’میں گائے کےگوشت کی جگہ ٹِڈّیوں کی پروٹین کیوں پسند کرتا ہوں‘
- پاسکل کوِسیگا
- بی بی سی فیچرز
یورپ اور مغرب کے لوگوں کے لیے جھینگر اور ٹڈّیاں کھانے کا تصور ہی شاید انھیں قے کرا دے، تاہم افریقہ اور ایشیا کے بعض خطوں میں یہ ایک ہلکی پُھلکی غذا کے طور پر بہت مقبول ہیں۔ نہ صرف غذائیت سے بھر ہوتے ہیں بلکہ یہ ماحولیات کے لیے بھی کم نقصان دہ ہوتے ہیں۔
یوگنڈا میں میرے خاندانی گھر کی ہوا ایک الگ قسم کی مہک سے بھری ہوئی تھی، جو گائے کے گوشت کی بو سے کچھ زیادہ مختلف نہیں تھی۔ یہ دسمبر سنہ 2000 تھا اور میری بہن، میگی، ٹِڈّیوں کو بُھون رہی تھی۔ وہ جتنا زیادہ سبز، خستہ ٹڈی جیسے کیڑوں کو توے پر بھونتے ہوئے ہلاتی گئی، خوشبو اتنی ہی زیادہ اور مزیدار ہوتی گئی۔ جیسے جیسے وہ پک رہے تھے اور توے سے بھاپ اٹھ رہی تھی، اور میرا منہ پانی سے بھرا جا رہا تھا – میں اس مزیدار کھانے کا مزید انتظار نہیں کر سکتا تھا۔ ٹڈّیاں کھانے کا یہ میرا پہلا تجربہ نہیں تھا – میں اپنے بچپن میں انہیں باقاعدگی سے کھایا کرتا تھا۔ یوگنڈا میں، ٹڈّی ایک غذائیت سے بھرپور لذیذ اور انتہائی مقبول ہلکی پھلکی غذا کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔
سنہ 2000 میں اس موقع پر میں نے پہلی بار خود ٹڈّیوں کے اس جُھنڈ کو پکڑا تھا۔ یہ کیڑے جن کی افزائش مشرقی افریقہ میں وکٹوریہ جھیل کے ارد گرد ہوتا ہے، رات کے وقت جھنڈوں کی صورت میں سفر کرتے ہیں اور صبح کے وقت ہمارے خاندانی گھر کے قریب شبنم میں نہائی سرسبز گھاس پر اترتے ہیں۔ اس موقع پر اپنے نوعمر ساتھیوں کے ساتھ میں نے مغربی یوگنڈا کے علاقے ہوئما میں اپنے گھر کے اوپر ایک پہاڑی پر گھاس سے ٹڈّیاں چُننے میں دن گزارا۔ جب میں ان کیڑوں سے بھرا ہوا ایک بڑا بیگ لے کر گھر واپس آیا تو میں نے کافی فخر محسوس کیا۔
ٹڈیوں کی بھینی بھینی بُو مجھے ہمیشہ کرسمس کی یاد دلاتی ہے – کیڑوں کی چُنائی کے لیے ایک بہترین وقت، کیونکہ نومبر کی بارشوں کے بعد کا موسم خشک جنوری میں بدل جاتا ہے۔ میں کرسمس کے موقع پر میں اکثر گائے کے گوشت کی جگہ ٹڈّی کھانے کا انتخاب کرتا ہوں کیونکہ میں اس کے ذائقہ کو ترجیح دیتا ہوں۔
تقریباً 22 سال بعد اس سال جون میں جب میں گھر کے اس ذائقے کے لیے پرانی یادوں کو محسوس کر رہا تھا تو میں نے اپنے پسندیدہ ٹڈی سے بنی غذا کو دوبارہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس نے مجھے ایک تجربہ کرنے کا آئیڈیا دیا – کیا میں اپنی غذا میں گائے کےگوشت کی جگہ ان چُرمُرے حشرات کا استعمال کر سکتا ہوں؟ میں نے حشرات الارض کے کھانے کی پائیداری کے فوائد کے بارے میں سنا تھا اور میں یہ جاننے کے لیے متجسس تھا کہ اگر میں ٹڈیوں کو پروٹین کے ایک اہم ذریعہ کے طور پر استعمال کروں تو میں اپنے طور پر ماحول میں کاربن کا کتنا اخراج کم کر سکتا ہوں۔
