دو برس قبل ایران میں تباہ ہونے والے یوکرینی طیارے پی ایس 752 میں ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین انصاف کے منتظر
- برنڈ ڈیبسمان جونیئر
- بی بی سی نیوز
ایران میں تباہ ہونے والے طیارے میں مرنے والوں میں ڈاکٹر حامد ایسمائیلین کی بیوی اور بچی بھی شامل تھیں
دو برس قبل ڈاکٹر حامد اسماعیلیون کی زندگی میں ایک افسوسناک موڑ آیا جب ان کی اہلیہ پریسا اقبالیان اور ان کی نو برس کی بچی ریرا تہران سے براستہ کیئف یوکرینی طیارے پر واپس کینیڈا کے لیے روانہ ہوئے۔
ڈاکٹر حامد اسماعیلیون اس واقعے کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک دن قبل ’میں ان کے واپس آنے کے لیے گھر کو سجا سنوار رہا تھا‘ تاکہ اگلے دن جا کر انھیں ایئرپورٹ سے گھر لے کر آئیں۔
مگر اس کے بعد وہ اپنی اہلیہ اور بچی کو کبھی زندہ نہیں دیکھ سکے۔
ڈاکٹر حامد نے بی بی سی کو بتایا کہ اب ان کی زندگی ویران ہو گئی ہے۔ خالی پن محض ایک لفظ ہے۔ یہی ایک چیز ہے جس کے ساتھ اب میں رہ رہا ہوں۔ اور یہی وہ کیفیت ہے جو اب مجھ پر پوری طرح طاری ہے۔
یوکرین کی بین الاقوامی فضائی کمپنی کی پرواز پی ایس 752 ایران کے دارالحکومت تہران سے پرواز کے چند ہی منٹ بعد گر کر تباہ ہو گئی۔ پریسا اور ریرا سمیت اس حادثے میں طیارے پر سوار مسافروں اور عملے کے اراکین سمیت تمام 176 افراد ہلاک ہو گئے۔
اس طیارے کو 8 جنوری سنہ 2020 کو ایرانی میزائلوں نے ہدف بنایا تھا۔ ایران نے اسے انسانی غلطی قرار دیا تھا۔
یہ واقعہ بغداد میں امریکہ کی جانب سے اعلیٰ ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت اور امریکی افواج کی میزبانی کرنے والے عراقی اڈوں پر ایرانی میزائل حملے کے بعد خطے میں شدید کشیدگی کے دنوں میں پیش آیا۔
حامد اسماعیلیون اور دیگر افراد جنھوں نے اس حادثے میں اپنے پیاروں کو کھو دیا ہے کا کہنا ہے کہ وہ اب بھی انصاف کے متلاشی ہیں اور یہ امید کرتے ہیں کہ کینیڈا کی حکومت مدد کے لیے مزید اقدامات کرے گی۔
ڈاکٹر حامد اب کینیڈا میں مقیم متاثرین کی تنظیم (ایسوسی ایشن آف فیملیز آف فلائٹ PS752 وکٹمز) کے صدر اور ترجمان ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب ان کے پاس اگر کچھ رہ گیا ہے تو وہ یہ مقدمہ ہے۔ اور یہی صورتحال زیادہ تر دوسرے لوگوں کی بھی ہے۔
طیارے میں ہلاک ہونے والوں میں سے 138 کا کینیڈا سے تعلق تھا، جن میں 55 شہری اور 30 مستقل رہائشی تھے۔ مرنے والوں میں 29 بچے، 53 یونیورسٹی کے طلبا، چار نوبیاہتا جوڑے اور آٹھ پورے خاندان شامل تھے۔
مارچ میں ایران کی سول ایوی ایشن آرگنائزیشن نے اپنی حکومت کے اس دعوے کو درست تسلیم کر لیا کہ اس جہاز کی تباہی انسانی غلطی تھی۔
بعد ازاں جون میں کینیڈا کی حکومت نے پی ایس 752 کو گرائے جانے کے بارے میں ایک رپورٹ کے نتائج جاری کیے تھے، جس میں ایران کی حکومت کو ’مکمل طور پر ذمہ دار‘ قرار دیا گيا تھا لیکن رپورٹ میں اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ یہ پہلے سے طے شدہ تھا۔
اور نومبر میں ایران کی عدلیہ نے اعلان کیا کہ دس ایرانی فوجی اہلکار پی ایس 752 کو گرانے کے لیے عدالتی کارروائی کا سامنا کر رہے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں کے اہل خانہ کو ابھی تک یہ نہیں بتایا گیا کہ مقدمے میں شامل افراد کون ہیں اور ان پر کیا الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ توقع ہے کہ مقدمے کی سماعت 2022 تک جاری رہے گی۔
