بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

عمران خان حکومت کے روس سے سستا تیل خریدنے کے دعوے کی حقیقت کیا؟

عمران خان حکومت کے روس سے سستا تیل خریدنے کے دعوے کی حقیقت کیا؟

  • تنویر ملک
  • صحافی، کراچی

پیٹرول

،تصویر کا ذریعہGetty Images

پاکستان کے سابق وزیر توانائی حماد اظہر نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کچھ روز قبل روسی وزیر توانائی کو لکھا گیا ایک سرکاری خط جاری کیا جس میں روس سے رعایتی نرخوں پر خام تیل، ڈیزل اور پٹرول درآمد کرنے کی تجویز تھی۔

حماد اظہر نے سرکاری خط موجودہ وزیر توانائی خرم دستگیر کے اس بیان کے بعد جاری کیا کہ سابقہ حکومت کی جانب سے روس سے کوئی ایسا سرکاری رابطہ نہیں کیا گیا کہ جس میں روس سے رعایتی نرخوں پر پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد پر بات کی گئی ہو۔

حماد اظہر کے سرکاری خط جاری کرنے کے بعد سوشل میڈیا پر بحث کا سلسلہ شروع ہو گیا جس میں عام لوگوں کے علاوہ معاشی امور کے سینیئر صحافی خرم حسین نے بھی حماد اظہر سے سوال کیا کہ کیا اس خط کے بعد روس کی جانب سے حکومتی سطح پر کوئی ایسا جواب آیا کہ جس میں رعایتی نرخوں پر تیل دینے کی یقین دہانی کرائی گئی ہو۔

خرم حسین نے حماد اظہر کی ٹویٹ کے جواب میں لکھا کہ روس کی جانب سے ایسی کسی پیشرفت کا اشارہ نہیں ملا جس میں وہ پاکستان کو رعایتی نرخوں پر تیل دینے جا رہا تھا۔

حماد اظہر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہ خط روس کی خواہش پر لکھا گیا کیونکہ روس 30 فیصد کم نرخوں پر تیل کی سپلائی کے لیے خریداروں کی تلاش میں ہے اور پاکستان کیونکہ تیل کی مصنوعات کا ایک بڑا درآمد کنندہ ہے اس لیے روس پاکستان کو بھی تیل بیچنا چاہتا ہے۔

حماد اظہر کی جانب سے سرکاری خط میں روس سے سستے تیل کی درآمد کے بارے میں پاکستان کی وزارت توانائی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ جب سرکاری خط سابقہ وزیر توانائی نے جاری کر دیا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ پاکستان کی جانب سے ایسا خط لکھا گیا۔

تاہم وزارت توانائی کے ترجمان نے بتایا کہ ابھی تک روس کی جانب سے ایسا کوئی جواب موصول نہیں ہوا کہ جس میں پاکستان کی جانب سے سستے تیل کی درآمد کے سلسلے میں کہا گیا ہو۔

پاکستان اس وقت تیل کی قیمتوں کے مسئلے سے دوچار ہے۔ سابقہ حکومت نے فروری کے آخر میں پٹرول و ڈیزل کی قیمتوں کو نئے مالی سال کے بجٹ تک منجمد کرنے کا اعلان کیا تھا جسے نئی مخلوط حکومت کی جانب سے ابھی تک برقرار رکھا گیا ہے تاہم قیمتوں کو نہ بڑھانے کی وجہ سے حکومت کو اربوں روپے کی سبسڈی دینی پڑ رہی ہے جس کا ملک کے خزانے پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔

تیل پر دی جانے والی سبسڈی کی وجہ سے پاکستان کے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ مذاکرات بھی کامیاب نہیں ہو رہے جو قرضہ پروگرام کی بحالی سے پہلے اس سبسڈی کا خاتمہ چاہتا ہے۔

روس سے سستے تیل کے سرکاری خط کی تجاویز؟

مواد پر جائیں

پوڈکاسٹ
ڈرامہ کوئین
ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

سابقہ وزیر توانائی حماد اظہر کی جانب سے جاری کیے جانے والا سرکاری خط تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے سے نو دن پہلے لکھا گیا تھا اور اس میں سابق وزیر اعظم عمران خان کے دورہ روس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات کا پس منظر بیان کرتے ہوئے کہا گیا کہ پاکستان روس سے خام تیل، پٹرول اور ڈیزل کی سستے نرخوں پر درآمد کے سلسلے میں دلچسپی رکھتا ہے۔

اس خط میں حماد اظہر نے روسی ہم منصب کو لکھا کہ وہ روس کے ان حکام کی تفصیلات فراہم کریں جو روس کے اداروں کی جانب سے اس سلسلے میں بات کو مزید بڑھائیں۔

حماد اظہر نے اگلے مہینے یعنی اپریل میں اس معاملے پر ڈیل طے کرنے کا لکھا۔ حماد اظہر نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ تحریک انصاف کی حکومت اپریل میں پہلے کارگوز کی خریداری کا منصوبہ رکھتی تھی۔

