افغانستان میں غیر ملکی افواج کا انخلا: ’افغانی مترجم ضیا غفوری جنھیں امریکہ پہنچنے پر ’بے گھر‘ چھوڑ دیا گیا
- ہولی ہینڈریچ، برنڈ ڈیبسمین
- بی بی سی نیوز، واشنگٹن
ضیا غفوری، ان کی حاملہ اہلیہ اور تین چھوٹے بچے ستمبر سنہ 2014 میں اپنے ملک کابل سے امریکہ پہنچے۔
ان کے پاس پانچ امریکی ویزے تھے، جو انھیں افغانستان میں امریکی سپیشل فورسز کے ساتھ مترجم کی حیثیت سے 14 سال کی خدمت کے انعام کے طور پر دیے گئے تھے۔
لیکن امریکہ پہنچنے پر ضیا نے خود کو بے گھر پایا اور انھیں ایک شیلٹر ہوم بھیج دیا گیا جس کے بارے میں انھیں ایک رضا کار نے بتایا کہ یہ ان کے خاندان کے لیے ایک نئی زندگی شروع کرنے کی جگہ ہے۔
سات سال گزرنے کے باوجود ضیا کو یہ یاد غصہ دلاتی ہے۔
شمالی کیرولینا جہاں وہ اب بھی رہتے ہیں سے انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کیسے وہ اپنے بچوں سے آنکھ ملانے کی کوشش کرتے تھے تاکہ انھیں امریکہ لانے کے لیے ان سے معافی مانگ سکیں۔
انھوں نے کہا ’میں اپنے آنسوؤں پر قابو نہیں پا سکتا تھا۔ میں خود سے پوچھتا تھا کہ میں نے دونوں ملکوں کے لیے جو کچھ کیا، کیا اس کے بعد میں اس کا حقدار ہوں۔‘
لیکن اپنے بہت سے ساتھیوں کے مقابلے 37 برس کے ضیا خود کو خوش قسمت سمجھتے ہیں کہ وہ امریکہ آ گئے۔
سنہ 2001 میں افغان جنگ کے آغاز کے بعد سے جب مغربی افواج نے طالبان سے ملک کا کنٹرول چھیننے کے لیے حملہ کیا، ہزاروں افغان شہریوں نے امریکی اور اس کے اتحادی فوجیوں کے لیے مترجم، فکسر اور مقامی گائیڈ کے طور پر اپنی خدمات سرانجام دیں۔
اس تنازعے کی دو دہائیوں بعد امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے اس عزم کا اظہار کیا کہ امریکی افواج رواں برس 11 ستمبر تک افغانستان سے نکل جائیں گی۔
ایک طویل ہجرت
امریکی صدر جو بائیڈن نے وعدہ کیا کہ مترجموں کا بڑے پیمانے پر انخلا اگست سے پہلے شروع ہو جائے گا اور جمعے کے روز 2500 کے ابتدائی گروپ میں سے 200 افغانی شہری اپنی ویزا درخواستیں مکمل کرنے کے بعد نئی زندگی شروع کرنے کے لیے امریکہ پہنچے ہیں۔
تقریباً 50 ہزار مترجم امریکی فوج کے ساتھ کام کر چکے ہیں اور سنہ 2008 سے اب تک تقریباً 70 ہزار افغانی شہری، جن میں مترجم اور ان کے خاندان شامل ہیں، اپنی خدمات کے بدلے ایک خصوصی امیگریشن ویزے کے تحت امریکہ پہنچے ہیں تاہم 20 ہزار کے قریب مترجم اور ان کے خاندان ابھی بھی افغانستان سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انھیں ویزے کے ایک پیچیدہ عمل کا سامنا ہے جبکہ طالبان کی تیزی سے پیش قدمی کا خطرہ بڑھ رہا ہے کیونکہ امریکہ نے 20 برس جاری رہنے والی اپنی یہ جنگ ختم کر دی ہے۔
