بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

’ترکی میرا گھر ہے لیکن مجھے بیرونِ ملک بہتر زندگی چاہیے‘

ترکی کے معاشی بحران سے پریشان نوجوان: ’ترکی میرا گھر ہے لیکن مجھے بیرونِ ملک بہتر زندگی چاہیے‘

  • کیگل کاساپوگلو
  • بی بی سی ورلڈ سروس

برنا

،تصویر کا ذریعہBERNA AKDENIZ

،تصویر کا کیپشن

برنا صحافت میں پی ایچ ڈی کر رہی ہیں

’میں یہاں رہنا چاہتی ہوں کیونکہ یہ میرا گھر ہے۔ لیکن میں اس چھوڑنا بھی چاہتی ہوں کیونکہ میرا دل کرتا ہے کہ میں انسانوں کی طرح زندگی بسر کر سکوں۔‘

یہ الفاظ ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں موجود 28 سالہ پی ایچ ڈی کی طالبہ برنا اکڈینز کے ہیں۔

برنا قوتِ سماعت سے محروم ہیں اسی لیے انھیں سُننے میں معاونت دینے والے آلے کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔ کوکلیئر امپلانٹ ایک ایسا الیکٹرانک آلہ ہوتا ہے جو قوتِ سماعت سے محروم افراد کو آواز سُننے میں مدد دیتا ہے۔

تاہم ترکی میں طبی آلات کی درآمدات میں حالیہ کمی کے باعث انھیں یہ خوف محسوس ہونے لگا ہے کہ وہ قوتِ سماعت سے ہمیشہ کے لیے محروم نہ ہو جائیں۔

’کوکلیئر سپلائی کرنے والی کمپنی کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ جنوری کے بعد سے وہ اپنی مصنوعات کو ترکی درآمد نہیں کر پائے گی اور اس کی وجہ یہ کہ ملک میں کرنسی لیرا کے زرِ مبادلہ کی شرح اور بڑھتی مہنگائی نے اُن کے منافع کی شرح کو کم کر دیا ہے۔ اس لیے اب وہ حکومتی اداروں سے اپنے کاروبار میں معاونت کے لیے مذاکرات کریں گے۔‘

برنا یہ سوال پوچھتی ہیں کہ ’اگر وہ (ترک حکومت) کوئی معاہدہ نہیں کر پاتے تو کیا ہو گا۔ اس امکان کے بارے میں سوچتے ہوئے بھی مجھے خوف آتا ہے۔‘

ترکی چھوڑ کے جایا جائے یا نہیں؟ یہ ایک ایسا تکلیف دہ سوال ہے جو ترکی میں اب بہت سے شہری پوچھ رہے ہیں اور ان میں سے اکثر نوجوان ہیں۔

ترکی کی معیشت بحران کا شکار ہے۔ یہاں کرنسی کی قدر میں بے انتہا کمی واقع ہو چکی ہے اور یہ گذشتہ ایک برس میں آدھی قدر کھو بیٹھی ہے، مہنگائی بہت زیادہ ہے اور قیمتیں بھی تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔

غریب طبقے کے خاندانوں کے لیے گزارا کرنا انتہائی مشکل ہوتا جا رہا ہے لیکن ترقی کا متوسط طبقہ بھی پریشان دکھائی دیتا ہے۔

ترکی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

’مجھے تحفظ چاہیے‘

سوشل میڈیا پر ان افراد میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے جو بیرونِ ملک زندگی کا دوبارہ آغاز کرنے کے فائدے اور نقصانات ڈھونڈ رہے ہیں اور وہ ان افراد سے مشورے مانگ رہے ہیں جو پہلے ہی بیرون ملک منتقل ہونے کا قدم اٹھا چکے ہیں۔

برنا نے تاحال اپنا ملک چھوڑنے کے بارے میں حتمیٰ فیصلہ نہیں کیا تاہم وہ یورپ جانے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچ رہی ہیں۔

ان کے لیے ایسا کرنے کی اہم وجہ یہ ہے کہ یورپی ممالک میں ’قوتِ سماعت سے محروم افراد کی معاونت وسیع پیمانے پر کی جاتی ہے‘

وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے تحفظ چاہیے۔ مجھے زندگی میں اس بات کی گارنٹی چاہیے کہ میں سُن سکوں گی۔‘

برنا ان متعدد نوجوان اور تعلیم یافتہ ترک باشندوں میں سے ہیں جو شہری متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور اب بیرونِ ملک منتقل ہونے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔

یہ ترکی سے یورپ منتقل ہونے والی پچھلی نسلوں کے تارکین وطن افراد سے مختلف اس لیے بھی ہیں کیونکہ ان افراد کا تعلق دیہاتوں سے تھا اور وہ یہاں تعلیم کی ابتر سہولیات اور مواقعوں کے باعث یورپ منتقل ہوئے تھے۔

جنوبی ترکی کے شہر گیزیینٹیپ میں 28 سالہ گریجویٹ ہارون یامان اس نئی نسل میں شامل ہیں جو بیرون ملک منتقلی کے بارے میں سوچ رہی ہے۔

انھوں نے میڈیا کی ڈگری حاصل کی ہوئی ہے اور وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے یورپ منتقل ہونے کے بارے میں ذہن بنا لیا ہے اور اب ان کا آئرلینڈ منتقل ہونے کا منصوبہ ہے۔

یہ بھی پڑھیے

ہارون نے سنہ 2018 میں گریجویشن مکمل کی تھی جس کے بعد سے وہ اپنے شعبہ تعلیم میں نوکری ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں اور فی الحال ایک ٹیکسٹائل کمپنی کے گودام میں کام کرتے ہیں۔ ان کا خواب ہے کہ وہ آئرلینڈ کے ’ورک اینڈ سٹڈی‘ پروگرام کے تحت وہاں ہمیشہ کے لیے منتقل ہو جائیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں اس ملک کے مستقبل کے لیے بالکل بھی پرامید نہیں ہوں، اسی لیے میں اسے چھوڑنا چاہتا ہوں۔‘

اس آئرش پروگرام میں داخلے کے لیے کچھ رقم ادا کرنی ہوتی ہے، جس کا کچھ حصہ وہ ادا کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ تاہم لیرا کی قدر میں اچانک کمی کے باعث ان کا منصوبہ تعطل کا شکار ہو چکا ہے۔ اب انھیں مزید وقت درکار ہے تاکہ وہ مکمل ادائیگی یوروز میں کر سکیں۔

میری ترکی میں کوئی سماجی زندگی نہیں ہے۔ میں دن میں 10 گھنٹے کام کرتا ہوں۔ کرنسی کے بحران کے باعث ہماری قوتِ خرید بھی کم ہو گئی ہے۔ ہمارے بہت زیادہ مسائل ہیں۔ حکومت کی غلط پالیسیوں کے باعث متعدد افراد غربت کا شکار ہیں اور لوگوں میں انتشار پیدا ہو رہا ہے۔‘

’70 فیصد سے زیادہ افراد بیرونِ ملک زندگی گزرانے کا خواب دیکھتے ہیں‘

ترکی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

سرکاری اعداد و شمار کے مطاب اکثر افراد جو ترکی چھوڑ کر جا رہے ہیں ان کی عمریں 25 سے 29 برس کے درمیان ہیں۔

ترکی کے ادارہ شماریات نے 2020 کے تارکین وطن سے متعلق اعداد و شمار کی ستمبر 2021 میں ہونے والی اشاعت ملتوی کر دی ہے۔

سنہ 2019 میں ان کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق تین لاکھ تیس ہزار سے زیادہ افراد بیرون ملک منتقل ہوئے جو گذشتہ برس کے مقابلے میں دو فیصد زیادہ تھا۔

تازہ ترین اعداد و شمار میں یہ رجحان ہی جاری رکھنے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔

استنبول کی ییدیتیپ یونیورسٹی اور ایم اے کے کنسلٹنسی کی جانب سے اگست 2020 میں کیے گئے سروے میں یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ نوجوان نسل بیرون ملک منتقل ہونے کے بارے میں کیا خیالات رکھتی ہے۔ اس کے نتائج خاصے حیران کن تھے۔

