مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال نے وزیراعظم پر تنقید کرتے ہوئےکہا کہ وزیراعظم نے گزشتہ روز قوم سے خطاب میں حقائق توڑ مروڑ کر پیش کیے، سلمان رشدی کی کتاب 1988 میں شائع ہوئی اور نوازشریف 1990 میں وزیراعظم بنے، حکومت کی نالائقی اور غفلت کی وجہ سے ملک میں بحران ہیں، فریقین مذاکرات سے مسئلے کا حل نکالیں۔
سابق وزیر داخلہ احسن اقبال نے احتساب عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کے دوران کہا کہ کل وزیراعظم نے خطاب میں طعنہ زنی اور الزام تراشی کی، ملک میں ایسے حالات ہوں تو لیڈر یہ باتیں نہیں کرتے، ملک کے حالات کیا ہیں اورحکومت کی ترجیحات نوازشریف کی جائیدادیں ضبط کرنا ہے۔
احسن اقبال نے کہا ہے کہ کل وزیراعظم نے بڑی منظر کشی کی کہ ملک ترقی کر رہا ہے، کل جس جنت کا نقشہ عمران خان نے کھینچا ہم سب اسی پاکستان میں جانا چاہتے ہیں، نئے وزیر خزانہ خود کہہ چکے حکومتی پالیسیوں نے معیشت کو تباہ کردیا، پاکستانی معیشت ایک ڈیڑھ فیصد پرترقی کرے گی، بھارتی معیشت 11 فیصد پرترقی کررہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بیرونی سرمایہ کاری نہیں آرہی لیکن عمران خان کو پرواہ نہیں، کیا یہ عمران خان کی خوشحالی ہے؟ عمران خان کو پرواہ ہے کہ شہبازشریف کی ضمانت منسوخ ہوتی ہے یا نہیں، آج جس بحران کا سامنا ہے اس کی ذمہ دار بھی حکومت ہے، اپوزیشن پر الزام نہ لگائیں، ہم نے وہ کردار ادا نہیں کیا جو انہوں نے 2017میں کیا تھا۔
احسن اقبال کا کہنا تھا کہ اُس وقت عمران نیازی نے پیٹرول بغل میں اٹھا رکھا ہوتا تھا، جہاں دیکھتے چنگاری ہواس پرچھڑک دیتے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ناموس رسالت ﷺ پر ہر مسلمان مرمٹنے کو تیار ہے، اس حکومت نے پہلے معاہدہ کیا کہ فرانس کے سفیر کو نکالیں گے، اب آنکھیں کھلیں تو کہتے ہیں ایسا کرنے سے نقصان ہوگا، جب آپ کے وزیر یہ معاہدہ کر رہے تھے تو آپ کہاں تھے؟امید کرتا ہوں تمام فریقین گفت وشنید سے مسئلے کا حل نکالیں گے۔
احسن اقبال نے کہا ہے کہ ہمارے دور میں آپریشن اسلام آباد ہائیکورٹ کی ہدایت پر ہوا، میں اس دھرنے کے حالات پربات نہیں کرنا چاہتا، ہم اس وقت معاملات کو سلجھانا چاہتے ہیں، پاکستان کے دشمن اس طرح کے حالات سے فائدہ اٹھاتے ہیں، ہمیں دشمن کو ایسی فوٹیج نہیں دینا چاہیے جسے وہ پاکستان کے خلاف استعمال کرے۔
انہوں نے کہا کہ کل وزیراعظم نے بھی کہا بھارت اس معاملے کو سول جنگ کی طرف لے جارہا ہے، اگر بھارت ایسا کررہا ہے تو وہ آپ کے ساتھ دبئی میں مذاکرات بھی کررہا ہے، آپ بھارت کو وہاں کہیں کہ ایسا نہ کرے۔
Comments are closed.