فرانسیسی خاتون کی خود کو قانونی طور ’مردہ‘ قرار دینے جانے پر زندہ ثابت کرنے کی جدوجہد
جین کو گذشتہ تین برس سے زیادہ عرصے سے قانونی طور پر مردہ قرار دیا جا چکا ہے
زندہ یا مردہ
جین ایک سرکاری دستاویزات دکھاتے ہوئے جن کے مطابق وہ زندہ نہیں ہیں
جیسا کہ آپ تصور کرسکتے ہیں، انھیں یہ علم ہونا کہ وہ قانونی طور پر زندہ نہیں تھی ان کے لیے ایک جھٹکا تھا۔
جین کا کہنا ہے کہ ‘مجھے اپنے زندہ نہ ہونے کا پتا شہر لےیون کی ایک عدالت کے فیصلے سے چلا تھا۔’
‘کورٹ کے عملے نے آکر مجھے ‘فوت ہو جانے‘ والی جین پوچین کے متعلق بتایا تھا۔ عدالتی حکام کے پاس دو خط تھے ایک ان کے شوہر اور دوسرا ان کے بیٹے کے لیے۔’ ان دستاویزات کو پڑھتے ہوئے مجھے احساس ہوا کے دراصل میں مر چکی ہوں۔’
عدالتی فیصلہ
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ مسئلہ جین کے لیے اس وقت شروع ہوا جب ان پر ایک سابقہ ملازم نے مقدمہ درج کروایا۔
جین ایک کلیننگ کمپنی چلاتی تھی اور ان کے ایک سابق ملازم ان سے تقریباً 20 برس قبل اپنی نوکری کھونے کا عوض معاوضے کا مطالبہ کر رہی تھی۔
یہ مقدمہ کئی برس تک فرانسیسی قانونی نظام میں لٹکا رہا، یہاں تک کہ لےیون کی عدالت نے سنہ 2017 میں فیصلہ سنایا کہ ہرجانہ ادا کرنا پڑے گا، لیکن اس وقت تک کلیننگ کمپنی کے منیجر فوت ہو چکے تھے۔
جین کا دعویٰ ہے کہ انھیں عدالتی سماعت کے لیے کبھی حکم نامہ نہیں ملا تھا اور اس وجہ سے وہ اپنی مالی معاملات یا کسی متوفی فرد کی حیثیت سے اپنی نئی حیثیت کا مقدمہ نہیں لڑ سکتی۔
اس کے نتیجے میں نہ صرف انھیں قانونی طور پر مردہ قرار دیا گیا بلکہ ان کے شوہر اور بیٹے سے کہا گیا کہ وہ سابق ملازم کو معاوضے کے طور پر 17000 ہزار ڈالرز بھی ادا کریں۔
اس عدالتی فیصلے کے اثرات مالی مشکل سے زیادہ نکلے۔
ان کا کہنا ہے ‘اب سب کچھ ایک میدان جنگ لگتا ہے، میں نے باہر جانا بند کر دیا ہے، میں جہاں تک ممکن ہو سکے گھر پر ہی رہتی ہوں۔ جب گھر کی گھنٹی بجتی ہیں تو میں چھپ جاتی ہو کہ کیا پتا اب کونسی بری خبر سننے کو ملے۔’
آپ صرف دو بار جیتے ہیں
تین سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے اور جین ابھی بھی فرانسیسی انتظامی نظام کو قانونی طور پر انھیں زندہ قرار دینے کے لیے کوشش کر رہی ہیں۔
‘میں ریاست سے چاہتی ہوں کہ وہ مجھے میری شناخت واپس کرے، میری شناخت مجھ سے چھین لی گئی ہے، میں اپنی زندگی، اپنا خاندان، شوہر، بیٹا اور اپنا سماجی حلقہ احباب واپس لینا چاہتی ہوں۔’
گذشتہ ہفتے ایک عدالت نے کھلی سماعت کی تھی جہاں ان کے وکیل نے فرانسیسی عدلیہ کے خلاف غلط ریکارڈ رکھنے کے دعوے کو پیش کیا۔
جین کی قانونی ٹیم کو عدالتی دستاویز کی غلطی ثابت کرنا ہوگی تاکہ انھیں مردہ قرار دیے جانے والے پہلے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جا سکے۔
ان کا کہنا ہے کہ ‘سب سے اہم یہ ثابت کرنا ہے کہ میں زندہ ہوں، یہ ثابت کرنا کہ میرا وجود ہے۔’
مستقبل میں واپسی
جین کو مردہ قرار دیے جانے والا عدالتی فیصلہ
کوئی نہیں جانتا کہ یہ صورتحال کیسے سامنے آئی۔ جین کے وکیل سلوین کورمیر نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ‘سابق ملازم نے کہا کہ مسز پوچین کوئی ثبوت فراہم کیے بغیر ہی مر گئیں، اور سب نے ان پر یقین کیا۔’
ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘کسی نے اس کی تصدیق نہیں کی۔’
سابق ملازم نے عوامی سطح پر کوئی بات نہیں کی اور نہ ہی اس کی شناخت ظاہر کی گئی ہے لیکن ان کے وکیل نے الزام لگایا ہے کہ جین کا خود اپنی موت میں ہاتھ تھا۔
انھوں نے الزام عائد کیا ہے کہ جین نے قانونی چارہ جوئی سے بچنے کے لیے، اور عدالتی خطوط کا جواب دینے سے انکار کے لیے خود کو مردہ قرار دیا۔
دونوں فریقین ایک دوسرے کے بیانات پر اختلاف رکھتے ہیں۔
چاہیے جو بھی قصوروار ہوں لیکن ایک بات واضح ہے کہ جین قانون کی نظر میں مردہ نہیں ہیں۔
البتہ ان کے لیے ایک خوشی کی خبر بھی ہے، ایک حکومتی ادارے نے انھیں بتایا ہے کہ ان کے ریکارڈ کے مطابق وہ مردہ نہیں ہیں مگر ابھی انھیں زندہ بھی قرار نہیں دیا گیا ہے۔
جین کا کہنا ہے کہ ‘میں زندہ ہونے کے عمل میں ہوں۔’
Comments are closed.