نیپال کے لیے خلیج کے مسلم ممالک اتنے اہم کیوں ہیں؟
- مصنف, رجنیش کمار
- عہدہ, نمائندہ بی بی سی ہندی، دہلی
نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو کا علاقہ ٹھمیل اپنی نائٹ لائف کے لیے جانا جاتا ہے، لیکن کھٹمنڈو کا باقی حصہ رات 10 بجے تک سو جاتا ہے۔
جیسے جیسے رات ڈھلتی ہے، لائیو میوزک اور ڈانس بار کے ساتھ ٹھمیل کی آواز بلند ہوتی جاتی ہے۔ سارا ٹھمیل شراب اور مقبول موسیقی کے شور میں ڈوب جاتا ہے۔
یہاں کے ڈانس بار میں ہندی اور پنجابی گانے بھی بہت مقبول ہیں۔
تاہم کیا کبھی نہ رکنے والا ٹھمیل اب ٹھہرتا دکھائی دے رہا ہے؟ جمعرات کی رات کے تقریباً 11 بجے ہیں اور سڑکیں خالی ہیں۔
زیادہ تر دکانیں بند ہیں اور ایسے کئی بار بھی ہیں جن کے دروازوں پر تالے پڑے ہیں۔
چند بار کے اندر موسیقی کا شور ہے لیکن بہت کم لوگ ہیں جو یہاں موجود ہیں۔
بار میں داخل ہوتے ہی کئی لڑکیوں کو ایک ساتھ استقبال کرتے دیکھا جا سکتا ہے اور یہ احساس ہوتا ہے وہاں مہمانوں سے زیادہ میزبان ہیں۔
ایک پب کے گیٹ پر کھڑے گارڈ سے پوچھا کہ کیا ٹھمیل کا شور کم ہو رہا ہے؟
اس کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ’رات مزید بڑھے گی تو رونق اور بڑھ جائے گی لیکن کووڈ کے بعد چیزیں بہت بدل گئی ہیں۔ ٹھمیل کی ہلچل اس وقت نصف رہ گئی ہے۔
’آدھی ہلچل معاشی کساد بازاری کی لپیٹ میں چلی گئی ہے۔ اس وقت سڑکوں پر بہت کم غیر ملکی نظر آ رہے ہیں۔ ماضی کی چمک دمک کے سامنے حال کی رونق یقینی طور پر پھیکی پڑ گئی ہے۔‘
یہاں تک کہ اگر آپ یہاں کسی بھی عام بار میں جائیں تو ایک بیئر کی قیمت کم از کم 1100 نیپالی روپے ہے۔
لیکن یہ صرف ٹھمیل کے بارے میں نہیں ہے۔ پورا نیپال مہنگائی کی زد میں ہے۔
جو انڈین نیپال آتے ہیں ان کے ذہن میں یہ خیال رہتا ہے کہ انڈیا کے 100 روپے وہاں 160 روپے ہوں گے۔ لیکن یہاں آکر احساس ہوتا ہے کہ اضافی 60 روپے کی کیا قیمت ہے۔
مہنگائی صرف ٹھمیل تک محدود نہیں ہے۔ کچن کی تمام اشیاء مہنگی ہو گئی ہیں۔ گذشتہ سال کے مقابلے دال، تیل، آٹا اور چاول (فی کلو) کی قیمتوں میں 30 سے 90 روپے کا اضافہ ہوا ہے۔
مجبوریوں سے لڑتے لوگ
رواں ہفتے منگل کو پریم پرساد اچاریہ نامی 36 سالہ شخص نے نیپال کی پارلیمنٹ کے باہر خود سوزی کر لی۔
پریم پرساد نے خودکشی سے پہلے فیس بک پر ایک پوسٹ لکھی تھی اور اس میں بتایا تھا کہ ’وہ کاروبار میں ناکامی اور بے روزگاری کی وجہ سے ٹوٹ چکے ہیں، اس لیے انھوں نے خودکشی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘
نیپال کے وزیر اعظم پشپ کمل داہال پرچنڈ کی نیپال کمیونسٹ پارٹی (ماؤسٹ سینٹر) کے سٹوڈنٹ ونگ کے ایک رہنما نے اس خود سوزی پر کہا: ’شاید پریم پرساد اچاریہ نے محسوس کیا ہوگا کہ ان کی خود سوزی کے بعد نیپال میں لوگ مشتعل ہوں گے اور اتھارٹی سے سوال پوچھیں گے۔ لیکن پریم پرساد نہیں جانتے تھے کہ زندہ بھی مردہ ہوتے ہیں۔ خود سوزی کے بعد سب کچھ نارمل ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم زندہ مردے ہیں۔‘
