میانمار کے کس صوبے پر انڈیا، چین اور بنگلہ دیش کی نظریں ہیں؟
رخائن کا ساحل
- مصنف, نتن شریواستو
- عہدہ, بی بی سی، نئی دہلی
میانمار کے شمال مغربی ساحل پر ایک شہر سیتوے ہے۔ یہ صوبہ رخائن کا دارالحکومت ہے۔ مقامی برمی زبان کے مطابق اس نام کا مطلب ‘جنگ والی جگہ’ ہے۔
سنہ 1784 میں جب برما کے بادشاہ بودوپایا نے اس صوبے پر حملہ کیا تھا تو رخائن کے جنگجوؤں نے دریائے کلادان کے کنارے انھیں سخت ٹکر دی تھی۔
پھر 1825 میں اینگلو-برمی جنگ کے دوران برطانوی افواج سیتوے کے کنارے پر اتریں اور شہر کے قدیم اخیائب ڈا پگوڈا کے گرد اپنا کیمپ بنا کر وہیں قیام پزیر ہو گئيں۔
کچھ جدید مورخین کے مطابق انڈیا کی آزادی کی جدوجہد کے رہنما سبھاش چندر بوس کی قیادت میں ‘آزاد ہند فوج’ نے برطانوی افواج کے خلاف جاپانی افواج کے شانہ بشانہ لڑتے ہوئے کوہیما کے ساتھ ساتھ اراکان (جو اب رخائن کے نام سے جانا جاتا ہے) بھی جیت لیا تھا۔
میانمار کی حکومت کی سنہ 2014 کی مردم شماری کی رپورٹ کے مطابق رخائن کی کل آبادی تقریباً 21 لاکھ ہے، جس میں سے 20 لاکھ بدھ مت کے پیروکار ہیں۔
سیتوے بندرگاہ
انڈیا، چین اور بنگلہ دیش کے درمیان مقابلہ
رپورٹ کے مطابق ریاست کی تقریباً دس لاکھ آبادی کو مردم شماری میں شامل نہیں کیا گیا اور کہا جاتا ہے کہ ان میں زیادہ تر روہنگیا مسلمان ہیں، جن میں سے ایک بڑا حصہ دارالحکومت سیتوے سے باہر ایک ممنوعہ علاقے میں رکھا گیا ہے۔
آج وہی رخائن ایک بار پھر نہ صرف سرخیوں میں ہے بلکہ انڈیا، چین اور بنگلہ دیش کے درمیان سخت مقابلے کی جگہ بن چکا ہے۔
درحقیقت، منگل کے روز انڈین بندرگاہوں، جہاز رانی اور آبی گزرگاہوں کے وزیر سربانند سونووال اور میانمار کے نائب وزیر اعظم ایڈمرل ٹن آنگ سان نے مشترکہ طور پر کلادان پروجیکٹ کے تحت ایک نئی سیتوے بندرگاہ کا افتتاح کیا۔
سربانند سونووال نے وہاں پہنچنے والے پہلے انڈین مال بردار جہاز کا استقبال بھی کیا جس نے کولکتہ کے شیاما پرساد مکھرجی بندرگاہ سے اپنا سفر شروع کیا تھا۔
میانمار کی یونیورسٹی آف ینگون میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر سون ون کے مطابق: ‘انڈیا کا شمال مشرقی خطہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے اور یہ نیا پروجیکٹ انڈیا کے شمال مشرقی حصوں بلکہ شمالی اور وسطی میانمار میں بھی نئی تجارت، ٹرانسپورٹ اور کاروبار کی حوصلہ افزائی کرے سکتا ہے۔’
کلادان منصوبے سے انڈیا کو کیا فائدہ؟
کلادان ملٹی موڈل پروجیکٹ کولکتہ کی بندرگاہ کو میانمار کی سیتوے بندرگاہ سے سمندر کے ذریعے جوڑتا ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ سیتوے بندرگاہ سے پیلیتوا ندی کے ذریعے کلادان پیلیتوا کو انڈیا کی سرحد سے اور میانمار کو سڑک کے ذریعے انڈیا ریاست میزورم کے لانگتلائی سے جوڑتا ہے۔
سنہ 2008 میں اس پروجیکٹ کا بجٹ 500 کروڑ روپے رکھا گیا تھا، لیکن زمین کے حصول میں تاخیر اور بڑھتی لاگت کی وجہ سے اسے تیار ہونے میں 2000 کروڑ روپے سے زیادہ کی رقم لگ گئی۔
یہ پروجیکٹ سنہ 1991 میں ‘لُک ایسٹ پالیسی’ کے تحت شروع کیا گیا تھا اور فی الحال اسے بی جے پی کی نریندر مودی حکومت نے ‘ایکٹ ایسٹ’ کے نام سے دوبارہ اپنایا ہے۔
کلادن پروجیکٹ کو ‘ملٹی موڈل پروجیکٹ’ کا نام دیا گیا ہے کیونکہ اس میں سڑکیں، پل اور تیرتے بیراج جیسے وسیع انفراسٹرکچر بنائے گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
انڈیا سے خشکی سے تقریبا کٹی ہوئی شمال مشرقی ریاستوں کا واحد راستہ مغربی بنگال کی تنگ سلی گوڑی راہداری سے جڑا ہوا ہے، جسے ‘چکن نیک’ کہا جاتا ہے۔