حماد اظہر نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ جب سابق وزیر اعظم کے دورۂ روس کے بعد اس سلسلے میں بات بڑھی تو ہم نے تیل اور گیس لینے کی بات کی تو روس نے اس سلسلے میں بہت زیادہ دلچسپی دکھائی۔

انھوں نے مزید بتایا کہ کچھ ہفتوں بعد روس میں پاکستان کے سفیر نے لکھا کہ روسی حکام چاہتے ہیں کہ پاکستان اس سلسلے میں بات بڑھائے جس کے بعد میں نے باضابطہ طور پر یہ خط روس کے وزیر توانائی کو لکھا تاہم انھوں نے کہا کہ ان کے خط لکھنے کے چند روز بعد اسمبلیاں تحلیل ہو گئیں اور پھر تحریک انصاف کی حکومت ختم ہو گئی۔

وزارت توانائی کے ترجمان زکریا علی شاہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہ خط لکھ کر ڈپلومیٹک بیگ کے ذریعے روس بجھوایا گیا تاہم انھوں نے بتایا کہ ابھی روس کی جانب سے اس خط کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا حماد اظہر کے ٹویٹ کے مطابق اپریل میں تیل کے کارگوز لانے کا منصوبہ تھا تو انھوں نے کہا کہ یہ خط مارچ کے آخری دنوں میں لکھا گیا تھا اور اتنی جلدی ممکن نظر نہیں آتا کہ اس ڈیل کے تحت کارگوز پہنچ جاتے۔

پوتن

،تصویر کا ذریعہGetty Images

کیا روس سے سستے تیل کی درآمد قابل عمل ہے؟

سابق وزیر توانائی کے مطابق رعایتی نرخوں پر تیل کی روس سے درآمد کا منصوبہ تھا، اس بارے میں معاشی امور کے سینیئر صحافی خرم حسین نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا روس سے تیل درآمد کرتا ہے تاہم یہ انڈیا کی توانائی کی ضروریات کا دس سے بارہ فیصد ہے اور یہ بہت پہلے سے روس سے درآمد کیا جا رہا ہے۔

لیکن اگر پاکستان روس سے تیل درآمد کرے، تو اس منصوبے کے قابل عمل ہونے کے بارے میں کچھ سوالات ہیں جن کے جوابات بہت ضروری ہیں کہ کیا روس سے تیل کا جہاز پاکستان بھیجنا قابل عمل ہے اور اس کے ساتھ کیا بینک اس بات کی لیے تیار ہوں گے کہ وہ روس سے تیل خریداری کے لیے فنانسنگ کریں۔

خرم حسین نے کہا کہ عمران خان اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور وہ آزاد خارجہ پالیسی کی بات کرتے ہیں جس کا ایک پہلو ان کا روس سے سستے تیل کی درآمد کا اعلان بھی ہے تاہم خرم کے مطابق ان کا یہ اعلان حقیقت پسندی پر مبنی نہیں۔

اس سلسلے میں حماد اظہر نے کہا کہ روس 30 فیصد سستا تیل دے کر بین الاقوامی خریداروں کو اپنی جانب راغب کرنا چاہتا ہے اور پاکستان کیونکہ تیل مصنوعات کا ایک بڑا درآمد کرنے والا ملک ہے اس لیے وہ یہ تیل پاکستان کو بھی رعایتی نرخوں پر بیچنے کا خواہاں تھا۔ حماد نے بتایا کہ منصوبے کے بعد اپریل کے مہینے میں یہ کارگو خریدا جانا تھا۔

بہر حال وزارت خزانہ کے ترجمان نے روس سے تیل کی درآمد کے منصوبے کو قابل عمل قرار دیا اور کہا کہ وزارت توانائی سمیت ہر حکومت کا یہی مقصد ہوتا ہے کہ وہ ملک و قوم کے مفاد میں کام کرے۔ انھوں نے کہا کہ روس سے تیل کی درآمد کا آپشن بھی دیکھا جا رہا ہے اور نئی حکومت کو بھی اس سلسلے میں بریف کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

روسی گیس پائپ لائنز کی مدد سے مشرقی اور مرکزی یورپ تک جاتی ہے

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

روسی گیس پائپ لائنز کی مدد سے مشرقی اور مرکزی یورپ تک جاتی ہے

کیا روسی خام تیل سے پاکستانی ریفائنریاں مصنوعات تیار کر پائیں گی؟

روس کے خام تیل کو پاکستان درآمد کر کے کیا اسے پاکستانی ریفائنریوں میں مصنوعات تیار کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کے جواب میں پاکستان ریفائنری شعبے کے افراد کا کہنا ہے کہ ایسا ہو سکتا ہے۔