اگر آپ کھٹمنڈو کے تریبھوون بین الاقوامی ہوائی اڈے پر رات آٹھ بجے پہنچیں تو دہلی کے ریلوے سٹیشن کی طرح بھیڑ نظر آتی ہے۔
کھٹمنڈو سے رات آٹھ بجے کے بعد بہت سی پروازیں خلیجی ممالک کے لیے روانہ ہوتی ہیں۔
گذشتہ 20 سالوں میں نیپالیوں کی ایک بڑی تعداد قطر، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک میں کام کے لیے گئی ہے اور جانے کا یہ سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا۔
کھٹمنڈو میں امریکی سفارت خانے کے مشرقی گیٹ کے قریب سکائی اوورسیز سروس کے نام سے ایک غیر ملکی ملازمت سے متعلق مشاورتی ادارہ ہے۔
یہاں کم از کم 50 افراد اپنے ویزے حاصل کرنے اور ملازمتوں کے لیے خلیجی ممالک جانے کے لیے دستاویزات جمع کروا رہے ہیں۔
بیرون ملک جانے کی کوشش
کپل وستو کے شبو بیگ سعودی عرب کا ویزا لینے یہاں آئے ہیں۔ کووڈ سے پہلے وہ وہاں ایک کنسٹرکشن کمپنی میں کام کرتے تھے۔
کووڈ کی وبا کی وجہ سے انھیں واپس آنا پڑا۔ وہ دوبارہ سعودی عرب جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔
شبو بیگ سے پوچھا کہ سعودی عرب میں دل لگتا ہے؟ ان کا جواب تھا: ’جہاں روزگار ہوگا، دل وہاں ہوگا۔ لیکن بیوی بچوں سے دور رہنا آسان نہیں ہے۔‘
نیپال پلاننگ کمیشن کے سابق رکن گنیش گرونگ کھٹمنڈو میں نیپال انسٹی ٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ سٹڈیز کے نام سے ایک انسٹی ٹیوٹ چلاتے ہیں۔
یہ انسٹی ٹیوٹ نیپال سے ہجرت کرنے کے معاملے پر کام کرتا ہے۔ گنیش گرونگ نے نیپال سے غیر ممالک میں ہجرت پر بہت سی تحقیق کی ہے۔
جب گنیش گرونگ سے نیپالیوں میں بیرون ملک جانے کی ریس کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے کہا: ’نیپال کے محکمہ برائے غیر ملکی روزگار کے مطابق خلیجی ممالک کے علاوہ یہاں سے روزانہ اوسطاً 2200 لوگ ملائیشیا اور جنوبی کوریا جا رہے ہیں۔ اس میں دوست ملک انڈیا جانے والوں کی تعداد شامل نہیں ہے۔ ان میں غیر قانونی طور پر بیرون ملک جانے والے افراد بھی شامل نہیں ہیں۔ اس سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ نیپال کے نوجوانوں میں کتنی بے چینی ہے۔‘
گنیش گرونگ کہتے ہیں: ’ان کی کمائی نیپال کی معیشت کے لیے لائف لائن ہے۔ ان نیپالیوں کی کمائی ملک کی جی ڈی پی کا 28 فیصد ہے۔ نیپال کی زراعت کا جی ڈی پی میں صرف 25 فیصد حصہ ہے، جب کہ سیاحت کا حصہ صرف چھ سے سات فیصد ہے۔ نیپال کے کل 40 لاکھ لوگ بیرون ملک کام کر رہے ہیں اور ان میں ہندوستان میں کام کرنے والے لوگ شامل نہیں ہیں۔‘
نیپال کے لیے ترسیل زر کی اہمیت اور خطرات