امریکہ کے لیے کام کرنے کی وجہ سے انھیں مار دیے جانے کا خطرہ ہے۔ سنہ 2009 سے اب تک تقریباً 300 مترجم ہلاک ہو چکے ہیں۔ مرنے والے مترجم بھی امریکہ کا ویزہ حاصل کرنے کی کوشش میں تھے لیکن یہ ایک طویل اور پیچیدہ عمل ہے۔
اس تاخیر نے ضیا کو بھی متاثر کیا۔ وہ کہتے ہیں ’ان لوگوں نے دونوں ملکوں کے لیے لڑائی لڑی۔۔۔ اور ہم اپنی آنکھیں بند کر کے انھیں وہاں مرنے کے لیے چھوڑ رہے ہیں۔‘
’وہ میرے بھائی ہیں‘
ضیا نے سنہ 2002 میں بحیثیت ایک مترجم امریکی فوج میں شمولیت اختیار کی۔ 18 برس کی عمر میں یہ ان کی پہلی فل ٹائم ملازمت تھی۔ ضیا کہتے ہیں کہ ’یہ بھی چھ سال قبل، جب طالبان نے افغانستان میں اقتدار حاصل کیا، ان کے اپنی والدہ سے کیے گئے وعدے کی تکمیل تھی۔‘
اس وقت ضیا سکول میں تھے اور انھوں نے اچانک سے ہی اپنے لاپرواہ بچپن کو ختم ہوتے دیکھا جب ان کا اپنے سات بہن بھائیوں سمیت آزادانہ طور پر سکول آنا جانا اور کھیلنا بند ہو گیا۔
ضیا کی بہنوں کو سکول جانے سے روک دیا گیا، ان کے بڑے بھائی جو اس وقت 20 کے پیٹے میں تھے، کو پنجشیر وادی کی بولی بولتے ہوئے سنے جانے کے بعد مارا پیٹا گیا اور جیل میں ڈال دیا گیا۔
پنجشیر وادی بعد میں طالبان مخالف مزاحمت کا مرکز بھی بنی رہی۔
ضیا کہتے ہیں کہ مار پیٹ کی وجہ سے ان کے بھائی کے پاؤں اور ٹانگیں سوج گئیں اور وہ اپنے جوتے بھی نہیں پہن سکتے تھے۔ چوٹیں اتنی شدید تھیں کہ وہ چل پھر بھی نہیں سکتے تھے۔ کچھ ہی دنوں میں ضیا کے والدین نے فیصلہ کیا کہ وہ اب یہاں نہیں رہ سکتے اور یہ خاندان کابل میں اپنا گھر چھوڑ کر پاکستان کے شہر پشاور آ گیا۔
ضیا کہتے ہیں کہ ’میں نے اپنی والدہ کو کہا کہ میں بڑا ہو کر طالبان کے خلاف لڑوں گا۔‘ پشاور میں ضیا نے سکول میں انگریزی سیکھی تاہم ان کا خاندان سنہ 2001 تک پاکستان میں رہا۔
ضیا کہتے ہیں کہ جب وہ واپس آئے تو انھوں نے اپنے ملک میں ایک مستحکم حکومت دیکھی۔ ’میں نے کہا ٹھیک ہے، اب ہمیں امید ہے۔‘
انھوں نے افغانستان میں اپنی زندگی شروع کی، شادی کی اور ایک مقامی سکول میں انگریزی پڑھانا شروع کر دی۔ ان کی واپسی کے کچھ مہینوں بعد ہی ایک دوست نے ضیا کو بتایا کہ امریکیوں کو مترجم کی ضرورت ہے۔ وہ اگلے ہی روز اس ملازمت کے بارے میں پوچھنے کے لیے کابل میں امریکیوں کے اڈے پر گئے۔
’وہ صرف ایسے لوگوں کو بھرتی کر رہے تھے جو انگریزی بولنا جانتے تھے۔ مجھے فوجی الفاظ کا نہیں پتہ تھا لیکن انھوں نے مجھے کہا کہ کوئی مسئلہ نہیں۔‘
ضیا کہتے ہیں کہ اپنے گھر سے مہینوں دور رہنے اور فرنٹ لائن پر خدمات انجام دینے کے شدید خطرے کے باوجود بھی انھیں اپنے کام سے پیار تھا۔
انھوں نے اپنی بیوی اور خاندان کی جانب سے یہ ملازمت چھوڑنے کی کئی درخواستوں کی مخالفت کی اور کہا کہ انھوں نے اپنے امریکی مسلح افواج کے ’بھائیوں‘ کے لیے اپنی خدمات وقف کر دیں ہیں، جنھوں نے ضیا کو ’بویا‘ کا نام دیا۔