تیل شعبے کے ماہر اور پاکستان ریفائنری کے چیف ایگزیکٹو زاہد میر نے بی بی سی کو بتایا کہ روسی خام تیل کو مقامی ریفائنریوں میں کام میں لایا جا سکتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ روس میں دو قسم کا خام تیل پیدا ہوتا ہے جن میں ایک سوکول (Sokol) اور دوسرا یورل(Ural) کہلاتا ہے۔

انھوں نے کہا دونوں قسم کے تیل استعمال ہو سکتے ہیں اور ان سے تیل کی مصنوعات تیار ہو سکتی ہیں تاہم ان کے مطابق سوکول زیادہ بہتر ہے جس سے کم فرنس آئل پیدا ہوتا ہے۔

زاہد میر نے کہا کہ اس وقت پاکستان میں مختلف ریفائنریوں میں مختلف خام تیل استعمال ہو رہے ہیں، جن میں عرب لائٹ خام تیل کے ساتھ عرب ایکسٹرا، کویت سپر اور ایک آدھ اور خام تیل استعمال ہو رہا ہے۔

زاہد میر نے کہا کہ ریفائنریوں میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ جس طرح دوسرے ممالک کے خام تیل کو پراسس کر رہی ہیں اسی طرح روسی خام تیل کو بھی استعمال میں لا سکتی ہیں۔

تیل

،تصویر کا ذریعہGetty Images

کیا روسی تیل پاکستان میں مقامی قیمتوں میں کمی لا سکتا ہے؟

پاکستان میں اس وقت پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں ملکی معیشت اور نئی حکومت کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ سابقہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ روس سے سستا تیل حاصل کرنے سے مقامی صارفین کو فائدہ ہوتا۔

سابق وزیر اعظم کے 28 فروری 2022 کے اعلان کے مطابق پٹرول و ڈیزل کی قیمتوں کو نئے مالی سال کے بجٹ تک منجمد کر دیا گیا تھا اور عالمی مارکیٹ میں بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے آنے والے فرق کو حکومت نے اپنے خزانے سے دینے کا اعلان کیا تھا۔

تیل پر دی جانے والی سبسڈی کی مالیت مارچ کے مہینے میں 33 ارب روپے سے زائد تھی جو اپریل کے مہینے میں عالمی مارکیٹ میں قیمتوں کے بڑھنے کی وجہ 60 ارب روپے تک چلی گئی۔

وزارت توانائی کی دستاویزات کے مطابق مئی کے مہینے میں اس سبسڈی کا حجم 118ارب روپے تک چلا جائے گا۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق رواں سال کے پہلے نو مہینوں میں پاکستان نے تقریباً پندرہ ارب ڈالر پٹرولیم مصنوعات درآمد کیں جن میں پچھلے سال کے انھی مہینوں میں سو فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اگرچہ درآمدات کے حجم میں کچھ اضافہ دیکھنے میں آیا تاہم تیل کی عالمی قیمتوں کے مہنگا ہونے کی وجہ سے درآمدات کی مالیت میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔

تیل

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ملک کے بڑھتے ہوئے مالی خسارے کو کم کرنے اور قرضہ پروگرام کی بحالی کے لیے آئی ایم ایف پٹرول و ڈیزل کی قیمتوں پر دی جانے والی سبسڈی کا خاتمہ چاہتا ہے تاہم موجودہ حکومت ابھی تک اس پر کوئی فیصلہ نہیں لے سکی ہے۔

زاہد میر نے روسی خام تیل کی درآمد سے پاکستان میں مصنوعات کی قیمتوں میں کمی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ اتنا آسان نہیں کیونکہ خام تیل حکومت پاکستان نہیں بلکہ ریفائنریاں عالمی مارکیٹ سے خریدتی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ حکومت صرف قیمت کا تعین کرتی ہے اور یہ قیمت پٹرول و ڈیزل کی عالمی قیمتوں کی بنا پر مقامی مارکیٹ میں مقرر ہوتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ جب حکومت قیمت مقرر کرتی ہے تو یہ پٹرول اور ڈیزل کی عالمی قیمتوں پر طے کی جاتی ہے نہ کہ خام تیل کی قیمت پر اس کا تعین ہوتا ہے۔

انھوں نے کہا اگر روس سے رعایتی نرخوں پر خام تیل آتا ہے تو اس حکومت کو قیمت مقرر کرنے کا فارمولہ بدلنا پڑے گا۔

’روس سے آنے والے خام تیل سے اگر صارفین کو کوئی فائدہ پہنچانا ہے تو اس کے لیے حکومت کو سستا خام تیل خریدنے کی وجہ سے ڈالر میں تو بچت ہو گی لیکن جب اس سے بننے والی ڈیزل اور پٹرول کی مصنوعات کا تعین ان کی عالمی مارکیٹ کیقیمتوں پر ہوگا تو اس کے لیے حکومت کو اس طرح بھی سبسڈی دینی پڑے گی تاہم اس کی مالیت اتنی زیادہ نہیں ہو گی کیونکہ خام تیل رعایتی نرخوں پر مل رہا ہو گا۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.