نوجوانی میں لیموں پانی اور بیگل بریڈ فروخت کرنے والے اردوغان ترکی کے طاقتور سربراہ کیسے بنے

اردوغان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ایک عام زندگی سے آغاز کرنے کے بعد رجب طیب اردوغان آج ایک بہت بڑی سیاسی شخصیت بن گئے ہیں، وہ 20 سال سے ترکی کی قیادت کر رہے ہیں اور انھوں نے جدید ترک جمہوریہ کے بانی مصطفی کمال اتاترک کے بعد کسی بھی رہنما سے زیادہ اپنے ملک کی تشکیل نو کی ہے۔

تاہم اب ان کے اقتدار کے تیسری دہائی تک بڑھنے کے امکانات کم ہیں کیونکہ ترکی 1999 کے بعد سے اپنے سب سے زیادہ تباہ کن زلزلے سے گزرا ہے۔

حزب اختلاف نے ان پر الزام لگایا کہ وہ طاقتور زلزلوں کے شکار ملک میں تباہی سے بچنے کے اقدامات کرنے میں ناکام رہے ہیں اور معیشت کو تباہی کے دہانے پر لے آئے۔

اقتدار کی جانب سفر

فروری 1954 میں پیدا ہونے والے اردوغان کے والد ساحلی محافظ (کوسٹ گارڈ) تھے۔ جب رجب طیب اردوغان 13 سال کے تھے تو اُن کے والد نے اپنے پانچ بچوں کی بہتر پرورش کی امید میں استنبول منتقل ہونے کا فیصلہ کیا۔

نوجوان اردوغان نے پیسے کمانے کے لیے لیموں پانی اور تلوں والے بیگلز فروخت کیے جنھیں ترکی میں ’سمیت‘ کہا جاتا ہے۔ استنبول کی مرمرہ یونیورسٹی سے مینجمنٹ میں ڈگری حاصل کرنے سے پہلے انھوں نے ایک اسلامی سکول سے تعلیم حاصل کی۔

ان کی یونیورسٹی ڈگری اکثر تنازعات کا باعث رہی ہے، حزب اختلاف کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس یونیورسٹی کی مکمل ڈگری نہیں ہے بلکہ یہ ایک کالج ڈپلومہ کے برابر ہے۔ اردوغان نے ہمیشہ اس الزام کی تردید کی ہے۔

نوجوان اردوغان نے فٹ بال میں بھی دلچسپی لی اور 1980 کی دہائی تک نیم پیشہ ور فٹبال ٹیموں کا حصہ رہے۔

لیکن ان کی اصل دلچسپی سیاست تھی۔ 1970 اور 80 کی دہائیوں میں، وہ اسلام پسند حلقوں میں سرگرم تھے اور نیکمتن اربکان کی حامی اسلامک ویلفیئر پارٹی میں شامل ہوئے۔

اردوغان

،تصویر کا ذریعہAFP

جب 1990 کی دہائی میں پارٹی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا تو اردوغان نے سنہ 1994 میں استنبول کے میئر کے لیے انتخاب میں حصہ لیا اور اگلے چار سال تک اس شہر کے نظام کو چلاتے رہے۔

ترکی کے پہلے اسلام پسند وزیر اعظم اربکان نے سنہ 1997 میں فوج کے ہاتھوں مجبور ہو کر استعفیٰ دینے سے پہلے صرف ایک سال کے لیے عہدے پر کام کیا اور اردوغان بھی ملک کے سخت سیکولر حکام کے ساتھ تنازع میں گھر گئے۔

اسی سال انھیں ایک قوم پرست نظم کو عوامی سطح پر پڑھنے پر نسلی نفرت کو بھڑکانے کا مجرم قرار دیا گیا جس میں یہ سطریں شامل تھیں: ’مساجد ہماری بیرکیں، گنبد ہمارے ہیلمٹ، مینار ہمارے چھرے اور وفادار ہمارے سپاہی۔‘

چار ماہ جیل میں رہنے کے بعد وہ سیاست میں واپس آ گئے۔ لیکن سنہ 1998 میں جدید ترک ریاست کے سخت سیکولر اصولوں کی خلاف ورزی کرنے پر ان کی جماعت پر پابندی لگا دی گئی۔

