سابق وزیر نصرت غنی: ‘مجھے مسلمان ہونے کی وجہ سے نوکری سے نکالا گیا‘
برطانیہ میں ایک سابقہ مسلمان رکنِ پارلیمان کا کہنا ہے کہ ان کے مذہب کا معاملہ ایک حکومتی وہپ کے ذریعے اٹھایا گیا تھا جس کی وجہ سے انھیں سنہ 2020 میں وزیر کے عہدے سے برطرف کر دیا گیا۔
سنڈے ٹائمز کے مطابق، ٹوری پارٹی سے تعلق رکھنے والی نصرت غنی کا کہنا ہے کہ جب انھوں نے وضاحت طلب کی تو کہا گیا کہ ان کے مسلمان ہونے کو ایک مسئلے کے طور پر اٹھایا گیا ہے۔
کنزرویٹو پارٹی کے چیف وہپ مارک سپینسر کا کہنا ہے غنی ان کی جانب اشارہ کر رہی ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ نصرت غنی کے دعوے مکمل طور پر جھوٹے ہیں اور وہ انھیں ہتک آمیز سمجھتے ہیں۔
کابینہ کے وزیر ندیم زہاوی نے کہا ہے کہ اس الزام کی تحقیقات ہونی چاہیے۔
نصرت غنی حکومت میں وزیر بننے والی پہلی مسلم خاتون تھی۔ انھیں محکمہ ٹرانسپورٹ کے ایک عہدے پر تعینات کیا گیا تھا۔
فروری 2020 میں وزیر اعظم بورس جانسن کی حکومت میں ہونی والی ایک معمولی سی ردوبدل میں وہ اس نوکری سے محروم ہو گئیں۔
سنڈے ٹائمز کے مطابق غنی کا کہنا ہے کہ جب انھوں نے وضاحت طلب کی تو ایک حکومتی وہپ نے کہا کہ اس معمولی سی ردوبدل کے بارے میں ہونے والی بات چیت کے دوران ان کے ’مسلمان ہونے کو ایک مسئلے کے طور پر اٹھایا گیا‘ اور کہا گیا کہ ’ایک مسلمان خاتون۔۔۔۔ ساتھ ساتھ کام کرنے والوں کی بے چینی کا سبب بن رہی ہے۔‘
ایم پی ویلڈن ایم پی کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ انھوں نے اس معاملے کے متعلق پوچھ کچھ چھوڑ دی جب انھیں بتایا گیا کہ اگر وہ اس بارے میں بار بار پوچھتی رہیں تو انھیں گروپ سے الگ کر دیا جائے گا اور ان کے کیرئیر کے ساتھ ساتھ ساکھ بھی تباہ ہو جائے گی۔
نصرت غنی نے جس شخص کے بارے میں دعوے کیے تھے، سنیچر کی رات، سپینسر نے اپنی شناخت مذکورہ شخص کے طور پرکروائی۔
ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے کبھی ایسے الفاظ استعمال نہیں کیے اور یہ الزامات ’مکمل طور پر جھوٹے اور ہتک آمیز‘ ہیں۔
سپینسر نے اس صورتحال کو ’مایوس کن‘ قرار دیا اور کہا کہ اس وقت نصرت نے اس معاملے کو باقاعدہ تحقیقات کے لیے کنزرویٹو پارٹی کو بھیجنے سے انکار کر دیا تھا۔
سکریٹری تعلیم، زہاوی نے ایک ٹویٹ کرتے ہوئِے کہا کہ کنزرویٹو پارٹی میں ’اسلامو فوبیا یا کسی قسم کی نسل پرستی کی کوئی جگہ نہیں ہے‘ انھوں نے مزید کہا کہ ان الزامات کی ’صحیح طریقے سے تحقیقات کی جانی چاہیے اور نسل پرستی کو ختم کرنا ہو گا۔
سپینسر کا کہنا ہے کہ انھوں نے کبھی ایسے الفاظ استعمال نہیں کیے اور یہ الزامات ‘مکمل طور پر جھوٹے اور ہتک آمیز’ ہیں۔
بی بی سی کے سیاسی نامہ نگار ڈیمیان گرامیٹکس کا کہنا ہے کہ بورس جانسن کے لے ایک اہم ہفتے کے دوران، اس تنازعہ کے متعلق سرِ عام ہونے والی گفتگو ٹوری اراکین کے درمیان شدید آپسی تناؤ کو ظاہر کرتی ہے۔
