کینیڈا امریکہ سرحد پر سخت سردی میں ہلاک ہونے والے خاندان کی شناخت ہوگئی
- راکسی گڈیکر چھارا اور ہولی ہونڈیرچ
- بی بی سی
خیال ہے کہ خاندان کے افراد سخت جما دینے والی سردی میں 11 گھنٹے تک پیدل چلیں ہوں گے
کینیڈین حکام کے مطابق کینیڈا میں امریکہ کی سرحد سے چند قدم دور ہلاک ہونے والے چار انڈین شہری انسانی سمگلروں کے ہتھے چڑھ گئے ہوں۔
کینیڈا کے شہر مینیٹوبا کے نزدیک سخت سردی کی وجہ سے ہلاک ہونے والوں میں ایک ہی فیملی کے 39 سالہ جگدیش پٹیل، 37 سالہ ویشالبین پٹیل اور ان کے بچے 11 سالہ ویہانگی اور 3 سالہ دھارمک شامل ہیں۔
جس رات پٹیل خاندان نے پیدل سرحد پار کر کے امریکہ میں داخل ہونے کی کوشش کی اس رات درجہ حرارت گر کر منفی 35 سینٹی گریڈ ہو گیا تھا۔
19 جنوری کو خاندان کے افراد کی لاشیں سرحد کے شمال میں ایک میدان سے ملی تھیں۔
کینیڈا میں انڈیا کے ہائی کمیشن نے ان کی شناخت کا اعلان کیا اور اس کے بعد رائل کینیڈین ماؤنٹڈ پولیس (آر سی ایم پی) نے بھی اس کی تصدیق کی۔
جمعرات کو ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آر سی ایم پی کے سپرنٹینڈینٹ روب ہل نے کہا کہ پٹیل خاندان پہلی مرتبہ 12 جنوری کو ٹورنٹو آنے والی ایک پرواز کے ذریعے کینیڈا پہنچا تھا۔ وہاں سے وہ 18 جنوری کو یا اس کے آس پاس مینیٹوبا صوبے کے مغرب میں سرحدی شہر ایمرسن تک پہنچے۔ اگلی رات وہاں سے ان کی لاشیں ملیں۔
ایمرسن میں کینیڈا امریکہ کی سرحد کے قریب کوئی گاڑی نہیں ملی، جس سے پتہ چلتا ہے کہ کسی نے پٹیل خاندان کو پیدل سفر شروع کرنے سے پہلے وہاں چھوڑا تھا۔
جگدیش پٹیل اور ان کی اہلیہ
آر سی ایم پی اس بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کرے گا کہ آیا پٹیل خاندان کا معاملہ سات دیگر انڈین شہریوں کے ایک گروپ سے منسلک ہے جو 19 جنوری کی شام کو سرحدی گارڈز کے ہاتھوں پکڑے گئے تھے۔ جس دن پٹیل خاندان کی لاشیں ملیں اسی دن فلوریڈا کے 47 سالہ رہائشی سٹیو شینڈ پر انسانی سمگلنگ کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ حکام نے انھیں سرحد کے قریب ایک وین میں 15 افراد کو لے جاتے ہوئے پکڑا تھا۔ شینڈ کی گاڑی میں دو انڈین شہری بھی سوار تھے اور ان کی وین کے بوٹ میں کھانے اور پانی کے ڈبے بھی پڑے ہوئے تھے۔
یہ بھی پڑھیئے
پٹیل خاندان کی موت نے مینیٹوبا میں انڈین کمیونٹی کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
انڈیا ایسوسی ایشن آف مینیٹوبا کے صدر رمندیپ گریوال نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ایسا ہے جیسے سب اپنے آپ کو مجرم محسوس کر رہے ہیں، جیسے کچھ غلط ہو گیا ہے۔‘
یہ سوال بھی باقی ہے کہ پٹیل خاندان اندھیرے میں، کینیڈا کے انتہائی سخت سردیوں کے موسم میں پیدل کیوں نکلا۔
گریوال کہتے ہیں کہ انھوں نے یہ افواہیں بھی سنی ہیں کہ خاندان 11 گھنٹے تک پیدل چلتا رہا۔ انھوں نے کہا کہ ’آپ اس سردی میں چند منٹ نہیں کھڑے رہ سکتے، گھنٹوں کی تو بات چھوڑیں۔‘
انڈین برادری کے ایک فرد ہیمنت شاہ، جنھوں نے اس ہفتے پٹیل خاندان کے لیے ایک ورچوئل دعا کا اہتمام کیا، کہتے ہیں کہ ونیپیگ میں انڈین برادریوں کو اس طرح کے سوالات کا سامنا ہے۔
’یہاں بہت سے پٹیل خاندان ہیں، بہت سے کینیڈین انڈین ہیں۔ ہر کوئی (اس پر) بات کر رہا ہے، اپنے اپنے نظریے پیش کر رہا ہے۔‘
اگرچہ امریکہ کی جنوبی سرحد پر اس طرح چوری چھپے نکلنا عام ہے، شمال میں اس قسم کا سفر بہت کم ہی ہوتا ہے۔
شاہ کہتے ہیں کہ ’میں نے کینیڈا میں ایسا کبھی نہیں دیکھا۔ ایسا کبھی نہیں سنا گیا۔‘
آر سی ایم پی نے پٹیل خاندان کی موت کے حوالے سے ’وسیع‘ تحقیقات کا آغاز کیا ہے کہ کس طرح وہ انڈیا سے کینیڈا پہنچے اور امریکہ جانے کے لیے کس سے اور کیسے رابطے کیے۔ ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ پٹیل خاندان کا کوئی رشتہ دار کینیڈا یا امریکہ میں ہے یا نہیں۔
سینیئر انڈین قونصلر کی قیادت میں ایک خصوصی ٹیم کو کینیڈا کے حکام کی تحقیقات میں مدد کے لیے مینیٹوبا روانہ کیا گیا ہے۔ ٹورنٹو میں انڈیا کے قونصلیٹ جنرل پٹیل خاندان کے انڈیا میں رشتہ داروں سے رابطے میں ہیں تاکہ انھیں مدد فراہم کی جا سکے۔
گزشتہ ہفتے امریکی ہوم لینڈ سکیورٹی کے ایک اہلکار نے کہا تھا کہ وہ ’انسانی سمگلنگ کے ایک بڑے آپریشن کے ساتھ ساتھ، جس میں شبہ ہے شینڈ کا کردار بھی ہے‘، پٹیل کیس کی بھی تحقیقات کر رہے ہیں۔
عدالتی دستاویزات کے مطابق اسی مقام پر جہاں سے شینڈ کو گرفتار کیا گیا، دسمبر اور جنوری میں انسانی سمگلنگ کے تین دیگر واقعات بھی ہوئے تھے۔
انڈیا ایسوسی ایشن کے گریوال کہتے ہیں کہ انھیں امید ہے کہ دوسرے خاندان جو اس طرح کے سفر کے متعلق سوچ رہے ہوں گے اب دوبارہ اس پر غور کریں گے۔
’اگر کوئی ایسی ہی کشتی میں سوار ہے، جو پار جانے کی کوشش کر رہا ہے۔۔۔ مت جائے، ان لوگوں کی بات نہ سنے جو آپ سے کہہ رہے ہیں کہ وہ مدد کر سکتے ہیں۔‘
Comments are closed.