بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

برطانیہ میں گذشتہ ایک سال میں 177 خواتین قتل

خواتین کے خلاف جرائم: برطانیہ میں گذشتہ ایک سال میں 177 خواتین قتل، 90 فیصد سے زیادہ قاتل مرد

  • خالد کرامت، خدیجہ عارف
  • بی بی سی اردو لندن

حنا بشیر

،تصویر کا ذریعہMet Police

،تصویر کا کیپشن

حنا بشیر پاکستان سے اعلی تعلم حاصل کرنے لندن آئی تھیں

حنا بشیر کی عمر 21 برس تھی وہ پاکستان کے فیصل آباد ضلع کے جڑانوالاں گاؤں سے برطانیہ اعلی تعلیم حاصل کرنے آئی تھیں۔ حنا کونٹری یونیورسٹی میں بزنس مینجمنٹ کی تعلیم حاصل کررہی تھیں۔

حنا کو 11 جولائی کو آخری بار زندہ دیکھا گیا۔ ان کے دوستوں نے 14 جولائی کو پولیس کو ان کی گمشدگی کی اطلاع دی جس کے بعد تفتیش کے دوران برطانوی پولیس کو حنا بشیر کی مسخ شدہ لاش ایک سوٹ کیس سے ملی۔

حنا کے قتل کے جرم میں پولیس نے 26 سالہ محمد ارسلان کو گرفتار کیا۔ ارسلان کا تعلق حنا کے گاؤں سے تھا۔

جڑانوالاں میں موجود حنا بشیر کے والد محمد بشیر کاکیزئی نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی بیٹی تو بہت ارمانوں کے ساتھ لندن اعلی تعلیم حاصل کرنے گئی تھی ’حنا کی موت کے ساتھ ہمارے اور اس کے سارے ارمان ختم ہوگئے ہیں۔‘

حنا اپنے بہن بھائیوں میں سب سےبڑی تھیں اور اُن کا خواب تھا کہ وہ لندن سے پی ایچ ڈی کرکے اپنے خاندان کا نام روشن کریں۔

محمد ارسلان بظاہر حنا کے قریبی دوست تھے لیکن حنا کے والد کہتے ہیں کہ انھیں اس بات کو کوئی علم نہیں تھا۔

محمد بشیر کا کہنا ہے ’’حنا ایک خوش مزاج، محنتی اور فرمانبردار بیٹی تھی اور اب ہم پوری زندگی اس کے لیے روتے رہیں گے۔‘

حنا بشیر ایسی اکیلی خاتون نہیں جو بہت کم عمری میں ایک مرد کے ہاتھوں قتل کی گئی ہوں۔

زارا علینہ

،تصویر کا ذریعہMet Police

،تصویر کا کیپشن

زارا علینہ کا مشرقی لندن میں ایک انجان شخص نے قتل کردیا تھا

مواد پر جائیں

پوڈکاسٹ
ڈرامہ کوئین
ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

اس سے قبل 26 جون کو پاکستانی نثاد زارا علینہ کو ایک انجان شخص نے اس وقت قتل کردیا تھا جب وہ الصبح تقریبا 3 بجے ایسٹ لندن کی ایک سڑک پر پیدل واپس اپنے گھر جارہی تھیں۔

اس معاملے میں 29 سالہ جارج میک سوینی پر قتل کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ جارج میک سوینی نے زارا کا ساتھ لوٹ مار کی اور زبردستی جنسی تعلق قائم کرنے کی کوشش کی۔ زارا سر اور گلے میں چوٹیں لگنے سے ہلاک ہوئیں۔

زارا کے گھر والوں کی قریبی دوست انجم موج نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا ”زارا ایک بے حد عقل مند، خوش مزاج اور نڈر لڑکی تھی۔ جو ہمارے ساتھ ہوا وہ کسی کے ساتھ نہ ہو۔”

اُن کا مزید کہنا تھا کہ ‘ جس لڑکے نے زارا کا قتل کیا ہے اس کے خاندان یا اس کے جان پہنچان والے کسی شخص کو تو یہ علم ہوگا کہ اُس کا خواتین کے ساتھ رویہ ٹھیک نہیں تھا اور اس کا دیر گئے باہر اکیلے جانا خطرے سے خالی نہیں ہے۔‘

حنا بشیر اور زارا علینہ کی طرح بہت سی خواتین کی ہلاکت کے بعد برطانیہ میں ایک بار پھر یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ کیا برطانیہ خواتین کے لیے اُتنا محفوظ ہے جتنا سمجھا جاتا ہے؟

سرکاری اعدادوشمار کے مطابق گذشتہ برس برطانیہ میں 177 خواتین کا قتل ہوا جن میں راہ چلتی خواتین کے علاوہ گھریلو تشدد اور بعض کیسز میں اپنے بوائے فرینڈ کے ہاتھوں قتل ہوئیں۔

انگلینڈ اور خاص طور پر لندن کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ یہ ثفاتی اعتبار سے بہت متنوع، آزاد خیال اور اور خواتین کے لیے قدرے محفوظ شہر ہے۔ لیکن خواتین کے خلاف تشدد کے بارے میں اعدادوشمار پریشان کن ہیں۔

اپریل 2020 سے مارچ 2021 کے دوران انگلینڈ اور ویلز میں 177 عورتوں کو قتل کیا گیا۔

ان میں 58 کیسز میں اس بات کا علم نہیں کہ حملہ آور مرد تھا یہ عورت لیکن جن کیسز میں حملہ آور کی شناخت ہوئی ان میں قاتلوں میں 90 فیصد سے زیادہ مرد تھے۔