تہران میں یوکرین کے سفیر کو ٹرائل دیکھنے کے لیے مدعو کیا گیا تھا، لیکن ایران کی جانب سے ’بین الاقوامی قانون کے تحت اپنی ذمہ داریوں‘ کو پورا کرنے اور معلومات فراہم کرنے میں ناکامی کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے اس ٹرائل کو دیکھنے سے انکار کر دیا۔
کینیڈین رپورٹ ’ایسوسی ایشن آف فیملیز‘ کی طرف سے جاری کردہ ایک اور رپورٹ اس کے بالکل برعکس ہے۔
اس کینیڈین رپورٹ میں ایران پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ مسافر پروازوں کو ’ممکنہ امریکی حملوں کے خلاف انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کر رہا ہے، جان بوجھ کر [ایرانی] فضائی حدود کو عام مسافر بردار پروازوں کے لیے بند نہیں کر رہا ہے۔
رپورٹ میں ایرانی حکام پر پی ایس 752 کے ملبے سے ملنے والے الیکٹرانک آلات کے ساتھ چھیڑ چھاڑ اور متاثرین کی باقیات کو غلط طریقے سے ہینڈل کرنے اور غلط شناخت کرنے کا بھی الزام لگایا گیا ہے۔
ایرانی وزارت خارجہ نے رابطہ کرنے پر بی بی سی کو کوئی جواب نہیں دیا۔
ڈینئیل قدس اصفہانی کی گرل فرینڈ، بہن اور ماں بھی اس طیارے میں ہلاک ہوئیں
ایڈمنٹن کے رہائشی ڈینیئل قدس اصفہانی، جن کی عمر 21 برس ہے ان کی گرل فرینڈ صبا سعادت اپنی بہن اور والدہ کے ساتھ اس پرواز میں ہلاک ہوئیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ متاثرین کے اہل خانہ کو ایرانی حکومت سے ’زیادہ توقعات نہیں ہیں۔‘
انھوں نے کہا: ‘اس حکومت کی نوعیت کو دیکھیں۔ وہ اپنے معاملات میں زیادہ شفافیت اختیار کرنے والوں کے طور پر نہیں جانے جاتے ہیں۔ اور لفظ انصاف تو جیسے ان کی لغت میں موجود ہی نہیں ہے۔’
تاہم قدس اصفہانی کا کہنا تھا کہ لواحقین کی کینیڈا کی حکومت سے بہت توقعات وابستہ ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’ایک کینیڈین کے طور پر میں حکومت سے اپنے شہریوں کے حق کے لیے اٹھ کھڑے ہونے اور اپنے انصاف کے معیار پر عمل کرنے کی امید رکھتا ہوں۔’ تاہم ان کے مطابق بدقسمتی سے گذشتہ چند برسوں میں کینیڈا کی حکومت نے ایسا مؤثر کردار ادا نہیں کیا ہے۔
متاثرین کے لواحقین چاہتے ہیں کہ کینیڈا کی حکومت ایران پر مزید شواہد، بین الاقوامی تحقیقات اور بین الاقوامی عدالت انصاف اور بین الاقوامی فوجداری عدالت یا انٹرنیشنل سول ایوی ایشن آرگنائزیشن (آئی سی اے او) میں اپیل کرنے کے لیے دباؤ بڑھایا جائے۔
وہ چاہتے ہیں کہ رائل کینیڈین ماؤنٹِڈ پولیس کی طرف سے فوجداری تحقیقات شروع کی جائیں، مخصوص ایرانی اہلکاروں پر اقتصادی پابندیاں لگائی جائیں اور پورے ایرانی پاسداران انقلاب کور (آئی آر جی سی) کو کینیڈا کی نامزد دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا جائے۔
فی الحال، صرف آئی آر سی جی کی قدس فورس، جو بیرون ملک اپنی خفیہ کارروائیوں کے لیے جانی جاتی ہے، اس فہرست میں شامل ہے۔
اس یوکرینی طیارے کو گرانے پر کسی کو ذمہ دار ٹھہرانے کی کوشش میں لواحقین نے مختلف قانونی راستے اختیار کیے ہوئے ہیں، جن میں یوکرین ایئر لائنز، پاسداران انقلاب اور میزائل آپریٹر ‘جان ڈو’ کے خلاف قانونی چارہ جوئی شامل ہے۔
جب جج نے اس بین الاقوامی واقعے کو دہشت گردی کی ایک دانستہ کارروائی قرار دیا تو تین جنوری کو اونتاریو کی ایک عدالت نے چھ متاثرین کے خاندانوں کو 107 ملین ڈالر کا ہرجانہ ادا کیا۔