ضیا کہتے ہیں کہ ’ہم فوج کی آنکھ اور زبان تھے۔‘
ضیا کے مطابق امریکی فوج کی سپشل فورس ’گرین بیرٹس‘ کے ساتھ کام تشدد اور موت سے مسلسل قربت کے مترادف تھا۔
سنہ 2008 میں ضیا امریکی فوجیوں کے ساتھ ’بیٹل آف شوک ویلی‘ یعنی وادی شوک میں لڑائی کا بھی حصہ رہے۔ چھ گھنٹے جاری رہنے والی اس فائرنگ میں ان کے سب سے بہترین دوست مارے گئے جو ان کی طرح ایک مترجم تھے۔
ویتنام کے بعد یہ پہلی لڑائی تھی جس میں حصہ لینے والوں کو ان کی بہادری پر سب سے زیادہ تمغوں سے نوازا گیا تھا۔
ضیا کو اس لڑائی میں آنے والی چوٹوں پر ’پرپل ہارٹ‘ نامی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ جس دن وہ امریکہ پہنچے ان کے جسم میں اس لڑائی کے دوران استعمال ہونے والے بارود کا حصہ موجود تھا۔
یہ بھی پڑھیے
جس برس یہ لڑائی لڑی گئی، ضیا نے اسی سال ایک نئے ویزہ پروگرام کے تحت امریکہ کے ویزے کے لیے درخواست دے دی۔ سپیشل امیگرینٹ ویزہ نامی یہ پروگرام سنہ 2008 میں کانگریس نے خصوصی طور پر ان افغانی اور عراقی شہریوں کے لیے تشکیل دیا تھا جو تنازعات میں امریکی فوجیوں کے شانہ بشانہ کام کرتے رہے۔
ضیا کے ویزے کی منظوری میں چھ سال لگ گئے۔ ایک انتہائی نرم گو اور خوش اخلاق طبیعت کے مالک ضیا نے اس طویل عمل کو ’قابل نفرت‘ قرار دیا۔
وہ کہتے ہیں کہ یہ تاخیر ناقابل بیان تھی۔ ’مجھے نہیں معلوم کہ اتنا وقت کیوں لگتا ہے۔ ہم تو پہلے سے ہی امریکہ کے ڈیٹا بیس میں تھے۔ میں نہیں جانتا کہ کون امریکی محکمہ خارجہ کو اس بارے میں سمجھا سکتا ہے کہ ان لوگوں نے دونوں ملکوں کے لیے کیا کیا ہے۔‘
’میں کچھ بھی نہیں لے جا سکتا‘
سنہ 2014 کے موسم گرما میں صوبہ ننگر ہار کے شہر جلال آباد میں دوران ڈیوٹی ضیا کو بذریعہ ای میل اپنے ویزے کی منظوری کی خبر ملی۔ وہ کہتے ہیں مجھے ’عجیب‘ محسوس ہوا کہ میں افغانستان میں بنائی ہوئی اپنی کوئی چیز ساتھ لے کر نہیں جا سکتا۔
عسکریت پسندوں کی جانب سے ضیا کے خاندان کو دھمکیاں ملنے لگیں جن کا مقصد امریکی فوج کے ساتھ تعاون کی حوصلہ شکنی کرنا تھا۔
اپنے ویزے کی منظوری کے تین ماہ بعد ضیا اور ان کا خاندان بذریعہ ایک کمرشل پرواز امریکی ریاست ٹینیسی کے شہر نیشول پہنچا۔ ضیا اور ان کے خاندان کے پاس کپڑوں سے بھرے چند بیگ تھے جبکہ اس پرواز پر ان کا 6500 ڈالر کا خرچہ آیا۔
جب وہ یہاں پہنچے تو انھیں کسی قسم کی کوئی مدد نہیں ملی اور اس ناواقفیت نے ضیا کو چونکا دیا۔ وہ کہتے ہیں ’مجھے یہاں کوئی افغانی شہری نہیں ملا۔‘
