نیویارک کی سپر مارکیٹ میں فائرنگ سے دس افراد ہلاک، ’وہ آدمی فوجی انداز میں جھک کر لوگوں پر گولیاں برسا رہا تھا‘
امریکی ریاست نیویارک میں فائرنگ کے نتیجے میں دس افراد ہلاک ہو گئے ہیں جس کی تحقیقات نسلی بنیادوں پر نفرت پر مبنی جرم کے طور پر کی جا رہی ہیں۔
نیویارک کے دوسرے بڑے شہر بفیلو میں جائے وقوعہ سے ایک 18 برس کے نوجوان کو حراست میں لیا گیا ہے لیکن پولیس نے ابھی اس کا نام ظاہر نہیں کیا۔
مشتبہ شخص سنیچر کی سہ پہر ایک مصروف سپر مارکیٹ میں داخل ہوا اور فائرنگ شروع کر دی۔ پولیس نے بتایا کہ اس نے حملے کو آن لائن لائیو سٹریم کرنے کے لیے ایک کیمرے کا استعمال بھی کیا۔
امریکی تفتیشی ادارے ایف بی آئی نے فائرنگ کو ’پرتشدد انتہا پسندی‘ کی کارروائی قرار دیا ہے۔
نیویارک کی گورنر کیتھی ہوچول نے کہا ہے کہ مشتبہ شخص ’سفید فام بالادستی کا حامی ہے جو دہشت گردی کی کارروائی میں ملوث ہے۔‘
انھوں نے بفیلو میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ یہ ’فوجی طرز کی کارروائی تھی جس میں ان لوگوں کو نشانہ بنایا گیا، جو محض دکان سے اپنا سامان خریدنا چاہتے تھے۔‘
وائٹ ہاؤس کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’صدر اور خاتون اول مرنے والوں اور ان کے لواحقین کے لیے دعاگو ہیں۔‘
بفیلو آفس میں ایف بی آئی انچارج ایجنٹ سٹیفن بیلونگیا نے ایک نیوز کانفرنس کو بتایا کہ ’ہم اس واقعے کی تفتیش نفرت پر مبنی جرم اور پرتشدد نسلی انتہا پسندی دونوں کے طور پر کر رہے ہیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’ایسا سمجھا جا رہا ہے کہ مشتبہ شخص نے شہر کے سیاہ فام علاقے تک پہنچنے کے لیے کئی گھنٹے گاڑی چلائی۔‘
پولیس کمشنر جوزف گرامیگلیا نے کہا کہ 13 افراد کو گولی ماری گئی اور متاثرین میں سے زیادہ تر سیاہ فام ہیں۔
پولیس کے مطابق اس سپر مارکیٹ میں کام کرنے والے تین افراد زخمی ہیں اور انھیں جان لیوا زخم نہیں آئے۔
ایک ریٹائرڈ پولیس افسر، جو سپر مارکیٹ میں سکیورٹی گارڈ کے طور پر کام کر رہے تھے، نے مشتبہ شخص کو گولی مارنے کی کوشش کی لیکن وہ خود بھی ہلاک ہونے والوں میں شامل ہیں۔
پولیس نے بتایا کہ مشتبہ شخص کے پاس ایک طاقتور رائفل تھی اور اس نے حفاظتی لباس کے ساتھ ہیلمٹ بھی پہن رکھا تھا۔
ڈسٹرکٹ اٹارنی جان فلین نے کہا کہ اس شخص پر عدالت میں فرسٹ ڈگری قتل (دانستہ اور منصوبہ بندی سے قتل) کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ملزم پر مزید الزامات بھی عائد کیے جا سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
گلی کی دوسری جانب سے حملے کے ایک عینی شاہد نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ انھوں نے فوجی لباس میں ملبوس ایک شوٹر کو فائرنگ کرتے دیکھا۔
’پھر میں نے دیکھا کہ وہ آدمی فوج کے انداز میں جھکا ہوا لوگوں پر گولیاں برسا رہا تھا۔‘
سٹینڈ آف کے بعد 18 سالہ حملہ آور نے ہتھیار ڈالے
حملے کے وقت دکان میں کام کرنے والی شونیل ہیرس نے بفیلو نیوز کو بتایا کہ جب وہ پچھلے دروازے سے عمارت سے بچنے کے لیے بھاگیں تو انھوں نے 70 سے زیادہ بار گولیاں چلنے کی آوازیں سنیں۔
انھوں نے کہا کہ ’سٹور بھرا ہوا تھا۔ یہ ہفتے کا دن تھا۔ یہ ایک ڈراؤنے خواب کی طرح تھا۔‘
سی بی ایس نیٹورک سے بات کرتے ہوئے پولیس کے ذرائع نے الزام لگایا کہ وہ شخص حملے کے دوران نسلی گالیاں بھی دے رہا تھا۔
بفیلو کے میئر بائرن براؤن نے ایک نیوز کانفرنس میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’یہ سب سے برا خواب ہے جس کا سامنا کسی بھی کمیونٹی کو ہو سکتا ہے۔ یہ تکلیف دہ ہے اور ہم اس وقت پریشان ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’ہم اس نفرت انگیز شخص کو اپنی برادری یا اپنے ملک کو تقسیم نہیں کرنے دے سکتے۔‘
حملے کے بعد کے حالات بیان کرتے ہوئے ایک پولیس افسر نے بتایا کہ ’یہ کسی خوفناک فلم پر نظر آنے والے منظر جیسا تھا لیکن سب کچھ حقیقی تھا۔ یہ آرماگیڈن جیسا تھا۔‘
Comments are closed.