سروے کے مطابق 76 فیصد افراد کا کہنا تھا کہ وہ کسی دوسرے ملک میں رہنے کے لیے تیار ہیں، چاہے انھیں عارضی ملازمت بھی ملتی ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ہمیشہ کے لیے کسی دوسرے ملک کی شہریت اختیار کر لیں گے اگر انھیں ایسا موقع ملے تو اس کے جواب میں 64 فیصد افراد کا کہنا تھا کہ وہ یہ آفر قبول کر لیں گے۔

ترکی بہت سے دیگر ممالک کی طرح عالمی وبا کے باعث بین الاقوامی معاشی بحران کا اثرات سے متاثر ہوا تاہم لیرا کی قدر میں گراوٹ نے اس بحران کو مزید ابتر کر دیا ہے۔

تاہم بیرونِ ملک منتقلی سے متعلق معلومات کے ماہر ترک پروفیسر ابراہیم سرکیچی کے مطابق معاشرتی اور سیاسی عوامل بھی اس حوالے سے خاصے اہم ہیں۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ ترکی سے بیرونِ ملک منتقلی کی ایک نئی لہر ہے۔‘

انقرہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

آزادی حاصل کرنے کی خواہش

وہ کہتے ہیں کہ ’معاشرے کا ایک بڑا حصہ مستقبل کے بارے میں پرامید نہیں رہا کیونکہ وہ خود کو سیاسی نظام سے علیحدہ محسوس کرتے ہیں۔ ان میں کاروباری افراد، نئے کاروبار کرنے کے خواہشمند افراد، فنکار اور سکالرز شامل ہیں۔‘

صدر طیب اردوگان کے ناقدین ان پر الزام عائد کرتے ہیں کہ انھوں نے لوگوں کی بولنے کی آزادی محدود کی ہے اور حزبِ اختلاف کو دبانے کی کوشش کی ہے۔

ترک باشندوں کی ایک بڑی تعداد یورپی ممالک میں پناہ لینے کی غرض سے بھی منتقل ہونے کی کوشش کر رہی ہے۔

یورپی یونین کے ادارے ’یورو سٹیٹ‘ کے اعداد و شمار کے مطابق، پچھلی دہائی میں ایسے افراد کی تعداد دگنی سے بھی زیادہ ہو گئی ہے اور سنہ 2019 میں یہ سب سے زیادہ 25 ہزار تک پہنچ گئی تھی۔

ترکی شامی پناہ گزینوں کی میزبانی کرنے میں دنیا میں سب سے آگے ہے۔

مزید پڑھیے

تاہم پروفیسر ابراہیم کہتے ہیں کہ ’یہ 38 صنعتی ممالک میں سے واحد او ای سی ڈی ملک ہے جسے کے اپنے شہری ہی تیزی سے پناہ گزین بن رہے ہیں اور ترقی پزیر ممالک میں صرف عراق افغانستان اور شام سے آگے ہے۔ یہ ایک نیا رجحان ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’میں اسے اردوغان مخالف منتقلی کہتا ہوں۔ لوگ اس مخصوص حکومت اور اس مخصوص سیاسی ڈھانچے سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

تاہم ترک حکومت اس مفروضے کو رد کرتی ہے کہ ملک کے تعلیم یافتہ نوجوان اسے ’چھوڑ کر جا رہے ہیں۔‘

گذشتہ برس اکتوبر میں سماجی تحفظ کے وزیر ویڈات بلگن نے اس مسئلے کے بارے میں ایک سیمینار میں بات کی تھی۔

انھوں نے کہا تھا کہ ’نوجوانوں میں بیرونِ ملک جانے کا شوق زیادہ ہے۔ یہ قدرتی بات ہے۔۔۔ وہ دنیا دیکھنا چاہتے ہیں۔‘

تاہم انقرہ میں موجود برنا کا کہنا ہے کہ ترکی چھوڑنا ان کے لیے ایک مشکل فیصلہ ضرور ہو گا۔

ان کا خواب ہے کہ وہ فیملی شروع کر سکیں اور ان کے خواب کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ وہ واپس ترکی آنا چاہتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں چاہوں گی کہ میرے بچے میرے وطن میں بڑے ہوں۔ انھیں ترکی کا قدرتی حسن دیکھنا چاہیے۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.