میں اب یوگنڈا کے دارالحکومت کمپالا میں رہتا ہوں – ایک گنجان آباد شہر جس میں گھاس کے میدان نہیں ہیں جہاں ٹڈّے اتر سکتے ہیں۔ یوگنڈا کے ٹڈّیوں کے دو موسموں کے دوران – مئی-جون اور دسمبر-جنوری – جب افریقہ کے گھاس کے میدانوں اور کھلی جھاڑیوں میں کیڑے بڑی تعداد میں جمع ہوتے ہیں، تو اُس وقت کمپالا کے رہائشی ان لذیذ کیڑوں کی فراہمی کے لیے مقامی دکانداروں پر انحصار کرتے ہیں جو انھیں پکڑ کر بازاروں میں فروخت کرتے ہیں۔ دکاندار ٹِڈّوں کو پکڑنے کے لیے انھیں گھر کر ایک جال میں لاتے ہیں اور پھر انھیں جال میں پکڑنے کے لیے برقی روشنیوں کا استعمال کرتے ہیں۔ وہ تازہ گھاس جلاتے ہیں، دھوئیں کا استعمال کرتے ہوئے کیڑوں کو اپنے ٹریپ میں گھرتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ لوہے کی چادروں میں اڑتے ہوئے پھنس جاتے ہیں اور بالآخر تیل کے خالی ڈرموں میں گر جاتے ہیں۔
یوگنڈا کے دارالحکومت کمپالا میں گلیوں میں دکاندار ٹِڈّیوں کو پکڑنے کے لیے تیز روشنی اور دھواں استعمال کرتے ہیں۔
ٹڈّیوں کی تجارت ایک کامیاب کاروبار ہے۔ ہر موسم میں کمپالا کی سڑکیں انھیں فروخت کرنے والوں سے بھری رہتی ہیں، جو تقریباً 760,000 یوگنڈا شلنگز یا تقریباً 200 ڈالر فی سیزن کما سکتے ہیں۔ زندہ ٹڈّیوں سے بھرے ایک پلاسٹک کے کپ کے لیے ان کے پروں اور ٹانگوں کو اکھاڑ کر، میں 20,000 یوگنڈا شِلنگز ادا کرتا ہوں۔
جب میں گھر لوٹتا ہوں تو میں ان کیڑوں کو ایک پیالے میں دھوتا ہوں اور انہیں خشک برتن میں رکھتا ہوں، اسے ڈھانپ کر ہلکی آنچ پر تقریباً 20 منٹ تک رکھتا ہوں، کبھی کبھار ہلاتے رہنا اچھا ہوتا ہے تاکہ یہ کیڑے کہیں جل کر سیاہ نہ جائیں۔
تقریباً ایک گھنٹے کے بعد ٹڈیاں پکنا شروع ہوجاتی ہیں اور ان کا رنگ سبز سے پیلا ہو جاتا ہے۔ کیونکہ ان میں چربی پیدا ہوتی ہے، اس لیے میں انہیں تیل کے بغیر بُھون سکتا ہوں۔ اس مقام پر گوشت کی مہک خارج ہونا شروع ہو جاتی ہے، اور تیز سے تیز تر ہوتی جاتی ہے کیونکہ میں ہر پانچ منٹ یا اس کے بعد اس وقت تک ہلاتا رہتا ہوں جب تک کہ ان کا رنگ سنہری بھورا نہ ہو جائے۔ پھر میں اِس پر پیاز، گرم مرچ اور نمک چِھڑکتا ہوں۔
کیڑوں کو اس وقت تک بھونتے رہتے ہیں جب تک کہ چربی پگھل نہ جائے، اور جب میں انھیں توے پر ہلاتا ہوں تو ان کی کڑکڑانے کی آواز محسوس ہوتی ہے، مزید 30 منٹ کے بعد، ٹڈّی ایک کرکرے گوشت کی ساخت میں بدل جاتی ہیں اور کھانے کے لیے تیار ہو جاتی ہیں۔
