ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین پر تیزی سے رونما ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والا بحران انسان کی معدومیت کا سبب بن سکتا ہے۔
یونیورسٹی آف کیمبرج کی سربراہی میں محققین دنیا بھر کی حکومتوں سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے انسانوں کے معدوم ہونے کے امکان کے لیے اپنے آپ کو ذہنی طور پر تیار کرلیں۔
محققین نے موسمیاتی تبدیلی کے پیشِ نظر ایک تحقیقی ایجنڈا تجویز کیا ہے، جس میں عالمی آبادی کا 10 فیصد حصّے کا ختم ہو جانا بھی شامل ہے۔
کیمبرج کے سینٹر فار دی اسٹڈی آف ایکسسٹینشل رسک کے مرکزی مصنف ڈاکٹر لیوک کیمپ کا کہنا ہے کہ ’اس بات پر یقین کرنے کی بہت سی وجوہات ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی تباہ کن ہوسکتی ہے، یہاں تک کہ اگر گرمی میں معمولی سا اضافہ ہو تب بھی‘۔
اُنہوں نے کہا کہ’موسمیاتی تبدیلی نے بڑے پیمانے پر ختم ہونے والے ہر واقعے میں ایک کردار ادا کیا ہے، اس نے دنیا بھر میں سلطنتوں کو گرانے اور تاریخ کو تشکیل دینے میں مدد کی ہے‘۔
اُنہوں نے کہا کہ ’یہاں تک کہ آج کی جدید دنیا بھی ایک خاص آب و ہوا کے مطابق ڈھلتی نظر آتی ہے‘۔
لیوک کیمپ اور ان کے ساتھیوں کا استدلال ہے کہ زمین کا درجہ حرارت 3 ڈگری سینٹی گریڈ تک بڑھنے سے ناقابلِ یقین اور سنگین نتائج سامنے آئیں گے، جنہیں سنجیدگی سے نہیں لیا جا رہا۔
تحقیق میں محققین کو یہ معلوم ہوا ہے کہ شدید گرمی والے علاقے، جیسے کہ 29 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ سالانہ اوسط درجہ حرارت والے علاقے، 2070 تک دو بلین لوگوں کا احاطہ کر سکتے ہیں۔
محققین کے مطابق ، یہ متاثرہ علاقے سب سے زیادہ گنجان آباد اور سیاسی طور پر نازک ہیں۔
نانجنگ یونیورسٹی کے شریک مصنف چی سو کا کہنا ہے کہ 29 ڈگری کا اوسط سالانہ درجہ حرارت اس وقت صحارا اور خلیجی ساحل کے تقریباً 30 ملین افراد کو متاثر کرتا ہے۔
اُنہوں نے بتایا کہ ’2070 تک، یہ درجہ حرارت اور سماجی اور سیاسی نتائج براہ راست دو ایٹمی طاقتوں، اور زیادہ سے زیادہ سات کنٹونمنٹ لیبارٹریز کو متاثر کرے گا جہاں سب سے زیادہ خطرناک پیتھوجینز موجود ہیں‘۔
اُنہوں نے مزید بتایا کہ ’اس تباہ کن دستک کے شدید اثرات سامنے آنے کے سنگین امکانات ہیں‘۔
موسمیاتی تبدیلی کا ایک اور نتیجہ یہ ہے کہ عالمی سطح پر خوراک کی کمی یا قحط سالی کا سامنا ہوسکتا ہے کیونکہ دنیا میں کئی زرعی علاقے اس وقت پگھلاؤ کا شکار ہیں۔
ممکنہ طور پر انتہائی یہ موسمی حالات کئی قسم کی نئی بیماریوں کے پھیلنے کا سبب بن سکتے ہیں۔
اس حوالے سے پوٹسڈیم انسٹی ٹیوٹ فار کلائمیٹ امپیکٹ ریسرچ کے ڈائریکٹر پروفیسر جوہان راکسٹروم کا کہنا ہے کہ ’ہم جتنا زیادہ اس بارے میں جانیں گے کہ ہمارا سیارہ کیسے کام کرتا ہے، ہماری تشویش اتنی ہی بڑھتی جائے گی‘۔
اُنہوں نے کہا کہ ’یہ بات اب ہماری سمجھ میں آرہی ہے کہ ہمارا سیارہ ایک بہت ہی نفیس اور نازک جاندار ہےاور اسے تباہی سے بچانے کے لیے ہمیں موجودہ صورتِ حال میں سامنے آنے والے مسائل کا بہت سوچ سمجھ کر اور ہنگامی بنیادوں پر حل تلاش کرنا ہوگا‘۔
Comments are closed.