’نظر آئے تو مارے جاؤ گے۔۔۔‘: عرب برادری جو اسرائیل اور حماس کی لڑائی کے بیچ پھنس گئی ہے
بدوؤں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حکومت انھیں نظر انداز کرتی ہے
- مصنف, فراس کیلانی
- عہدہ, بی بی سی عربی، جنوبی اسرائیل
عطا ابو مدیگام کا فون بجے جا رہا ہے۔ مگر ان کالز میں ان کی خیر دریافت نہیں کی جا رہی بلکہ قتل کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ ایک آدمی چلا کر انھیں کہتا ہے کہ ’اگر میں نے تمھیں دیکھا تو تمھیں مار دوں گا۔‘
مدیگام اسرائیل میں دو لاکھ کی آبادی والی عرب برداری سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس مسلم برداری نے حماس کے حملے میں اپنے 16 ساتھیوں کو کھو دیا ہے۔
وہ صحرائے نقب میں راحت کے میئر ہیں۔ یہ عرب بدوؤں کا مرکزی شہر ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ کالز مغربی کنارے اور غزہ سے آ رہی ہیں۔‘ جیب میں ان کا فون بار بار بج رہا ہے۔
کسی نے جان بوجھ کر بُری نیت کے ساتھ ان کا موبائل نمبر سوشل میڈیا پر شیئر کر دیا ہے۔
وہ بعض اوقات دوسری طرف سے بات کرنے والے شخص کو قائل کرنے اور اس سے بحث کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کئی بار انھیں چیخ چیخ کر اپنا پیغام پہنچانا پڑتا ہے۔
مگر ان کی بات کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ ان پر الزام ہے کہ وہ حماس کے عسکریت پسندوں کو اسرائیلی حکام کے حوالے کرتے ہیں۔
مدیگام بتاتے ہیں کہ ’وہ کہہ رہے ہیں کہ راحت میں (حماس کے) جنگجو مارے گئے۔۔۔ یہ سب جھوٹ ہے۔‘
عطا ابو عطا ابو مدیگام ایک اسرائیلی شہر کے میئر ہیں
اسرائیلی حکومت سے تعلق کی وجہ سے عرب بدوؤں اور فلسطینی برداری کے درمیان تناؤ رہتا ہے۔
عرب برادری میں سے بعض افراد اسرائیلی فوج اور دیگر سکیورٹی فورسز کا حصہ ہیں اور اس پر فلسطینی نالاں ہیں۔
عرب برداری نے یہ بھی کہا ہے کہ اسرائیلی ریاست ان کے ساتھ امتیازی سلوک رکھتی ہے۔
وہ مسلم برداری جو اس حملے سے متاثر ہوئی
راحت کے گرد صحرائے نقب کے سات لوگ لاپتہ ہیں۔ ان کے خاندانوں کا کہنا ہے کہ انھیں حماس نے غزہ میں یرغمال بنا رکھا ہے۔ انھوں نے اپنی جان کو لاحق خطرے کے باعث شناخت ظاہر نہیں کی۔
الزیدنا نے کچھ لاشیں خاندان تک پہنچانے میں مدد کی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ حملے عرب برداری پر نہیں کیے گئے تھے تاہم وہ اس کی زد میں آ گئے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’جس نے بھی باہر نکل کر ایسا کیا وہ جانتا تھا کہ وہ کیا کر رہا ہے۔‘
،تصویر کا ذریعہFamily handout
عبدالرحمان کے پاس آگے پوری زندگی پڑی تھی جب انھیں حماس کے حملے میں ہلاک کیا گیا
عبدالرحمان ساحل کے قریب کیمپنگ پر تھے جب انھیں حماس کی جانب سے قتل کیا گیا۔ یہ مقام غزہ کی لکیر سے صرف تین کلو میٹر دور تھا۔ ان کی عمر 26 سال تھی۔
ان کے والد عاطف غم سے نڈھال ہیں اور بات کرنے کے قابل نہیں۔ ان کے والد کے بھائی نے انھیں اس بارے میں اطلاع دی۔
آدم نے اپنے بھائی عاطف کو بتایا کہ ’خدا آپ کو اس کا بدلہ دے گا۔‘
آدم بتاتے ہیں کہ ’وہ گِر پڑے۔ کوئی ایسے لمحے میں کیسے خود کو سنبھال سکتا ہے؟‘
غم سے متاثرہ والد
سابق اسرائیلی کمانڈر یئر گولان اپنے خاندان سے ملنے آئے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے واقعے پر ہمدردی ظاہر کی مگر یہ دورہ اسرائیلی حکام کے خلاف غم و غصے کا نقطۂ آغاز بنا۔
ایک شخص نے چیخ کر کہا کہ ’اس جنگ میں ہم متاثر ہو رہے ہیں۔ میں سب بدوؤں کی نمائندگی کرتا ہوں۔ حکومت اور وزارتوں کو شرم آنی چاہیے۔‘
اس برادری کا کہنا ہے کہ اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد سے ان کی اموات کی زیادہ کوریج نہیں کی گئی ہے۔
اسرائیلی حکام پر تاریخی اعتبار سے بھی عرب برداری کو نظر انداز کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے۔
ان پر الزام ہے کہ وہ ان کے پانی اور بجلی کے کنیکشن نہیں لگاتے، خاص کر ’غیر تسلیم شدہ گاؤں‘ میں جنھیں حکومت غیر قانونی سمجھتی ہے۔ عرب برداری اکثر جگہوں پر نامناسب حالات میں زندگی بسر کرنے پر مجبور رہی ہے۔
گولان نے کہا کہ ’دہشتگردوں کے حملے نے عرب، بدوؤں یا یہودیوں میں تفریق نہیں کی۔ انھوں نے سب کا قتل کیا۔‘
جب ان سے پوچھا گیا برداری حکام سے نالاں کیوں ہے تو انھوں نے کہا کہ معیشت کی بہتری کے لیے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ ’ہمیں مشترکہ مستقبل بنانا ہے۔‘
ایک سابق اسرائیلی کمانڈر نے خاندان سے ہمدردی ظاہر کی مگر انھیں مخالفت کا سامنا کرنا پڑا
تاہم حماس کے حملے کے بعد یہ خواب دور جاتا نظر آ رہا ہے۔
میں نے ایک بدو کو یہ کہتے سنا کہ وہ سڑک پر چلتے ہوئے ڈرتے ہیں، فلسطینیوں اور اسرائیلی یہودیوں دونوں سے۔
حملے کے بعد سے اسرائیلی حکومت اس نظریے کی تشہیر کر رہی ہے کہ بدوؤں اور اسرائیلیوں کا ایک مشترکہ دشمن ہے یعنی حماس۔
مگر بدوؤں کو لگتا ہے کہ وہ دونوں کے بیچ پھنس گئے ہیں۔
Comments are closed.