ٹڈیوں کی خوبصورتی یہ ہے کہ آپ انہیں کئی اقسام کے کھانے کے ساتھ اسی طرح کھا سکتے ہیں جس طرح آپ چکن ونگز کو فرنچ فرائز کے ساتھ کھاتے ہیں۔ اپنے چار دنوں کے اس تجربے کے دوران میں نے کاساوا، آلو، چاول اور گائے کے سٹو کے ساتھ ٹڈّیوں کی غذا کھائی۔
ٹڈّیوں کا ایک کپ ایک کلو گرام گائے کے گوشت سے قدرے مہنگا ہے، جو تقریباً 13,000 یوگنڈا شلنگز میں فروخت ہوتا ہے۔ تاہم ٹڈّیوں کے صرف ایک کپ سے میں نے کھانے کے تین حصے تیار کیے۔
دوسرے دن میں نے ٹڈے اور آلو تیار کیے جنہیں میں عام طور پر گوشت یا پھلیوں کے سالن کے ساتھ کھاتا ہوں۔ تیسرے اور چوتھے دن میں نے ٹڈّیوں کو چاول اور گوبھی کے شُوربے کے ساتھ تیار کیا۔
میرے نزدیک ٹڈے پاپ کارن کی طرح ہیں – ایک ایسی ہلکی پھلکی غذا (سنیک) جسے میں کبھی کھانا بند نہیں کرنا چاہتا اور نہ ہی میں اِن سے بور ہوتا ہوں۔ جب کہ میں ذاتی طور پر گائے کے گوشت کو اکثر کھاتا ہوں تو اس کا ذائقہ ٹڈّیوں کے مقابلے میں ہلکا محسوس ہوتا ہے، لیکن لگاتار چار دن کھانے کے بعد بھی ٹڈّیوں کے لیے میری بھوک کم نہیں ہوتی ہے۔ تاہم صرف ایک ہی چیلنج یہ ہے کہ پورے ہفتے کرکرے کیڑے چبانے سے میرے جبڑوں میں تیسرے دن تھوڑا سا درد ہونا شروع ہو گیا۔ ایک اور منفی پہلو یہ تھا کہ نمکین ٹڈّیوں نے میری پیاس ناقابل یقین حد تک بڑھا دی۔
ٹڈیوں کو تیار کرنے میں میری توقع سے زیادہ وقت لگا، جس سے مجھے احساس ہوا کہ میری بہنیں اس عمل میں کتنی محنت اور کتنا وقت لگاتی تھیں۔ لیکن انہیں پکانا کوئی پیچیدہ یا مشکل کام نہیں ہے – میں اکثر ان کے پکانے کا انتظار کرتے ہوئے ایک کتاب پڑھتا ہوں۔ میں نے اگرچہ انہیں بھوننے کے لیے پیاز اور گرم مرچ کا استعمال کیا، تاہم ان کے لیے اضافی اجزاء کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ ٹِڈیاں اپنے آپ میں مزیدار ہوتی ہیں۔
پائیدار پروٹین
ٹڈیوں کی پروٹین غدائیت سے بھرپور غذا ہے۔ تنزانیہ کی سوکوئن یونیورسٹی کے علم حشرات (اینٹومولوجی) کے ایک محقق لیونارڈ الفونس کا کہنا ہے کہ یہ مشرقی افریقہ میں غذائیت، خوراک کی حفاظت اور روزگار کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کیڑوں کو سال بھر خوراک کے ایک پائیدار ذریعہ کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔
الفونس کا کہنا ہے کہ ‘کھانے کے قابل ٹڈیوں کی بہت قدر کی جاتی ہے اور ان کی تجارت یوگنڈا میں آمدنی کا ذریعہ ہے۔ کھانے کے قابل ٹڈیوں کے لیے بڑے پیمانے پر پالنے کے پروٹوکول کو بہتر بنانے سے مشرقی افریقہ میں غذائیت، خوراک کی حفاظت، اور ذریعہ معاش کو بڑھانے کے لیے ان کی سال بھر فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔’
