’ناگزیر‘ زمینی آپریشن سے قبل غزہ میں اسرائیلی ٹینکوں کا ’ٹارگٹڈ ریڈ‘ کیا ظاہر کرتا ہے؟

اسرائیلی ٹینک

،تصویر کا ذریعہX: @IDF

،تصویر کا کیپشن

رات گئے کیے گئے ٹارگٹڈ ریڈ کا منظر جس میں اسرائیلی ٹینک حفاظتی باڑ توڑ کر غزہ میں داخل ہو رہے ہیں

  • مصنف, ٹام بیٹمین اور جیرمی براؤن
  • عہدہ, بی بی سی نیوز

اسرائیلی دفاعی فورسز (آئی ڈی ایف) نے غزہ کی حدود میں داخل ہو کر ٹینکوں کی مدد سے ’ٹارگٹڈ ریڈ‘ کی ہے تاہم اب تک باقاعدہ زمینی آپریشن کے آغاز کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔

اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ یہ چھاپے ’لڑائی کے اگلے مراحل کی تیاری ہے۔‘

اس زمینی کارروائی کے علاوہ اسرائیلی فوج نے گذشتہ 24 گھنٹوں میں حماس کے اہداف پر 250 فضائی حملے کیے گئے ہیں جبکہ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اس وقت’غزہ میں کوئی مقام بھی محفوظ نہیں ہے۔‘

غزہ میں وزارت صحت نے کہا ہے کہ سات اکتوبر سے اب تک ہلاکتوں کی تعداد قریب 6500 تک پہنچ گئی ہے۔ اُدھر اسرائیل میں حماس کے حملوں میں 1400 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ہیں اور غزہ میں 200 سے زیادہ لوگوں کو یرغمال بنایا گیا ہے۔

اسرائیل، ٹینک

،تصویر کا ذریعہREUTERS

اسرائیل کی ٹارگلٹڈ ریڈ میں کیا ہوا؟

کسی بھی فوجی کارروائی میں زمینی آپریشن سے قبل ’ٹارگٹڈ ریڈز‘ معمول کی بات ہے جس میں دستے زمینی صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں اور حریف کے دفاع کو کمزور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اسرائیلی فوج کی جانب سے جاری کردہ تصاویر میں ٹینکوں اور بکتر بند بلڈوزر دیکھے جا سکتے ہیں۔ اسرائیلی آباد کاروں نے زمین پر لڑائی کا خدشہ ظاہر کیا مگر تصاویر میں یہ ظاہر نہیں ہوتا۔

اسرائیل نے کہا کہ اس کارروائی کے بعد دستے واپس آ گئے تھے۔ اس سب سے زمینی آپریشن کے وقت کا اندازہ لگانے میں مدد مل سکتی ہے۔

اسرائیلی فوج نے اس زمینی کارروائی کے بعد کہا ہے کہ ہم ’اگلے مرحلے کی تیاری کر رہے ہیں۔‘

مگر بیانیے کی جنگ بھی پیچیدہ ہوتی ہے۔ اسرائیل تین وجوہات کی بنا پر یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ زمینی آپریشن ہو کر رہے گا:

  • سرحدوں پر تعینات فوجیوں کا مورال بلند رکھنے کے لیے
  • اسرائیلی عوام کو بتانے کے لیے عنقریب حماس کو بڑا ردعمل ضرور دیا جائے گا
  • حماس پر دباؤ برقرار رکھنے کے لیے، خاص کر 200 کے لگ بھگ یرغمالیوں کو چھڑوانے کے لیے

گذشتہ شب ایسی علامات سامنے آئیں کہ غزہ کی حدود میں جھڑپیں ہوئی ہیں۔ اسرائیلی فوج نے ایک ڈرون ویڈیو جاری کی ہے جس میں ’ڈی نائن‘ نامی بلڈوزر دیکھے جا سکتے ہیں۔

اسرائیل نے کہا کہ ہے کہ زمینی آپریشن کی تیاریاں کی جا رہی ہیں، اور اس سے قبل یہ ایک ابتدائی حملہ تھا۔ اس سے اسرائیلی عوام کو بھی پیغام دیا گیا ہے کہ جلد کچھ ہونے والا ہے۔ یہ اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ بہت سے لوگ یہ سوال کر رہے ہیں کہ ’کیا ہم (حماس کے حملے پر) ردعمل دینے والے تھے؟‘

اسرائیلی ٹینک

،تصویر کا ذریعہEPA

اسرائیل حماس کا نام و نشان مٹانا چاہتا ہے، مگر کیسے؟

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

اسرائیلی عوام سات اکتوبر کی ہلاکتوں کے صدمے میں ہیں۔ ان کے درمیان اس اصولی مؤقف پر اتفاق پیدا ہو چکا ہے کہ حماس سب کا دشمن ہے جسے راستے سے ہٹانا ضروری ہے۔

مگر اصل سوال یہ ہے کہ ایسا کب اور کیسے ممکن ہو سکے گا۔

اس سوال پر کئی آرا گردش کر رہی ہیں، خاص کر چار یرغمالیوں کی رہائی کے بعد، جبکہ قطر ثالثی کی کوششیں کر رہا ہے کہ مزید 50 افراد کو آزاد کیا جائے۔ بظاہر اسی وجہ سے زمینی آپریشن میں تاخیر ہوئی ہے اور یہ لازم نہیں کہ اسرائیل اس معاملے میں جلد بازی سے کام لے۔

نتن یاہو کے لیے خود بھی جنگی حالات میں ملک کی قیادت کرنا دباؤ سے بھرپور سرگرمی ہو گی۔ اس میں اضافی دباؤ اس بات کا بھی ہے کہ وہ جنگ سے قبل سے ایک منقسم ملک کی قیادت کر رہے ہیں۔

اگرچہ اسرائیلی ایک پرچم تلے متحد ہیں اور حماس کا نام و نشان مٹانے پر اتفاق ہے تاہم اس کے باوجود عوام بنیامن نتن یاہو کے پیچھے نہیں کھڑے۔

پھر بھی ان کے کچھ عقیدت مند ضرور ہیں۔ اسرائیل میں ایسے تبصرے بھی پائے جاتے ہیں کہ نتن یاہو ہی فساد کی جڑ ہیں کیونکہ انھوں نے مغربی کنارے کے علاقے میں نظریاتی مقاصد کی خاطر ملک میں تقسیم پیدا کی۔ اور اس لیے بھی تاکہ ان کا اقتدار بچا رہے۔

ان پر بدعنوانی کا سنگین مقدمہ چل رہا ہے جس کے بعد انھیں جیل بھی جانا پڑ سکتا ہے۔ نتن یاہو کے ناقدین کی رائے میں یہ سب اپنے سیاسی تحفظ کے لیے ہو رہا ہے۔ اور غزہ میں مداخلت اسرائیل کے لیے نہیں بلکہ ان کے مفاد میں ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