اسلام آباد :سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے چیئرمین پی ٹی آئی کی نیب ترامیم کے خلاف درخواست پر فل کورٹ بنانے کا مشورہ دے دیا اور نیب ترامیم کے خلاف سماعت کرنے والے بینچ پر اعتراض اٹھا دیا۔
جمعہ کو سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیخلاف چئیرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل 3 رکنی بنچ نے سماعت کی ۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ میرے خیال میں اس کیس کو فل کورٹ کو سننا چاہیے، میری تجویز ہے کہ چیف جسٹس پاکستان فل کورٹ تشکیل دیں، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی موجودگی میں یہ کیس پانچ ممبرز کو سننا چاہیے۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس میں کہا کہ ابھی تک پریکٹس اینڈ پروسیجرایکٹ کا فیصلہ نہیں ہوا، اگر سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا فیصلہ ہو جاتا تو معاملہ مختلف ہوتا، خصوصی عدالتوں سے متعلق کیس میں 22 جون کومیں نینوٹ لکھا، اور اس کیس میں بھی فل کورٹ بنانے کی تجویز دی تھی، میرا اعتراض ہے کہ اس طرح کے معاملات فل کورٹ ہی سن سکتی ہے۔
دوسری جانب چیرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث خرابی صحت کے باعث عدالت میں پیش نہ ہوئے اور ان کی جانب سے وکیل ڈاکٹر یاسر امان عدالت میں پیش ہوئے۔وکیل ڈاکٹر یاسر نے عدالت سے خواجہ حارث کی عدم حاضری پر معذرت کی۔ اور بتایا کہ خواجہ حارث کی طبیعت ناساز ہے، انہوں نے اپنی جگہ مجھے پیش ہونے کی اجازت دی ہے، خواجہ حارث نے عدالت سے معذرت کی ہے۔ جس پر عدالت نے خواجہ حارث کے معاون وکیل کو دلائل دینے کی اجازت دے دی۔سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت 28 اگست تک ملتوی کردی۔
Comments are closed.