غذائی اجزاء کے لحاظ سے، لمبے سینگ والی ٹڈی، جسے یوگنڈا میں ‘اینسینینے’ (Nsenene) کہا جاتا ہے، 34-45 فیصد پروٹین، 42-54 فیصد چکنائی اور 4-6 ریشہ (فائبر) پر مشتمل ہوتی ہے۔ کیڑے عام طور پر وٹامنز اور امینو ایسڈ سے بھرے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان میں پائیداری کے فوائد بھی ہوتے ہیں۔ کیڑوں کی روایتی نشو نما کے لیے زمین، توانائی اور پانی کے ایک حصہ کی ضرورت ہوتی ہے، اور اس میں کاربن کے اخراج کے اثرات نمایاں طور پر کم ہوتے ہیں۔
کیڑوں کو کھانے کا فن اور سائنس
برطانیہ کی یونیورسٹی آف ایڈنبرا میں گلوبل فوڈ سیکیورٹی کے ایک سینئر محقق ہیں، پیٹر الیگزینڈر اندازہ لگاتے ہیں کہ میں نے گائے کے گوشت کی جگہ پروٹین کے اپنے اہم ذریعہ کے طور پر ٹڈّیوں کا استعمال اپنا کر اپنی خوراک سے کاربن کے اخراج کو دس گنا کم کر دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘ہم جو کھانے کا انتخاب کرتے ہیں وہ ہماری غذا سے وابستہ کاربن اخراج کے لیے واقعی اہمیت رکھتا ہے۔’
لندن کے ایک ریستوران میں ایواکاڈو کے ساتھ جھینگروں کی ایک لاِش۔
الیگزینڈر اور یونیورسٹی آف ایڈنبرا کے دیگر محققین کی ایک تحقیق کے مطابق، دنیا بھر میں کھائے جانے والے آدھے گوشت کی جگہ کھانے کے قابل کیڑوں اور جھینگروں کے استعمال سے گائے بھینسوں کے لیے کی جانے والی کھیتی باڑی کے استعمال میں ایک تہائی کمی واقع ہو سکتی ہے، اور اس طرح 168 کروڑ ہیکٹر زمین کو کسی اور مقصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ اتنا رقبہ بنتا ہے کہ اس میں برطانیہ جیسے 70 ممالک سما سکتے ہیں، اور کاربن گیسوں کے اخراج کو کم کر سکتا ہے۔
مثال کے طور پر جھنگروں کو اتنی ہی مقدار میں پروٹین پیدا کرنے کے لیے مویشیوں کے مقابلے میں چھ گنا کم خوراک، بھیڑوں سے چار گنا کم اور سور اور مرغیوں سے دو گنا کم خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔
کیڑوں کی کاشت مویشیوں کی پیداوار کے مقابلے میں نمایاں طور پر کم گرین ہاؤس گیسیں خارج کرتی ہے – خاص طور پر جب آپ مویشیوں اور ان کی فیڈ کی نقل و حمل پر غور کریں جو ان اخراج کا 18 فیصد ہے، تو آپ کو پروٹین کے روایتی ذرائع کی وجہ سے خارج ہونے والی زہریلی گیسوں کا بہتر اندازہ ہوسکے گا۔
مثال کے طور پر ہالینڈ کی یونیورسٹی آف ویگنِنجن کے محققین کی ایک تحقیق کے مطابق، چھینگر گائے کے مقابلے میں 80 فیصد کم میتھین اور خنزیر کے مقابلے میں 8-12 گنا کم امونیا پیدا کرتا ہے۔ میتھین ایک انتہائی طاقتور گیس ہے جس کا گلوبل وارمنگ پر اثر 20 سال کے عرصے میں کاربن ڈائی آکسائیڈ (CO2) سے 84 گنا زیادہ ہے اور امونیا کی آلودگی کو مٹی کی تیزابیت، زمینی آلودگی اور ماحولیاتی نظام کے نقصان سے جوڑا گیا ہے۔