لواحقین کے ایک وکیل مارک آرنلڈ نے سی بی سی نیوز کو بتایا کہ رقم اکٹھا کرنا بہت مشکل ہو گا اور وہ کینیڈا سے درخواست کر رہے ہیں کہ وہ ایران کو جوابدہ ٹھہرانے کے لیے اہل خانہ کے ساتھ تعاون کرے۔
یہ بھی پڑھیے
کینیڈا نے یوکرین، برطانیہ اور سویڈن کی طرح ایرانی حکومت سے بین الاقوامی قانون کے تحت معاوضے کا مطالبہ کیا ہے۔
ایران نے ابھی تک مذاکرات سے انکار کیا ہے۔
چھ جنوری کو اس معاملے میں شریک چار ممالک نے اعلان کیا کہ وہ اب ایران سے مذاکرات نہیں کریں گے۔
ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے کہا ہے کہ ایران کے ساتھ مذاکرات کی کوششیں ’بے سود‘ ہیں اور اس معاملے کو بین الاقوامی قانون کے مطابق حل پر توجہ مرکوز کرنے کا عزم کیا ہے۔
ان ممالک نے یہ واضح نہیں کیا کہ وہ مستقبل میں کن اضافی اقدامات پر غور کریں گے۔
بی بی سی کو بھیجے گئے ایک بیان میں گلوبل افیئرز کینیڈا کے ترجمان نے پی ایس 752 کو گرائے جانے کو ’کینیڈا کا سانحہ‘ قرار دیا اور کہا کہ وہ ’جواب تلاش کرنے اور انصاف کے حصول کے لیے پرعزم ہیں۔‘
کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے جمعے کو متاثرین سے نجی طور پر ملاقات بھی کی۔
کچھ لواحقین کے لیے کینیڈا کی کوششیں ناکافی ہیں۔
ڈاکٹر حامد کا کہنا ہے کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ وہ کینیڈا کے شہریوں کے لیے لڑیں۔
’کینیڈا کی تاریخ میں کینیڈا کے شہریوں کے خلاف یہ دوسرا بدترین دہشت گردانہ حملہ ہے۔۔۔ وہ اور بھی بہت کچھ کر سکتے تھے۔ ہم ابھی تک انتظار کر رہے ہیں۔‘
اس دوران پورے کینیڈا میں متاثرین گھرانوں اور عوام کو کچھ نہیں بتایا جا رہا ہے۔
سب سے زیادہ متاثر ہونے والے قصبوں میں ایڈمنٹن شامل ہے جہاں بہت مل جل کر رہنے والی ایرانی نژاد کینیڈین کمیونٹی کے 13 افراد اس طیارے میں ہلاک ہوئے ہیں۔
ایرانی ہیریٹیج سوسائٹی آف ایڈمنٹن کے سابق صدر رضا اکبری نے کہا کہ ’سب سے بڑی بات جس نے میرے خیال میں واقعی سب کو چونکا دیا وہ یہ تھی کہ کینیڈا میں موجود ہر ایک ایرانی نژاد کینیڈین کے لیے یہ دیکھنا واقعی آسان نہیں تھا کہ وہ بھی [شکار] ہو سکتے تھے۔‘
رضا اکبری نے پی ایس 752 میں ایک دوست کو کھویا ہے۔ انھوں نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ ان کی اہلیہ حادثے سے دو ہفتے پہلے تہران سے واپس آئی تھیں۔ انھوں نے کہا کہ ان کی اہلیہ نے ایران میں مزید قیام اور پی ایس 752 پر ٹکٹ بک کروانے کے امکان پر بات کی تھی۔
’میں جب میں اس بارے میں سوچتا ہوں تو کانپ جاتا ہوں۔‘ ان کے مطابق اگر پلان میں کچھ ایسی تبدیلی ہوتی تو ’ہماری زندگی بالکل مختلف ہو سکتی تھی۔‘
لواحقین البرٹا کی پارلیمنٹ کے باہر احتجاج کر رہے ہیں
ڈاکٹر حامد اسماعیلیون نے کہا کہ انصاف کی تلاش ہی وہ واحد چیز ہے جو انھیں دو برس سے آگے بڑھنے پر مجبور کر رہی ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’یہ صرف میں ہی نہیں، خاندان کے تمام افراد اب ایئر لائن ٹیکنیشن اور بین الاقوامی وکیلوں کی طرح ہو گئے ہیں۔‘ اب ’میں کتاب پڑھنے پر بھی توجہ نہیں دے سکتا۔ سب ختم ہو گیا۔ لیکن اگر کوئی چیز ہوائی جہاز سے متعلق ہو تو میں اسے پڑھ سکتا ہوں۔‘
‘یہ میرے لیے انتہائی اہم چیز بن گئی ہے۔ اب یہی میری زندگی ہے۔’
Comments are closed.