اگست 2001 میں انھوں نے سیاسی اتحادی عبداللہ گل کے ساتھ مل کر ایک نئی اسلام پسند پارٹی جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی (اے کے پی) کی بنیاد رکھی۔

اردوغان کی مقبولیت خاص طور پر دو گروہوں میں بڑھ رہی تھی، پہلا گروہ ترکی کی متقی اکثریت جو ملک کے سیکولر اشرافیہ کے ہاتھوں پسماندہ محسوس کرتی تھی اور دوسرے وہ لوگ جو 1990 کی دہائی کے آخر میں معاشی بدحالی کا شکار تھے۔

سنہ 2002 میں اردوغان کی پارٹی ’اے کے پی‘ نے پارلیمانی انتخابات میں اکثریت حاصل کی اور اگلے سال اردوغان کو وزیر اعظم مقرر کر دیا گیا۔ وہ آج تک پارٹی کے چیئرمین ہیں۔

ترکی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

تین مرتبہ وزیر اعظم

سنہ 2003 سے انھوں نے بطور وزیر اعظم تین مرتبہ اپنی حکومت کی مدت مکمل کی ہے اور اس دوران انھیں بین الاقوامی سطح پر ملک کی مستحکم اقتصادی ترقی کرنے والے اور اصلاحات کرنے والے رہنما کے طور پر سراہا گیا ہے۔

ان کے دور اقتدار میں ملک کے متوسط طبقہ میں اضافہ ہوا اور لاکھوں افراد غربت کی لکیر کی سطح سے اوپر اٹھے کیونکہ اردوغان نے ترکی کو جدید بنانے کے لیے بڑے ترقیاتی منصوبوں کو ترجیح دی۔

رجب طیب اردوغان اقتدار کے پہلے برسوں کے دوران ترکی کی کرد اقلیت کے ووٹروں کو بھی قائل کرنے میں کامیاب رہے۔ کردوں کے حقوق کو بہتر بنایا گیا اور تین دہائیوں کے تنازع کے بعد مارچ 2013 میں ایک نیا امن عمل شروع کیا گیا جس کی وجہ سے عسکریت پسند گروپ کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) نے جنگ بندی کا اعلان کیا۔ لیکن یہ معاہدہ صرف دو سال تک جاری رہا اور تشدد کا طویل سلسلہ واپس آ گیا۔

سنہ 2013 تک ان کے ناقدین نے یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ اردوغان تیزی سے آمرانہ رویوں کے حامل ہوتے جا رہے ہیں۔

سنہ 2013 کے موسم گرما میں مظاہرین اردوغان کی حکومت کی جانب سے استنبول کے وسط میں واقع ایک پسندیدہ پارک کو تبدیل کرنے کے منصوبے اور ان کی آمرانہ حکمرانی کے خلاف احتجاج کرتے سڑکوں پر آ گئے تھے۔ اردوغان نے گیزی پارک سے مظاہرین کی جبری بے دخلی کا حکم دیا اور مظاہرین پر پولیس فورس کے بے تحاشہ استعمال نے ملک میں بڑے پیمانے پر مظاہروں کی ایک لہر کو جنم دیا تھا۔

یہ ان کی حکمرانی کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہوا کیونکہ وہ اپنے مخالفوں کے لیے ایک جمہوریت پسند سے زیادہ سلطنت عثمانیہ کے سلطان کی طرح کام کر رہے تھے۔

مسلمانوں کی بحالی

صدر اردوغان کی پارٹی نے یونیورسٹیوں اور عوامی مقامات میں خواتین کے سر پر سکارف پہننے پر عائد پابندی کو ہٹانے کے لیے بھی اقدام کیا جو 1980 میں فوجی بغاوت کے بعد متعارف کرایا گیا تھا۔ بالآخر پولیس، فوج اور عدلیہ میں خواتین کے لیے یہ پابندی ختم دی گئی۔