بنگلہ دیش کے راستے ملک کی شمال مشرقی ریاستوں میں کارگو، کھانے پینے کی اشیاء اور اناج کی نقل و حرکت سے انڈیا کو فائدہ ہونے کی امید ہے کیونکہ لاگت کم ہوگی۔
آسام کی سلچر یونیورسٹی میں پروفیسر جے شری راوت کا کہنا ہے کہ ‘انڈیا نے پہلی بار میانمار میں مضبوط قدم جمائے ہیں۔’
انھوں نے کہا: ’میانمار کی سیاسی صورتحال کئی دہائیوں سے اتار چڑھاؤ کا شکار ہے اور اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ ایسا دوبارہ نہیں ہو گا۔
ایسے میں سوال یہ ہے کہ اس ماحول میں انڈیا اپنے سٹریٹجک اقتصادی مفادات کی تکمیل کس طرح کرتا ہے کیونکہ میانمار کا پڑوسی چین کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیش بھی ہے۔
رخائن میں روہنگیا پناہ گزین
رخائن کے متعلق مقابلہ
میانمار میں سنہ 2021 میں فوجی بغاوت ہوئی تھی، جس کے بعد فوجی حکومت اور نسلی حقوق کا مطالبہ کرنے والے کم از کم ایک درجن باغی گروپوں کے درمیان دوبارہ تنازع شروع ہو گیا ہے۔
ان سب میں سب سے زیادہ حساس صوبہ رخائن کا معاملہ ہے، جس کی میانمار سے باہر بھی کئی جہتیں ہیں۔
چین اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے پہلے ہی رخائن میں مبینہ طور پر سرگرم ہے اور انڈیا کے ساتھ ساتھ بنگلہ دیش بھی پیچھے نہیں رہنا چاہتے۔
واشنگٹن میں قائم ولسن سینٹر تھنک ٹینک کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین نے فارن پالیسی میگزین کے ایک تجزیے میں لکھا ہے کہ ’10 لاکھ روہنگیا مسلمان جو پہلے ہی تشدد کا نشانہ بننے کے بعد رخائن سے بنگلہ دیش ڈی پورٹ ہو چکے ہیں، کاکس بازار کے کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔ دوسری جانب بنگلہ دیش کی حکومت اس نقل مکانی کو عارضی بنانے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے تاکہ وہ واپس میانمار جا سکیں۔’
حقیقت یہ بھی ہے کہ میانمار کی سرحد پر واقع رخائن صوبے میں بنگلہ دیش تشدد جاری رکھنے کے حق میں نہیں ہے کیونکہ اسے سرحدوں کی حفاظت کے لیے بڑی تعداد میں حفاظتی انتظامات کرنے پڑتے ہیں جو کہ مہنگے پڑتے ہیں۔
لیکن اب تک روہنگیا مہاجرین کو واپس بھیجنے کی بنگلہ دیش کی ہر کوشش ناکام رہی ہے۔
اگر ہم چین کی بات کریں تو صوبہ رخائن میں اس کے ذاتی مفادات بھی ہیں جس میں بنیادی دلچسپی جنوبی چین اور خلیج بنگال کے درمیان ٹرانسپورٹ اور اقتصادی راہداری کو محفوظ کرنا ہے۔
چین کے لیے حال ہی میں مکمل ہونے والی کیاکھپیو بندرگاہ، خلیج بنگال میں ایک گیس پائپ لائن اور اس بندرگاہ سے جنوبی چین تک جانے والی ریلوے لائن کی حفاظت اہم ہے۔
ان سب کی وجہ سے چین کو پہلی بار رخائن کے راستے خلیج بنگال تک رسائی ملی ہے اور ظاہر ہے کہ وہ اسے کھونا نہیں چاہے گا۔
جب کہ انڈیا کو امید ہے کہ کلادان بندرگاہ کے منصوبے کی کامیابی کے بعد اسے میانمار میں تجارت اور کاروبار کے لیے اب بنگلہ دیش پر انحصار نہیں کرنا پڑے گا اور درآمدات برآمد براہ راست ہوں گی۔
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں جنوبی ایشیا کے ماہر پروفیسر سدھیندر کمار کا خیال ہے کہ ‘رخائن وہ مٹھائی ہے جو اس وقت انڈیا، چین اور بنگلہ دیش سب چاہتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ میانمار کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال کو دیکھتے ہوئے، تینوں پڑوسی ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ اس امید کے ساتھ رہتے ہیں یہ ان کے لیے فائدہ مند ہوگا۔’
Comments are closed.