کیڑے نامیاتی فضلہ بھی کھا سکتے ہیں، جو اس فضلہ کے سڑنے سے ہونے والے کاربن اخراج کو کم کرنے میں مدد کرتے ہیں اور فی کلو خوراک کے مجموعی اخراج کو بھی عام طور پر کم کرتے ہیں۔
امریکہ میں الینوائے یونیورسٹی اربانا-چمپین میں زراعت اور خوراک کی فراہمی پر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات میں مہارت رکھنے والے محقق، اتُل جین کہتے ہیں کہ ‘میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ بہت سے پروٹین سے بھرپور کیڑوں کی وجہ سے کاربن اخراج کی شدت کسی بھی جانوروں سے حاصل کیے گئے گوشت سے کئی گنا کم ہے۔ لیکن وہ صنعتی سطح پر تیار نہیں کیے جاتے، جیسے گائے کا گوشت یا کوئی اور خوراک تیار کی جاتی ہے۔ اس لیے یہ کسی بھی خوراک، پودوں پر مبنی یا جانوروں پر مبنی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا مناسب موازنہ نہیں ہوگا۔’
لیکن ان کے تمام فوائد کو دیکھتے ہوئے، کیا کیڑوں کو زیادہ وسیع پیمانے پر پالا جا سکتا ہے؟
ایک امریکی کمپنی، ‘اینٹوسینس’ (Entosense) جس کا مشن ہے کہ خوردنی کیڑوں کو امریکیوں کی روزمرہ کی خوراک کا حصہ بنایا جائے، اُس کے صدر بل براڈبینٹ کہتے ہیں کہ ‘جانوروں کے مقابلے میں حشرات کو پالنا آسان ہے۔ آپ تہہ خانے اور گھر میں کیڑوں کا فارم رکھ سکتے ہیں اور آپ کے پاس چند دنوں میں دس لاکھ کیڑے پیدا ہوجائیں گے۔’
براڈ بینٹ کا کہنا ہے کہ اگرچہ (کھانے کے قابل) کیڑے گوشت کو مکمل طور پر تبدیل نہیں کرسکتے ہیں، لیکن وہ دنیا میں پروٹین کے ذریعے کا ایک متبادل کی نمائندگی کرتے ہیں جو آنے والے سالوں میں خوراک کی کمی کے چیلنج سے نمٹنے امکان پیدا کرتی ہے کیونکہ عالمی آبادی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
ایشیا اور افریقہ کے بہت سے حصوں میں کیڑوں کو تلی ہوئی اور ایک مشہور ‘سنیک’ کے طور پر فروخت کیا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر ہر کلو گرام اعلیٰ قسم کی جانوروں سے حاصل کی گئی پروٹین کے لیے، مویشیوں کو تقریباً 6 کلو پلانٹ پروٹین کھلایا جاتا ہے۔ یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ زرعی اخراجات، جیسے کھاد اور جانوروں کی خوراک میں اضافے کے نتیجے میں سنہ 2050 تک گائے کے گوشت، سور کے گوشت اور پولٹری کی قیمتوں میں 30 فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہوگا۔ موسمیاتی تبدیلیوں اور گرتی ہوئی زرعی پیداوار کی وجہ سے، جو خوراک کے اخراجات کو بڑھا دے گا، متبادل پروٹین کے ذرائع کی ضرورت بڑھ جائے گی۔
خوردنی کیڑوں کی بڑھتی ہوئی مانگ
