دوسری عالمی جنگ: نازیوں کو این فرینک کی مخبری کرنے والے مبینہ شخص کی 77 سال بعد شناخت
ایک نئی تحقیق میں ایک ایسے مشتبہ شخص کی شناخت ہوئی ہے جس نے ممکنہ طور پر یہودی ڈائری نگار این فرینک اور اُن کے خاندان کی نازیوں کو مخبری کی تھی۔
این فرینک دو سال تک پوشیدہ رہنے کے بعد 15 سال کی عمر میں ایک نازی حراستی مرکز میں ہلاک ہو گئی تھیں۔
اُن کی وفات کے بعد شائع ہونے والی اُن کی ڈائری دوسری عالمی جنگ کے دوران یہودیوں کی زندگی کے بارے میں سب سے مشہور آنکھوں دیکھا حال ہے۔
ایک ٹیم جس میں امریکہ کے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی کے ایک سابق ایجنٹ بھی شامل تھے، کا کہنا ہے کہ ایمسٹرڈیم کی ایک یہودی شخصیت آرنلڈ وان دین برگ نے ممکنہ طور پر فرینکس کو اپنا خاندان بچانے کے لیے (نازیوں کے) حوالے کر دیا۔
مؤرخین اور دیگر ماہرین پر مشتمل ٹیم نے جدید تفتیشی تکنیکوں کا استعمال کرتے ہوئے ‘سرد خانے کی نذر ہو چکے کیس’ کو حل کرنے کے لیے چھ سال لگائے ہیں۔
اس میں کمپیوٹر الگورتھمز کی مدد سے کئی مختلف لوگوں کے درمیان تعلق کا پتا لگانا بھی شامل ہے جس میں مجموعی طور پر کئی ہزار انسانی گھنٹے صرف ہوتے۔
وان دین برگ ایمسٹرڈیم کی جیوئش کونسل کے رکن تھے۔ اس کونسل کو یہودی علاقوں میں نازی پالیسیوں کا نفاذ کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ سنہ 1943 میں اس تنظیم کو ختم کر دیا گیا اور اس کے ارکان کو حراستی مراکز میں بھیج دیا گیا۔
مگر ٹیم نے پایا کہ وان دین برگ کو حراستی کیمپ میں نہیں بھیجا گیا بلکہ وہ ایمسٹرڈیم میں معمول کی زندگی جیتے رہے۔ اس کے علاوہ یہ عندیہ بھی ملا کہ جیوئش کونسل کے ایک رکن نازیوں کو خبریں فراہم کر رہے تھے۔
سابق ایف بی آئی ایجنٹ وِنس پینکوک نے نشریاتی ادارے سی بی ایس نیوز کے پروگرام 60 منٹس سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ‘جب وان دین برگ نے حراستی مراکز سے بچانے والے تمام استثنیٰ کھو دیے تو اُنھیں نازیوں کو کچھ بیش بہا چیز فراہم کرنی پڑی تاکہ وہ اور اُن کی اہلیہ اس دوران محفوظ رہ سکیں۔’
یہ بھی پڑھیے
ٹیم کا کہنا ہے کہ انھیں اس انکشاف سے کافی دھچکا پہنچا کہ دھوکہ دینے والا شخص ایک اور یہودی تھا۔ مگر اُنھیں ایک ثبوت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ این فرینک کے والد اوٹو فرینک کو شاید خود بھی یہ بات معلوم تھی اور اُنھوں نے اسے راز رکھا۔
ایک پچھلے تفتیش کار کی فائلز میں اُنھیں اوٹو فرینک کو بھیجا گیا ایک گمنام خط ملا جس میں بتایا گیا تھا کہ آرنلڈ وان دین برگ نے اُنھیں دھوکہ دیا۔
پینکوک نے 60 منٹس کو بتایا کہ یہ بات عام نہ کرنے کی وجہ ممکنہ طور پر یہود دشمنی تھی۔
وہ کہتے ہیں: ‘شاید اُنھیں لگا ہو کہ اگر میں یہ بات سامنے لایا تو آگ مزید بھڑک اٹھے گی۔’
‘مگر ہمیں اس بات کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ چونکہ (وان دین برگ) یہودی تھے، اس لیے نازیوں نے اُنھیں اپنی زندگی بچانے کی خاطر ایک ناممکن صورتحال میں ڈال دیا تھا۔’
ڈچ اخبار ڈی ووکسکرانت کے مطابق وان دین برگ سنہ 1950 میں وفات پا گئے تھے۔
ایک بیان میں این فرینک ہاؤس میوزیم نے کہا کہ وہ تحقیقاتی ٹیم کے کام سے ‘متاثر’ ہوئے ہیں۔
میوزیم کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر رونالڈ لیوپولڈ نے کہا کہ نئی تحقیق سے ‘نئی اہم معلومات اور ایک اہم مفروضہ سامنے آیا ہے جس پر مزید تحقیق کی جانی چاہیے۔’
میوزیم نے یہ بھی کہا کہ وہ براہِ راست اس تفتیش میں شامل نہیں تھے مگر اُنھوں نے ٹیم کے ساتھ اپنی تاریخی دستاویزات کا تبادلہ کیا تھا اور اُنھیں میوزیم تک رسائی دی تھی۔
این فرینک کی ڈائری دنیا بھر میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتابوں میں سے ایک ہے
Comments are closed.