گنیش گرونگ کہتے ہیں: ’ہم اس ہجرت کو معیشت کے لیے اہم سمجھ رہے ہیں، لیکن طویل مدت میں یہ نیپال کے لیے مہلک ثابت ہوگا۔ یہ پائیدار حل نہیں ہے۔ باہر کی کمائی ہمیں زیادہ دیر تک برقرار نہیں رکھ سکتی۔ ہمیں ڈر ہے کہ کہیں ہم سری لنکا کی طرح نہ ہو جائیں۔
’اگر نیپال میں باہر سے پیسے آنا بند ہوئے تو یہاں کی معیشت بیٹھ جائے گی۔ سری لنکا جیسا بننے میں تھوڑا وقت بھی نہیں لگے گا۔ نیپال جس کنارے پر کھڑا ہے وہاں سے کھائی میں گرنے کا ڈر بہت زیادہ ہے۔
’اگر خلیجی ممالک میں کوئی ہلچل ہوئی تو نیپال براہ راست متاثر ہوگا۔ ایسے میں نیپال میں جو صورتحال ہوگی اس کا تصور کرنا مشکل ہے۔ اگر ترسیلات زر رک جاتی ہیں تو نیپال مالی طور پر ختم ہو جائے گا۔‘
یہ بھی پڑھیے
گنیش گرونگ کا کہنا ہے کہ ریمیٹینس کا آنا اچھی بات ہے لیکن اس پر انحصار کرنا بہت خطرناک ہے۔
’انڈیا سے 80 لاکھ لوگ خلیجی ممالک میں کام کرتے ہیں اور انھوں نے پچھلے سال تقریباً 70 بلین ڈالر کی کمائی بھیجی۔ لیکن بھارت کا اس 70 ارب ڈالر پر انحصار نہیں ہے۔
’جبکہ نیپالیوں نے گذشتہ سال بیرون ملک سے 8.5 بلین ڈالر بھیجے اور نیپال سال بھر اسی آمدنی سے چلتا ہے۔ اس کے علاوہ زرمبادلہ کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے۔‘
بیرون ملک نیپالیوں کی حالت
نیپال میں نوالپاراسی کے کرشنا گیاولی سے تریبھون ایئرپورٹ پر ملاقات ہوئی۔ وہ دبئی جا رہے تھے۔ کووڈ سے پہلے کرشنا ایک ٹریول ایجنسی میں کام کرتے تھے۔ کووڈ کے بعد ان کی ایجنسی بند کر دی گئی۔ کرشنا دو سال تک بے روزگار رہے۔ ایک بار پھر انھیں دبئی میں کام مل گیا ہے۔
کرشنا سے دبئی کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے کہا: ’دبئی بین الاقوامی کاروبار کا مرکز بن گیا ہے، لیکن اس میں بہت فرق ہے۔ کچھ لوگ بہت زیادہ پیسہ کما رہے ہیں، لیکن مزدور کے طور پر کام کرنے والوں کا استحصال ہو رہا ہے۔
’کہا جاتا ہے کہ وہاں کوئی جرم نہیں کرتا۔ پولیس بہت سخت ہے، لیکن اگر آپ کا استحصال ہو رہا ہے تو یہ پولیس کے لیے کوئی جرم نہیں ہے۔ آپ کا باس آپ سے جو بھی کام کرانا چاہے کروا سکتا ہے۔ پیسے دینے میں من مانی ہو سکتی ہے۔ مار بھی سکتے ہیں۔ لیکن اگر آپ شکایت کرنے پولیس کے پاس جائیں گے تو کوئی بھی آپ کی نہیں سنے گا۔‘
کرشنا گیاوالی کہتے ہیں: ’دبئی کا واحد مذہب پیسہ کمانا ہے۔ چاہے یہ پیسہ شراب بیچ کر کمایا گیا ہو یا استحصال سے۔ دبئی اب اتنا لبرل ہو گیا ہے کہ شراب اور استحصال اصلاح کا حصہ ہے، برائی نہیں۔ یہاں وائٹ کالر جاب کرنے والے نیپالیوں کے لیے تو ٹھیک ہے لیکن بلیو کالر جاب میں بے پناہ استحصال ہوتا ہے۔‘
نیپال کی حکومت کی لیبر مائیگریشن رپورٹ کے مطابق سنہ 2008 سے اب تک خلیجی ممالک میں تقریباً 8000 نیپالی مزدور ہلاک ہو چکے ہیں۔