افریقہ، جنوبی امریکہ اور ایشیا کے ممالک میں دنیا بھر میں تقریباً 2000 کیڑوں کی انواع کھائی جاتی ہیں۔ تھائی لینڈ میں خاص طور پر کیڑوں کی ایک بڑھتی ہوئی صنعت ہے، جہاں 20,000 فارم ہر سال 7,500 ٹن حشرات پیدا کرتی ہے۔ لیکن یورپ اور امریکہ میں بہت سے لوگ اپنے بہترین ذائقے اور ماحولیاتی اور غذائی فوائد کے باوجود کیڑوں کو کھانے سے ہچکچاتے ہیں، اور اس طرح وہ اپنی اس روایتی خوراک کے استعمال کی وجہ سے کاربن گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کا موقع گنوا دیتے ہیں۔
سنہ2019 اور سنہ 2021 کے درمیان برطانیہ میں رہتے ہوئے میں نے کھانے کے قابل ٹڈّیاں خریدنے کی کافی کوشش کی تھی۔ دسمبر سنہ 2021 میں، میں اپنی تمام سوشل میڈیا فیڈز پر اس لذیذ ناشتے کی تصاویر دیکھ کر ٹڈّیوں کے لیے ترس رہا تھا، جسے یوگنڈا کے دوستوں نے ٹڈّیوں کے موسم کے آغاز کا جشن منا کر شیئر کیا تھا۔ میری یوگنڈا کے اس لذیذ کھانے کے ذائقے کی تلاش مجھے مشرق اور مغربی لندن اور لیڈز لے گئی، لیکن مجھے کوئی چیز نہیں ملی۔
برطانیہ کی آکسفورڈ بروکس یونیورسٹی میں صارفین کی نفسیات اور مارکیٹنگ کے ایک محقق اندرونیل چٹرجی کا کہنا ہے کہ جو لوگ برطانیہ میں انسان کے کھانے کے قابل کیڑے تلاش کرتے ہیں انہیں جھینگروں اور کھانے کے قابل حشرات کے کھانے سے آغاز کرنا چاہیے، جو کہ ٹڈّیوں کے مقابلے میں زیادہ آسانی سے دستیاب ہیں۔ چٹرجی کہتے ہیں کہ ‘سپلائی کے سلسلے کے مسائل ہوسکتے ہیں جو (ٹڈیوں کی) دستیابی کو محدود کرتے ہیں کیونکہ وہ فی الحال برطانیہ میں بڑے پیمانے پر پیدا نہیں ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کا (اس ملک میں) حصول مشکل ہو جاتا ہے۔’
یہ خدشات بھی موجود ہیں کہ کچھ ممالک میں جنگلی کیڑوں کی وسیع پیمانے پر پکڑنے کی کوشش صرف کیڑوں کی آبادی میں کمی پر زیادہ دباؤ ڈال سکتی ہے جو پہلے ہی بدلتے ہوئے موسم، بیماری اور کیڑے مار ادویات کی وجہ سے معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں۔
تاہم یورپ اور امریکہ میں ایسی بڑی تعداد میں کمپنیاں ہیں جو خوردنی کیڑوں کو پالنے میں مہارت رکھتی ہیں۔ ویلز کے سینٹ ڈیوڈس میں واقع، ‘بگ فارم’ (Bug Farms)، برطانیہ کا پہلا خوردنی کیڑوں کا فارم، کیڑوں سے تیار شدہ کھانے کی کئی ایک اقسام فروخت کرتا ہے، جس میں جھینگروں سے بنی چاکلیٹ، کوکیز اور مسالہ دار ‘اورنج اور لیور بریڈ بفیلو’ کیڑوں سے بنے ہوئے بسکٹ شامل ہیں۔ یہ گھر میں کھانا پکانے اور بیک کرنے کے لیے جھینگروں کا پاؤڈر اور جھینگر بھی فروخت کرتا ہے۔