ضیا نے ایک ٹیکسی میں اپنی فیملی کو سوار کیا اور دوسری ریاست ورجینیا کے شہر مناساس چلے گئے جس کے بارے میں انھوں نے سنا تھا کہ یہاں پر بہت سے افغانی شہری رہتے ہیں۔ وہاں وہ ہوٹل میں رہے جہاں ضیا ان تنظیموں تک پہنچنے کی کوشش کرتے رہے جو اس خصوصی ویزے کے تحت آنے والے افراد کی مدد کرتی ہیں۔
چند ہفتوں بعد ایک رضا کار نے انھیں فون کیا اور کہا کہ اس نے ضیا کے خاندان کے لیے رہنے کی جگہ اور نئی زندگی شروع کرنے کے لیے ایک جگہ ڈھونڈ لی ہے۔
ضیا کہتے ہیں ’وہ (رضاکار) مجھے بے گھر افراد کے ایک شیلٹر ہوم لے گئے۔ میں نے ارد گرد دیکھا اور کہا کہ یہ ایسی جگہ نہیں جہاں میرے بچے بڑے ہوں گے۔‘
ان کے پاس کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں وہ جا سکتے تھے اور ضیا کو ایک بار پھر محسوس ہوا کہ اس ملک نے انھیں چھوڑ دیا ہے جس نے ان کا خیال رکھنے کا وعدہ کیا تھا۔ ان کے بچے جو اتنے بڑے نہیں تھے کہ صورتحال کو سمجھ سکتے، خوفزدہ اور پریشان تھے۔
وہ ہر روز اپنے والد سے پیچھے رہ جانے والے اپنے دوستوں اور خاندان کے بارے میں پوچھتے اور کہتے کہ وہ واپس اپنے گھر کب جائیں گے۔
’یہ ہی تمہارا گھر ہے‘
انتہائی مایوسی کی حالت میں ضیا نے اپنے سابق کیپٹن کو فون کیا اور بتایا کہ وہ کہاں ہیں۔ ضیا کہتے ہیں ’انھیں بہت غصہ آیا۔ چند دن بعد وہ آئے اور مجھے میرے خاندان سمیت شمالی کیرولینا میں اپنے گھر لے گئے۔‘
انھوں نے مجھے کہا ’یہ ہی تمہارا گھر ہے۔ تم جب تک یہاں رہنا چاہو رہ سکتے ہو۔‘
ضیا کہتے ہیں ’میں کبھی بھی یہ نہیں بھول سکتا۔‘
ضیا بالاخر اپنے خاندان کو شارلٹ میں اپنے اپارٹمنٹ میں منتقل کرنے میں کامیاب ہو گئے، جہاں انھوں نے تعمیراتی شعبے میں کام کیا اور بعد میں ایک سٹور پر بھی کام کیا۔
انھوں نے اپنے امریکی ساتھیوں سے نیویارک، واشنگٹن اور لاس ویگس کے بارے میں جو کچھ سنا تھا شمالی کیرولینا ویسا نہیں تھا لیکن وہ اپنی نئی زندگی میں اپنے بچوں کے بحفاظت سکول جانے اور اہلیہ کے آزادانہ طور پر کام کے لیے جانے کی وجہ سے مطمئن تھے۔
ان کے چاروں بچے جلد ہی فرفر انگریزی بولنے لگے اور ایک سابق مترجم کی انگریزی کا اب مذاق بھی اڑایا جاتا ہے۔ گذشتہ برس ضیا اور ان کے تین بچوں کو امریکی شہریت مل گئی ہے۔ ان کے سب سے چھوٹے بیٹے، پیدائشی طور پر امریکی ہیں اور ہلکے سے جنوبی لہجے میں بات کرتے ہیں۔
دو برس پہلے یہ خاندان ایک نئے گھر میں منقتل ہوا، جس کے اوپر امریکی جھنڈا لگایا گیا ہے۔
’کچھ بھی نہیں بدلا‘
سنہ 2019 میں ضیا نے خصوصی ویزے پر امریکہ آنے والے مترجموں اور امریکہ میں انھیں بسنے میں مدد کرنے کے لیے ایک تنظیم شروع کی۔ اب وہ سابق مترجم اور ان کے اہلخانہ کی طرف سے راتوں کو بھی فون وصول کرتے ہیں، جو افغانستان سے نکلنے کے لیے بے چین ہیں۔