2018 اور 2019 کے درمیان خلیجی ممالک میں 750 نیپالی کارکن ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان مزدوروں کا کوئی حساب کتاب نہیں جو غیر قانونی طور پر یا انڈیا کے ذریعے جاتے ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نیپالی مزدوروں کو مناسب خوراک اور پانی نہیں ملتا۔ مقررہ اوقات سے زیادہ کام لیا جاتا ہے جس کی وجہ سے کئی طرح کی بیماریاں انھیں گھیر لیتی ہیں۔
نیپال کی آبادی کا تقریباً 14 فیصد یعنی تقریباً 40 لاکھ لوگ بیرون ملک کام کرتے ہیں۔ نیپالی ماہر اقتصادیات ہری روکا کا کہنا ہے کہ بیرون ملک کام کرنے والے نیپالی یہاں کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ہری روکا کہتے ہیں: ’نیپال کے زرمبادلہ کے ذخائر کا بنیادی ذریعہ بیرون ملک مقیم نیپالیوں کی کمائی ہے۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق سنہ 2022 میں نیپالیوں نے بیرون ملک سے کمائی کے بعد 8.5 بلین ڈالر بھیجے تھے۔ 2021 میں یہ 8.2 بلین ڈالر تھا۔
نیپال سے مزدور برآمد ہوتے ہیں
نیپال کی شناخت ایک کاشتکاری والے ملک کے طور پر کی جاتی ہے اور کئی اقسام کی طبی مصنوعات کے علاوہ یہاں سے چائے کی پتی برآمد کی جاتی تھیں۔
لیکن نیپال اب مزدور برآمد کر رہا ہے۔ سنہ 1990 تک نیپال میں مکمل بادشاہت تھی۔ ایسے میں زیادہ تر نیپالیوں کو انڈیا کے علاوہ دوسرے ملکوں میں جانے کی اجازت نہیں تھی۔
گنیش گرونگ نے نیپال میں نقل مکانی کا مطالعہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سنہ 1990 میں جمہوریت آئی تو سب کے لیے پاسپورٹ بننا آسان ہوگیا۔
اس کے ساتھ ہی تیل نے خلیجی ممالک میں ترقی کی راہیں کھول دیں جہاں مزدوروں کی بہت زیادہ کمی تھی۔ ایسے میں یہ نیپال کے لوگوں کے لیے ایک موقع کی طرح تھا۔
1996 میں نیپال میں ماؤنوازوں کی ایک دہائی طویل پرتشدد شورش شروع ہوئی۔ اس کی وجہ سے نیپال کی معیشت بری طرح متاثر ہوئی۔ سنہ 2021 میں چھ لاکھ 20 ہزار نیپالی کارکن خلیجی ممالک گئے۔
نیپال کے قومی بینک کے سابق ایگزیکٹیو ڈائریکٹر نربہادر تھاپا کہتے ہیں: ’اگر خلیجی ممالک میں ایسی صورت حال پیدا ہوتی ہے کہ نیپالی کارکنوں کو واپس آنا پڑے تو نیپال مالی طور پر ٹوٹ جائے گا۔
’نیپال کی معیشت کا حجم مشکل سے 40 بلین ڈالر ہے۔ انڈیا والے تو اس سے تین گنا زیادہ کما کر بیرون ملک سے بھیجتے ہیں۔ نیپال کا تجارتی خسارہ 2021-22 میں بڑھ کر ایک ہزار 720 ارب روپے (نیپالی) ہو گیا ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا: ’انڈیا کے ساتھ نیپال کی تجارت 63.9 فیصد ہے۔ اسی لیے خسارہ بھی سب سے زیادہ انڈیا کے ساتھ ہے۔ نیپال کا انڈیا کے ساتھ تجارتی خسارہ 1044 ارب روپے سالانہ ہے۔
