اسلام آباد: چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے نواز شریف اور مریم نواز کی اپیلوں سے متعلق سابق جج کے انکشافات پر سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم، خبر دینے والے صحافی سمیت دیگر کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کردیئے ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز کی نیب ریفرنسز فیصلوں پر نظر ثانی اپیلوں سے متعلق انکشافات کا نوٹس لے لیا ہے۔عدالتی ذرائع کے مطابق معاملے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کا نام آنے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق جج رانا شمیم کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا ہے۔
عدالت نے صحافی انصار عباسی کے خلاف بھی توہین عدالت کی کارروائی کا آغاز کردیا ہے، جبکہ ایڈیٹر دی نیوز عامر غوری اور اخبار کے مالک اور چیف ایڈیٹر میر شکیل الرحمن کو بھی نوٹسز جاری کردیے ہیں۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ زیر التوا مقدمات پر اس طرح رپورٹنگ کرنا جائز ہے، یہ عدالتی کارروائی پر اثر انداز ہونے کے مترادف ہے، عدالتی کارروائی پر اثر انداز ہونا برداشت نہیں کریں گے، اس عدالت کے ہر جج پر فخر ہے، ہم اس کو بہت سنجیدہ لیں گے، عدالت کی آزادی کو مشکوک بنانا برداشت نہیں کیا جائے گا۔
خیال رہے کہ آج کے روزنامہ دی نیوز اخبار میں خبر شائع ہوئی ہے، جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا ایم شمیم نے 10 نومبر 2021 کو اوتھ کمشنر کے روبرو اپنے حلفیہ بیان میں کہا ہے کہ چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار نے ہائی کورٹ کے ایک جج کو حکم دیا تھا کہ 2018ء کے عام انتخابات سے قبل نواز شریف اور مریم نواز کو ضمانت پر رہا نہ کیا جائے، جب دوسری جانب سے یقین دہانی ملی تو وہ (ثاقب نثار) پرسکون ہو گئے اور ایک اور چائے کا کپ طلب کیا“۔
دوسری جانب سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے جسٹس ریٹائرڈ رانا شمیم کے دعوے کی تردید کرتے ہوئے مقامی اخبار کی خبر کو حقائق کے منافی قرار دیا تھا۔سابق چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ رانا شمیم بطورچیف جسٹس گلگت بلتستان عہدے کی ایکسٹینشن مانگ رہے تھے، جو میں نے منظورنہیں کی، رانا شمیم کے سفید جھوٹ پر کیا جواب دوں، ممکن نہیں اپنے خلاف چلنے والی خبروں کی وضاحتیں دیتا پھروں۔
بعد ازاں جسٹس ریٹائرڈ راناشمیم نےسابق چیف جسٹس ثاقب نثار کاالزام مستردکردیا اور کہا کہ اپنے حلف نامے پر قائم ہوں، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے پاس مجھے ایکسٹینشن دینے کا اختیار ہی نہیں تھا۔
Comments are closed.