سرکاری ملازم سیو گرے کورونا وائرس لاک ڈاؤن کے دوران 10 ڈاؤننگ سٹریٹ پر منعقدہ پارٹیوں کے بارے میں اپنی انکوائری مکمل کرنے والی ہے۔
یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سیو گرے اب ڈاؤننگ سٹریٹ میں واقع جانسن کے نجی فلیٹ میں ہونے والی تقریبات کو بھی دیکھ رہی ہیں۔
غنی کے الزامات سینیئر کنزرویٹو ممبر بیک بینچر ولیم ریگ کے ان دعوؤں کے بعد سامنے آئے ہیں جس میں ان کا کہنا تھا کہ ڈاؤننگ سٹریٹ نے بورس جانسن کو ہٹانے کے لیے ایم پیز کو ’بلیک میل‘ کرنے کی کوشش کی۔
وراگ کا کہنا ہے کہ وہ اگلے ہفتے ہاؤس آف کامنز میں میٹ پولیس کے تفتیشی افسر سے بات کریں گے۔
ہیزل گرو کے ایم پی کا کہنا ہے کہ وہ چاہیں گے کہ تفتیش 10 ڈاؤننگ سٹریٹ کے بجائے ’ماہرین‘ کریں۔
ڈاؤننگ سٹریٹ کا کہنا ہے وراگ جو الزامات لگا رہے ہیں، انھوں نے اس رویے کا کوئی ثبوت نہیں دیکھا۔
گذشتہ ہفتے ایک ترجمان نے کہا تھا کہ وہ الزامات کی تحقیقات نہیں کر رہے لیکن اگر ان کے سامنے کوئی ثبوت پیش کیا گیا تو وہ ’غور سے‘ اس کا جائزہ لیں گے۔
چیئرمین آف کامنز کمیٹی آن سٹینڈرڈز کرس برائنٹ کا کہنا ہے کہ انھوں نے گذشتہ چند دنوں میں تقریباً ایک درجن ٹوری ایم پیز سے بات کی ہے جنھوں نے وہپز کے متعلق ایسے ہی الزامات عائد کیے تھے، جن کا کہنا ہے انھیں اپنے اپنے انتخابی حلقوں کے لیے انتخابی مہم اور بنیادی انفراسٹرکچر جیسے بائی پاس اور سکول وغیرہ کے فنڈز واپس لینے کی دھمکی دی جا رہی ہے۔
وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ انھوں نے ریگ کے الزامات کی حمایت کرنے والا کوئی ثبوت نہیں دیکھا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
10 ڈاؤننگ سٹریٹ، ٹوری وہپز اور پارٹی ڈسپلن کے انچارج ایم پیز، سیو گرے کی اگلے ہفتے آنے والی رپورٹ سے پہلے بورس جانس کے لیے حمایت میں اضافے کی کوشش کر رہے ہیں۔
وزیرِ اعظم کی جانب سے لاک ڈاؤن کے دوران 10 ڈاؤننگ سٹریٹ پر پارٹی کا اعتراف کرنے کے بعد کچھ کنزرویٹو ممبران پارلیمنٹ نے ان سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کیا ہے، بورس جانس کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں یہ تقریب کام کے حوالے سے تھی۔
اب تک چھ ٹوری ایم پیز وزیرِ اعظم پر عدم اعتماد کا اعلان کر چکے ہیں، لیکن خیال کیا جا رہا ہے کہ زیادہ سے زیادہ اراکین نے اس حوالے سے سر گراہم بریڈی کو خطوط جمع کرائے ہیں۔ سر گراہم بریڈی ٹوری پارٹی میں لیڈر شپ کے لیے مقابلوں کا انعقاد کروانے والی بیک بینچ 1922 کمیٹی کے چیئرمین ہیں۔
پارٹی قوانین کے تحت اگر 54 خطوط جمع کرائے جائیں تو عدم اعتماد کی ووٹنگ کا عمل شروع کیا جا سکتا ہے جس کے نتیجے میں نئی قیادت کا انتخاب ہو سکتا ہے۔
Comments are closed.