ستمبر 2020 سے 2021 تک تقریبا 41 ہزار خواتین جنسی تشدد کا شکار ہوئیں اور یہ اس سے پچھلے سال کے مقابلے میں 13 فیصد زیادہ ہے۔

اسی دوران ریپ کیسز میں صرف ایک اعشاریہ تین فیصد کیسس میں کسی پر فرد جرم عائد کی گئی یا مزید عدالتی کارروائی ہوئی۔

پولیس نے 2021 میں دسمبر تک گھریلو تشدد کے تقریبا 90 ہزار واقعات ریکارڈ کیے۔ پچھلے سال کے مقابلے میں ایسے کیسز میں 7 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

اگر اعدادوشمار دیکھیں تو حالات پہلے کے مقابلے میں خراب ہو رہے ہیں، اگر ایسا ہے تو اِس کی وجہ کیا ہے؟

ڈاکٹر روما طاہر
،تصویر کا کیپشن

ڈاکٹر روما طاہر کا کہنا ہے کہ حکومت کو خواتین کی حفاظت کے لیے مزید سرمایہ کاری کرنی ہوگی

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی سماجی کارکن ڈاکٹر روما طاہر کا کہنا ہے کہ اب سے بیس سال پہلے تک برطانوی سوسائٹی میں ’لوگ ایک دوسرے کو جانتے تھے، ایک دوسرے کا خیال رکھتے تھے۔ مقامی ممبر پارلیمان آپ کے گھر آکر آپ کے مسائل پر بات کرتے تھے اور سکولوں میں لڑکیوں کو اُن کے تحفظ سے متعلق کاؤنسلنگ کی جاتی تھی اور انھیں باقاعدہ ایک سیفٹی الارم دیا جاتا تھا جسے وہ اپنے پاس مشکل وقت میں استعمال کرنے کے لیے رکھتی تھیں۔ حکومت نے ان سب چیزوں پر آنے والے اخراجات میں کٹوتی کی ہے جو اس مسئلے کے بڑھنے کی وجہ ہوسکتی ہے۔‘

خواتین کے خلاف جرائم میں اضافے کے بعد حکومتی سطح پر بھی فکر مندی کا اظہار کیا گیا ہے۔

پریتی پٹیل، برطانوی وزیر داخلہ

،تصویر کا ذریعہPA Media

،تصویر کا کیپشن

برطانوی حکومت کا کہنا ہے کہ ہر خاتون کو مکمل تحفظ کا حق ہے۔

برطانوی وزیرِ داخلہ پریتی پٹیل کہتی ہیں کہ ’خواتین اور لڑکیوں کی حفاظت سب سے اہم ترجیح ہے۔‘

حکومت کہتی ہے کہ خواتین کے خلاف تشدد روکنے کے لیے مزید اقدامات بھی کیے جا رہے۔

صرف سنہ 2021 – 2022 میں برطانوی وزارتِ داخلہ نے خواتین کے خلاف تشدد کو روکنے کے لیے 4 کروڑ 30 لاکھ پاؤنڈ مختص کیے ہیں۔

خواتین کی حفاظت کے لیے مصروف سڑکوں پر پولیس کی تعداد میں اضافہ کیا گیا ہے، اور اس بات پر بھی زیادہ توجہ دی جا رہی ہے کہ متاثرین کی حفاظت کی جائے اور اُنھیں مکمل انصاف دلایا جائے۔

پولیس کے کلچر میں بھی تبدیلیاں لائی جا رہی ہیں تاکہ افسران اپنے عہدے کا ناجائز استعمال نہ کر سکیں۔

حکومت کے دعوے اپنی جگہ لیکن ہر واقعے کے بعد عوامی ردعمل اور خاص طور پر ٹوئٹر پر خواتین کے کامنٹس مسئلہ کی شدت کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔۔

خواتین

،تصویر کا ذریعہTwitter

ایک ٹوئٹر صارف پِکسی نے اپنی ٹویٹ میں لکھا، ’اُس کا نام یاد رکھیں۔ زارا علینہ۔ وہ بس گھر جا رہی تھی۔ لندن میں۔ برطانیہ میں۔ لوگ اب بھی نہیں مانیں گے کہ خواتین محفوظ نہیں؟

اور برطانوی ٹی وی شخصیت سمانتھا بی نے لکھا کہ جو سارا ایورارڈ کے ساتھ ہوا وہ ہم میں سے کسی کے بھی ساتھ ہو سکتا ہے۔ خاص طور پر سیاہ فام خواتین کے ساتھ دگنی زیادتی ہوتی ہے کیونکہ اُن پر ہونے والے حملوں کو حکام سنجیدگی سے نہیں لیتے اور میڈیا، عوام سب ہی سے سیاہ فام اور وِمن آف کلر کو وہ کوریج اور سپورٹ نہیں ملتی جو سفیدفام خواتین کو ملتی ہے۔

خواتین

،تصویر کا ذریعہTwiiter

اس تاثر کے بارے میں غیر سفید فام خواتین کے لیے مشکلات زیادہ ہیں، خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنی والی حرا حسین کا کہنا ہے کہ’جس جوش سے معاشرہ، سیاست دان اور صحافی ایک سفید فام خاتون کے قتل کے بارے میں لکھتے ہیں یا عوام اس بارے میں احتجاج کرتے ہیں وہ اُس صورت میں مختلف ہوتا ہے جب قتل کسی غیر سفید فام عورت کا ہوتا ہے۔ اس بات کا اعتراف کوئی بھی نہیں کرے گا۔ لیکن ہمیں اس بارے میں بات کرنی ہوگی تاکہ ہر عورت کو ملک کے قانون کے حساب سے انصاف ملے۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.