ناقدین یہ شکایت کرتے ہیں کہ انھوں نے مصطفی کمال اتاترک کی سیکولر جمہوریہ کے ستونوں کو توڑ دیا ہے۔ خود مذہبی ہونے کے باوجود اردوغان نے ہمیشہ اسلامی اقدار کو قومی سطح پر مسلط کرنے کی خواہش سے انکار کیا اور اس بات پر اصرار کیا کہ وہ صرف ترکوں کے اپنے مذہب کے زیادہ کُھلے اظہار کے حقوق کی حمایت کرتے ہیں۔

تاہم انھوں نے بار بار کہا کہ معاشرے میں خواتین کا بنیادی کردار ’روایتی صنفی کرداروں کو پورا کرنا‘ ہونا چاہیے اور ایک عورت کے لیے ’ایک مثالی ماں اور ایک مثالی بیوی بننا‘ کسی بھی چیز سے بڑھ کر ہے۔

انھوں نے حقوق نسواں کے حامیوں کی مذمت کی اور کہا کہ مردوں اور عورتوں کے ساتھ یکساں سلوک نہیں کیا جا سکتا۔

صدر اردوغان نے طویل عرصے سے اسلامی مقاصد اور سیاسی اسلام کی حمایت کی ہے۔ وہ گروہ جو نظریاتی طور پر مصر کی جبر کا شکار اخوان المسلمون کے حامی ہیں۔ انھوں نے ایک موقع پر چار انگلیوں کے اشارے والا سلام بھی کیا ہے جسے ربا کہا جاتا ہے۔

جولائی 2020 میں انھوں نے استنبول کی تاریخی عمارت آیہ صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کرنے کے عمل کی نگرانی کی جس سے بہت سے مسیحی اور سیکولر ترک مسلمان ناراض ہوئے۔ یہ 1,500 سال قبل ایک کلیسا کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا، اور دور عثمانیہ میں ترکوں نے اسے ایک مسجد میں تبدیل کیا تھا، لیکن اتاترک نے اسے ایک میوزیم میں تبدیل کر دیا تھا جو کہ نئی سیکولر ریاست کی علامت ہے۔

ترکی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اقتدار پر مضبوط گرفت

سنہ 2014 میں انھیں تین مرتبہ بطور وزیر اعظم اپنی مدت مکمل کرنے کے بعد دوبارہ انتخاب لڑنے سے روکے جانے کے بعد وہ ملک کے صدر کے طور پر انتخابات میں سامنے آئے تھے۔

انھوں نے اس عہدے میں نئی آئینی ترامیم کے تحت اصلاحات کرنے کا منصوبہ بنایا تھا اور جس کے بارے میں ناقدین کا کہنا ہے کہ اس سے انھوں نے ملک کی سیکولر اسٹیبلشمنٹ کو چیلنج کیا۔

لیکن اپنے دور صدارت کے اوائل میں انھیں اپنے اختیارات کے حوالے سے دو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ پہلی یہ کہ ان کی پارٹی سنہ 2015 میں کئی مہینوں تک پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت کھو چکی تھی اور پھر اگلے سال 15 جولائی 2016 کو ترکی نے کئی دہائیوں میں پہلی بار فوجی بغاوت کی کوشش کا سامنا کیا تھا۔

اس واقعے میں فوجی بغاوت کرنے والوں کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے تقریباً 300 شہری ہلاک ہو گئے تھے۔

اس سازش کا الزام فتح اللہ گولن نامی امریکہ میں مقیم اسلامی سکالر کی قیادت میں گولن تحریک پر لگایا گیا تھا۔

ان کی سماجی اور ثقافتی تحریک نے اردوغان کو لگاتار تین انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے میں مدد کی تھی، لیکن جب دونوں اتحادیوں میں پھوٹ پڑی تو اس کے ترک معاشرے پر ڈرامائی اثرات مرتب ہوئے۔

سنہ 2016 کی بغاوت کی کوشش کے بعد، تقریباً 150,000 سرکاری ملازمین کو برطرف کیا گیا اور 50,000 سے زیادہ افراد کو حراست میں لیا گیا، جن میں فوجی، صحافی، وکلا، پولیس افسران، ماہرین تعلیم اور کرد سیاستدان شامل ہیں۔

