ ایک ماہ کے دوران سندھ میں کورونا وائرس کی تشخیصی شرح دوسرے صوبوں کے مقابلے میں کم ہے لیکن اب اس میں تیزی آنا شروع ہوگئی ہے۔
وزیر اعظم ہاؤس اسلام آباد میں ہونے والے قومی رابطہ کمیٹی (این سی سی) کے اجلاس میں گفتگو کے دوران مراد علی شاہ نے کہا کہ وفاق کی جانب سے بین الصوبائی ٹرانسپورٹ کو چلانے کی اجازت دی گئی تھی، اب ہمیں اپنے لوگوں کو بچانے کیلئے لاک ڈاؤن لگانے سمیت سخت اقدامات اٹھانا پڑ سکتے ہیں۔
اجلاس میں ڈاکٹر عذرا پیچوہو، سعید غنی، ناصر شاہ، پارلیمانی سیکرٹری قاسم سراج سومرو، آئی جی سندھ مشتاق مہر، ایڈیشنل چیف سیکریٹری ہوم عثمان چاچڑ، وزیراعلیٰ سندھ کے پرنسپل سیکریٹری ساجد جمال ابڑو، ڈاکٹر عبدالباری، ڈاکٹر فیصل، کمشنر کراچی نوید شیخ، سیکریٹری اسکول ایجوکیشن احمد بخش ناریجو، سیکرٹری خزانہ حسن نقوی، سیکرٹری صحت کاظم جتوئی، کور 5، رینجرز، ڈبلیو ایچ او، یونیسف اور دیگر اداروں کے نمائندگان شامل تھے۔
وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ کراچی میں کورونا وائرس کی تشخیصی شرح چار اور حیدرآباد کی 5 فیصد ہے لیکن گذشتہ ایک ماہ کے دوران یہ حیدرآباد میں 16.64 فیصد ، کراچی میں 8.93 فیصد اور صوبے کے باقی اضلاع میں 5.64 فیصد ہوگئی ہے۔
انہوں نے کہا یہ انتہائی سنگین صورتحال ہے اور ہمیں سخت فیصلے کرنے چاہئیں بصورت دیگر صورتحال قابو سے باہر ہوجائے گی۔
مراد علی شاہ نے کہا کہ اگر حکومت نے 31 مارچ کو بین الصوبائی اور انٹرسٹی ٹرانسپورٹ پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہوتا تو سندھ میں صورتحال قابو میں رہتی۔
انہوں نے مزید کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ چند سخت فیصلے کئے جائیں جن میں انٹر سٹی ٹرانسپورٹ پر پابندی، ایئرپورٹس پر سخت نگرانی، جن اضلاع میں کیسز میں اضافہ ہورہا ہے وہاں لاک ڈاؤن نافذ کرنے، ڈاکٹرز، پولیس اہلکاروں اور انتظامیہ کیلئے ویکسینیشن لازمی قرار دینے اور صوبوں بالخصوص سندھ کو براہ راست ویکسین خریدنے کی اجازت دی جائے۔
مراد علی شاہ کے مطالبے پر وزیر اعظم نے سندھ حکومت کو ویکسین خریدنے کی اجازت دے دی۔
اس سے قبل وزیراعلیٰ سندھ نے کورونا وائرس ٹاسک فورس کی صدارت کی جس میں این سی سی کے اجلاس کی سفارشات پر عملدرآمد کیا گیا۔
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ بڑی مقدار میں کورونا ویکسین حاصل کی جائے گی اور اسے اوجھا کیمپس ڈاؤ یونیورسٹی میں ذخیرہ کیا جائے گا۔
Comments are closed.