ان میں سے بیشتر کئی برسوں سے جاری اس پیچیدہ بیوروکریٹک عمل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اس عمل کی پیچیدگیوں میں مزید اضافہ اس لیے بھی ہو گیا ہے کہ یہ امریکی انخلا صرف کابل سے ہو رہا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ دارالحکومت سے باہر رہنے والے افغانی شہریوں کو طالبان کے زیر کنٹرول علاقوں سے ایک خطرناک سفر کرنا ہو گا۔
واشنگٹن ڈی سی کی ایک غیر سرکاری تنظیم ’فاؤنڈیشن فار دا ڈیفینس آف ڈیموکریسی‘ کے مطابق اپریل میں امریکہ کے اپنی فوجیوں کے انخلا کے اعلان کے بعد سے طالبان کے زیر کنٹرول علاقوں کی تعداد 72 سے بڑھ کر 221 ہو گئی ہے۔
امریکی حکومت نے کہا ہے کہ یہ ممکن ہے کہ اگلے برس تک افغان حکومت ختم ہو جائے۔ کچھ صوبے جن میں طالبان کے قبضے کا خطرہ سب سے زیادہ ہے، جیسے قندھار اور ہلمند، یہاں ہزاروں امریکی فوجیوں اور ان کے مقامی متراجم کے گھر ہیں، جنھیں اب طالبان کے ہاتھوں پکڑے جانے یا پھانسی کا خطرہ ہے۔
ریٹائرڈ کرنل مائیک جیسن کہتے ہیں کہ متراجم کو مستقل خطرے کا سامنا ہے۔ ’یہ کوئی معمہ نہیں۔ ایک دہائی تک ہمارے مترجموں کا قتل کیا گیا۔‘
انھوں نے کہا کہ امریکی فوج کے ساتھ سابقہ ملازمت کا ثبوت اور ویزا درخواست کے لیے ضروری دستاویزات، طالبان کی نظر میں کسی ’اعتراف‘ کے مترادف ہیں۔ انھوں نے مزید کہا: ’ہم ایسے پوائنٹ پر ہیں جہاں مجھے نہیں معلوم کہ وہ وہاں سے کیسے نکل سکتے ہیں۔‘
امریکی محکمہ خارجہ نے ہر ممکن حد تک اس عمل کو تیز کرنے کا وعدہ تو کیا ہے لیکن انتہائی سست روی سے جاری اس عمل نے سابق فوجیوں اور متراجم کو ناراض ہی کیا ہے۔
مصنف اور سابق امریکی فوجی جو کیسابین کہتے ہیں کہ ’یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ ہم جا رہے ہیں۔ یہ کچھ ایسا نہیں جو اچانک ہو رہا ہے۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’ہمیں آگے کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے تھی اور اب ہم اس طرح کام کر رہے ہیں جیسے ہمیں ہنگامی انخلا کی ضرورت ہے۔‘
ضیا نے اپنے بچپن میں افغانستان کو معمول پر واپس آنے کی جدوجہد کرتے دیکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’کچھ بھی نہیں بدلا۔ طالبان ابھی بھی معصوم لوگوں کو مار رہے ہیں۔‘ اور اس سے بھی زیادہ ضیا یہ سمجھنے کی بھی جدوجہد کر رہے ہیں کہ امریکہ نے اپنے اتحادیوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے اپنے فوجیوں کو گھر کیسے بھیج دیا۔
ضیا کہتے ہیں وہ اپنے اس نئے ملک سے محبت کرتے ہیں لیکن ان کا خیال ہے کہ اس ملک کے سیاستدانوں نے ان کے ساتھ اور ان جیسے دوسروں کو دھوکہ دیا ہے۔ ضیا کہتے ہیں ’وہ ہم سے اپنے ہاتھ پیھچے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
معاون تحقیق: چیلسی بیلے
Comments are closed.