‘بگ فارم’ کا خیال ہے کہ بچوں کو کیڑوں کو کھانے کی ترغیب دینے سے ان کی اپیل میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ ایلینور فلپ جو بگ فارم میں کام کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ ‘بچے، خاص طور پر، بہت کھلے ذہن کے ہوتے ہیں، اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ کام کرنا یہ ہے کہ ہم کس طرح طویل مدت میں رویوں کو بدل سکتے ہیں: وہ مستقبل کے خریدار ہیں۔’
بگ فارم نے ایک نئی قسم کی غذا تیار کی ہے، ‘ویکسو’ (VEXo)، جو کیڑوں اور پودوں کے پروٹین سے بنائی جاتی ہے اور انہوں نے اسے سنہ 2019 میں ایک پائلٹ پروجیکٹ کے دوران ویلش اسکول کے 200 بچوں کو بولونسی پاستا چٹنی میں ملا کر اسکول لنچ کے لیے پیش کیا، لیکن اسے چکھنے کے بعد 56 فیصد بچوں نے کہا کہ وہ اس کا انتخاب کریں گے۔
فلپ کہتے ہیں کہ ‘ہم پختہ یقین رکھتے ہیں کہ اگر نوجوانوں کو کھانے کے قابل کیڑوں اور ‘ویکسو’ کے بارے میں آگاہی ہوگئی اور وہ آنے والے سالوں میں اپنے خاندانوں کے لیے جب انھیں خریدنا بھی شروع کردیں گے، تو وہ کہیں گے: ‘اوہ ہاں، کیڑے: یہ صرف ایک اور قسم کی خوراک ہیں’۔’
بگ فارم کا کہنا ہے کہ خشک کیڑوں کو پیس کر پاؤڈر میں تبدیل کرنا اور انہیں دیگر غذاؤں میں شامل کرنا ان لوگوں کو راغب کرنے کا ایک بہترین طریقہ ہے جو کیڑے کھانے سے ہچکچاتے ہیں۔
ایلی مور، جو اپنے بلاگ ‘بگ بِل’ کے ذریعے خوردنی کیڑوں کو مقبول بنا رہی ہیں، کہتی ہیں کہ وہ ہر صبح اپنے ناشتے کے پروٹین شیک میں جھینگروں کا پاؤڈر استعمال کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ‘یہ پروٹین کی حیاتیاتی دستیابی، دیگر غذائی اجزاء، پائیداری کے لیے بہترین ہے، اور یہ پیٹ میں بھاری پن پیدا نہیں کرتے ہیں۔ میں اس کی اس سے زیادہ اور کیا تعریف کروں۔’
ایلی مور، جو ‘چپل فارمز’ کی چیف کمیونیکیشن آفیسر ہیں – جو کہ امریکہ میں کیڑوں کے فارم بنانے اور چلانے کا کام کر رہا ہے، نے سنہ 2012 میں میکسیکو کے دورے پر پہلی بار ٹڈّیوں کھانے کی کوشش کی۔ ‘میں متجسس تھی اور ان کو آزمانے کا فیصلہ کیا۔ معلوم ہوا کہ وہ مزیدار ہیں اور اس نے میری زندگی ہمیشہ کے لیے بدل دی۔ میں (اب) کیڑوں کو اپنی خوراک کا حصہ بنا چکی ہوں۔’
وہ پرامید ہیں کہ یورپ اور امریکہ میں کیڑے کھانے کا رجحان بڑھ جائے گا۔ وہ کہتی ہیں کہ ‘بہت ساری تحقیق جاری ہے اور کیڑوں کی صنعت تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔’
رویے پہلے ہی بدل رہے ہیں اور خوردنی کیڑوں کی مانگ بڑھ رہی ہے – سنہ 2027 تک، خوردنی کیڑوں کی مارکیٹ 4.63 ارب ڈالر تک پہنچنے کا امکان ہے۔
خوردنی کیڑے اب نہ صرف مخصوص سٹورز کے ذریعے فروخت کیے جاتے ہیں، بلکہ ‘کیریفور’ اور ‘سینسبری’ سمیت یورپی سپر مارکیٹ چینز کے ذریعے فروخت کیے جاتے ہیں جب کہ امریکہ کی فاسٹ فوڈ چین ‘وے بیک برگرز’ کے مینو میں جھینگروں کو ‘مِلک شیک’ میں شامل کر کے فروخت کیا جاتا ہے۔