’نیپال کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اوسطاً 623 ارب روپے ہے اور یہ جی ڈی پی کا 12.8 فیصد ہے۔ ہم صرف اس بات کی امید کرتے ہیں کہ خلیجی ممالک میں کوئی منفی صورتحال پیدا نہ ہو اور نیپالی کارکن کام کرتے رہیں۔ اس کے علاوہ ہم کچھ نہیں کر رہے ہیں۔
’نیپال کے پاس اس وقت 9.18 بلین ڈالر کے زرمبادلہ کے ذخائر ہیں جو کہ 10 ماہ کے لیے کافی ہیں۔ لیکن یہ ختم ہونا شروع ہو گیا ہے۔ نیپال میں مینوفیکچرنگ کا شعبہ تباہ ہو چکا ہے۔ نوکریاں نہیں بچی ہیں۔ زراعت کو جدید نہیں بنایا جا رہا ہے۔
’جی ڈی پی میں خدمات کا حصہ بڑھ رہا ہے، لیکن ملازمت بہت کم ہے۔ ایسے میں صرف خلیجی ممالک اور ملائیشیا ہی نیپال کا سہارا بنے ہوئے ہیں۔ جن نیپالیوں کو بیرون ملک کام نہیں ملتا وہ انڈیا چلے جاتے ہیں۔‘
گلوبل ساؤتھ میں خلیجی خطہ تارکین وطن مزدوروں کا سب سے بڑا ٹھکانہ ہے۔ 1970 کی دہائی میں خلیجی ممالک میں صرف 2 ملین تارکین وطن مزدور تھے جو 2018 تک بڑھ کر 29 ملین ہو گئے۔
نیپال کا انڈیا پر انحصار
5.6 کروڑ خلیجی ممالک کی کل آبادی میں تارکین وطن کا حصہ بڑھ کر 51 فیصد ہو گیا ہے۔ یہاں سے غیر ملکی مزدور ہر سال 108 بلین ڈالر کما کر اپنے اپنے ممالک بھیجتے ہیں۔ تقریباً 80 لاکھ انڈینز بھی خلیجی ممالک میں کام کرتے ہیں۔
ہری روکا کہتے ہیں: ’نیپالی غربت کی وجہ سے خلیجی ممالک میں کام کرنے کے لیے ملک چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ نیپال میں غربت اور بے روزگاری کی وجہ سے کھپت کم ہو رہی ہے۔ انڈیا کا تجارتی خسارہ 485 ارب روپے تھا۔ اس میں 20 فیصد کی کمی آئی ہے۔
’اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نیپال کی انڈیا کو برآمدات بڑھی ہیں۔ بلکہ ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں، اس لیے ہم انڈیا سے خرید نہیں سکتے۔ ہم غربت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ نیپال کساد بازاری کی لپیٹ میں ہے۔ ہماری آمدنی کم ہو رہی ہے۔ ہمارے پاس کھانے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔‘
ہری روکا مزید کہتے ہیں: ’یہ تشویشناک بات ہے کہ ہم نہ صرف کساد بازاری کا شکار ہیں بلکہ ساتھ ہی بھارت پر ہمارا انحصار بھی بہت بڑھ گیا ہے۔ پہلے ہم سعودی عرب اور ایران سے بھی براہ راست تیل خریدتے تھے لیکن اب سارا تیل صرف انڈیا سے خریدتے ہیں۔ انڈیا نے کبھی ناکہ بندی کی تو ہم پھر مشکل میں پڑ جائیں گے۔‘
یہاں کے اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ نیپال کو کھائی میں گرنے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔
نیپال میں پلاننگ کمیشن کے سابق ڈپٹی چیئرمین سوارنم واگلے کا کہنا ہے کہ ’اس وقت نیپال کی 14 فیصد آبادی بیرون ملک کام کر رہی ہے اور مستقبل میں اس میں مزید اضافہ ہو گا، لیکن اس سے نیپال کی حالت زار کی تصویر ابھر رہی ہے۔‘
Comments are closed.