اردوغان کی جانب سے ناقدین پر اس کریک ڈاؤن نے بین الاقوامی سطح پر خطرے کی گھنٹی بجائی اور ترکی کے یورپی یونین کے ساتھ تعلقات میں سرد مہری آ گئی۔ اس کے بعد سے ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کی کوششوں میں کئی برسوں سے کوئی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ ایسے میں یونان میں تارکین وطن کی بڑی تعداد نے معاملات کو مزید کشیدہ کیا۔

سنہ 2017 میں وہ بہت کم فرق سے صدارتی ریفرنس جیتے تھے جس کے بعد انھیں لا محدود صدارتی اختیارات حاصل ہوئے جن میں ملک میں ایمرجنسی نافذ کرنا اور اعلیٰ سرکاری افسران کی تعیناتی سمیت قانونی نظام میں مداخلت کرنے کا اختیار شامل ہے۔

ترکی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

بین الاقوامی شخصیت

اپنے دور حکمرانی کے دوران، صدر اردوغان بین الاقوامی سیاست میں بھی ایک اہم شخصیت کے طور پر سامنے آئے۔ انھوں نے ایک علاقائی طاقت کے طور پر ترکی کو پیش کیا اور مضبوط سفارتکاری سے یورپ اور دیگر دنیا کے اتحادیوں کو ناراض کیا۔

اگرچہ وہ ایک نیٹو رکن ملک کے سربراہ ہے لیکن ان کے روسی صدر ولادیمیر پوتن سے قریبی تعلقات ہیں اور انھوں نے روس اور یوکرین جنگ میں خود کو ایک ثالث کے طور پر پیش کیا ہے۔

انھوں نے بحیرۂ اسود کے راستے کے ذریعے اجناس کی برآمد کی محفوظ تجارت کے معاہدے کو ممکن بنانے کے لیے مدد دی اور جب روس نے اس معاہدے کو توڑنے کی کوشش کی تو اس کو قائم رکھنے میں مدد دی۔

انھوں نے سویڈن اور فن لینڈ کو بھی مغربی اتحاد میں شامل ہونے کے لیے اپنی بولیوں کا انتظار کیا۔ آخر کار انھوں نے فن لینڈ کے الحاق کی منظوری دے دی لیکن سویڈن کو باہر رکھا، یہ الزام لگاتے ہوئے کہ ملک نے کرد علیحدگی پسندوں اور دوسرے مخالفین کو پناہ دی ہے جنھیں وہ ’دہشت گرد‘ سمجھتے تھے۔

انتخابی ناکامی

بہت سے ناقدین 2019 کے بلدیاتی انتخابات کو صدر اردوغان کے طویل اقتدار کے لیے ’پہلا دھچکے‘ کے طور پر دیکھتے ہیں کیونکہ ان کی پارٹی تین بڑے شہروں استنبول، انقرہ اور ازمیر میں ہار گئی تھی۔

مرکزی اپوزیشن ریپبلکن پیپلز پارٹی (سی ایچ پی) کے اکریم اماموگلو سے استنبول کی میئر شپ ہارنا اردوغان کے لیے ایک تلخ دھچکا تھا، جو 1990 کی دہائی میں شہر کے میئر رہ چکے تھے۔

اب اماموگلو اپنی اس کامیابی کو قومی سطح پر بڑھانا چاہتے ہیں۔ وہ اردوغان کے مخالف صدارتی امیدوار کمال کیلداگلو کے ساتھ صدارتی مہم چلا رہے ہیں۔

ترکی میں 50,000 سے زیادہ افراد کی ہلاکت اور لاکھوں افراد کو بے گھر کرنے والے تباہ کن زلزلے کے لیے حکومت کی تیاری کی کمی اور سست ردعمل پر تنقید ان بہت سے چیلنجوں میں سے ایک ہے جن کا اردوغان کو سامنا ہے۔ ایک اور معیشت کی خراب حالت ہے، جس میں لاکھوں لوگ زندگی کے بحران سے دوچار ہیں۔

ترک صدر اردوغان کے دو دہائیوں سے جاری اقتدار کو 14 مئی کو ملک میں ہونے والے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات میں ایک طاقتور سیاسی اتحاد کے خلاف کانٹے دار مقابلے کا سامنا ہے۔

یہ تحریر بی بی سی نیوز آن لائن یورپ کے ایڈیٹر پال کربی کے ایک مضمون پر مبنی ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