اگر گائے کے گوشت اور دیگر گوشت کی جگہ کیڑوں کی پروٹین استعمال کرنا ہے تو انہیں ہالینڈ میں اس سہولت کی طرح شدت سے کاشت کرنے کی ضرورت ہوگی
تاہم اگر آپ عنقریب خوردنی کیڑے خریدنے کا ارادہ نہیں رکھتے ہیں، تو ہو سکتا ہے کہ آپ انہیں پہلے ہی کھا رہے ہوں۔ وہ نادانستہ طور پر ہمارے کھانے کا حصہ بن سکتے ہیں، یا تو ہم تازہ خوراک کھانے کے چکر میں آکر کھاتے ہیں یا غلطی سے وہ ہمیں پاستا، کیک اور روٹی جیسی مصنوعات میں مل جاتے ہیں۔ امریکہ میں فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) کے پاس اس بات کی بھی ایک گنجائش موجود ہے کہ وہ کھانے میں کیڑوں کی آلودگی کو کتنی اجازت دے گی۔ مثال کے طور پر چاکلیٹ کی 100 گرام بار میں ایف ڈی اے کی جانب سے ریگولیٹری کارروائی کرنے سے پہلے 60 کیڑوں کے ٹکڑے (پورے جسم کے بجائے کیڑوں کے حصے) ہو سکتے ہیں۔ گندم کے آٹے میں ہر 50 گرام میں 75 کیڑوں کے حصے ہو سکتے ہیں، جبکہ میکرونی اور نوڈلز میں ہر 225 گرام میں 225 کیڑوں کے حصے ہو سکتے ہیں۔
فلپ کہتے ہیں کہ ‘فصلوں کی کٹائی کرتے وقت ان پر موجود کیڑوں کے ہر ٹکڑے کو ہٹانا عملاً سُود مند نہیں ہے۔’
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ انجیر کی کچھ نسلیں ایک مخصوص انجیر کے تتییا کے ذریعے اپنی پولینیشن پر انحصار کرتی ہیں، جو پھل کے اندر مرنے سے پہلے پھل کے اندر اپنے انڈے دیتی ہے۔ لیکن تتییا کا جسم ایک خامرہ فیسین (انزائم فیسین) کے ذریعے جلدی ہضم ہو جاتا ہے، جو انجیر سے تیار ہوتا ہے، اس میں تتییا کے کچھ اجزاء باقی رہے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ سے کچھ سبزی خوروں کے درمیان یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ آیا وہ یہ پھل کھا سکتے ہیں یا نہیں۔ تاہم انجیر کے اندر کی کرکری ساخت تتییا کے جسم کے اعضاء کی وجہ سے نہیں ہوتی ہے بلکہ اُس کے بیجوں کی وجہ سے ہوتی ہے۔ جدید سپر مارکیٹوں میں فروخت ہونے والی زیادہ تر انجیریں بغیر کسی تپش کے پولن ہوتی ہیں۔
لیکن یہاں تک کہ تتییا کے انجیر میں اس اتفاقی ادخال کو ایک طرف رکھتے ہوئے بہت سے سائنس دانوں کا خیال ہے کہ کیڑوں کو کھانے کے حوالے سے وسیع پیمانے پر پھیلنے والی بدگمانی کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہو سکتی ہے اگر دنیا کم ماحولیاتی اثرات کے ساتھ ہر ایک کے لیے زیادہ غذائیت سے بھرپور خوراک فراہم کرنے کے اپنے جڑواں مقاصد کو پورا کرنے کی امید رکھتی ہے۔
بہرحال میں اس دوران ٹڈّیوں کے اگلے سیزن کا انتظار کر رہا ہوں تاکہ میں اپنی پسندیدہ غذا سے لطف اندوز ہو سکوں۔
Comments are closed.