ممبئی حملے: امریکی عدالت کی پاکستانی نژاد تاجر تہور رانا کو انڈیا کے حوالے کرنے کی اجازت
امریکہ کی ایک عدالت نے شکاگو کے پاکستانی نژاد کینیڈین تاجر تہور رانا کو انڈیا کے حوالے کرنے کی منظوری دے دی ہے۔
تہوار رانا نومبر 2008 میں انڈیا کے شہر ممبئی میں ہونے والے دہشتگردانہ حملوں میں ملوث ہونے کے الزام میں انڈین حکومت کو مطلوب ہیں۔
ان حملوں میں 166 افراد ہلاک ہوئے تھے اور ان کے لیے عسکریت پسند تنظیم لشکر طیبہ کو موردِ الزام ٹھہرایا گیا تھا۔
2011 میں شکاگو کی وفاقی عدالت کے ججوں نے تہور رانا کو لشکر طیبہ کی مدد کرنے کا مجرم قرار دیا تھا لیکن انھیں ممبئی حملوں کی منصوبہ بندی اور ان میں براہ راست ملوث ہونے کے الزامات سے بری کر دیا گیا تھا۔
ان جرائم پر انھیں 2013 میں 14 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ 2020 میں تہور رانا کو کووڈ 19 کا ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد ہمدردی کی بنیاد پر امریکی جیل سے رہا کیا گیا تھا لیکن انڈیا کی جانب سے حوالگی کی درخواست کے بعد انھیں دوبارہ گرفتار کیا گیا۔
تہور رانا نے اپنے خلاف عائد تمام الزامات سے انکار کیا ہے اور خود کو انڈیا کے حوالے کرنے کی اس درخواست کو بھی چیلنج کیا تھا جس کی امریکی حکومت حمایت کر رہی تھی۔
پیر کے روز شکاگو کی ایک عدالت نے ان کی انڈیا حوالگی پر رضامندی ظاہر کر دی ہے۔ عدالت نے کہا کہ رانا پر انڈیا میں مجرمانہ سازش، دہشت گردی کی کارروائیوں اور قتل کے الزامات عائد کیے گئے ہیں جو امریکہ اور انڈیا کے درمیان معاہدے کے مطابق حوالگی کے قابل جرم ہیں۔
تاہم کہا گیا ہے کہ رانا اس وقت تک امریکہ کی حراست میں ہی رہیں گے جب تک امریکی وزارتِ خارجہ اس بارے میں حتمی فیصلہ نہیں کر لیتی۔
انڈین حکام نے تہور رانا پر الزام عائد کیا ہے کہ انھوں نے اپنے بچپن کے دوست ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کے ساتھ مل کر سازش کی اور پاکستانی عسکریت پسند گروپ لشکر طیبہ کی مدد کی۔
اس کیس میں استغاثہ نے کہا کہ 2006 میں رانا نے ہیڈلی کو ممبئی میں شکاگو میں واقع اپنی امیگریشن سروس فرم کا دفتر کھولنے کی اجازت دی تھی، جسے ہیڈلی نے 2008 کے حملے کے لیے مقامات کی تلاش کے لیے کور کے طور پر استعمال کیا تھا۔
رانا پر یہ بھی الزام تھا کہ اس نے ہیڈلی کو اپنی فرم کے نمائندے کے طور پر پیش کرنے کی اجازت دی تاکہ اشتہارات کے لیے جگہ خریدنے میں دلچسپی ظاہر کرکے اخبارات کے دفاتر تک رسائی حاصل کی جا سکے۔
ممبئی حملوں میں ملوث ہونے کے الزام میں امریکہ میں 35 سال قید کی سزا کاٹنے والے ہیڈلی نے 2011 میں تہور رانا کے خلاف گواہی دی تھی۔ رانا کی دفاعی ٹیم نے اس وقت کہا تھا کہ ان کے پرانے دوست ہیڈلی نے اس انھیں استعمال کیا اور گمراہ کیا۔
ممبئی حملوں کے مقدمے کے سپیشل پبلک پراسیکیوٹر اجول نکم نے انڈین خبر رساں ایجنسی اے این آئی سے بات کرتے ہوئے تہور رانا کی حوالگی کے فیصلے کو ایک ‘اہم پیش رفت’ قرار دیا۔
انھوں نے کہا کہ ‘امریکی عدالت کا تہور رانا کی حوالگی کا حکم انڈیا کے لیے بڑی فتح ہے۔ میری معلومات کے مطابق ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ امریکی حکومت نے انڈین تحقیقاتی ایجنسی کے شواہد پر بہت زیادہ انحصار کیا ہے’۔
انھوں نے مزید کہا کہ ‘میرے خیال میں تہور رانا کی حوالگی کا یہ حکم مجرمانہ سازش کا دروازہ پوری طرح سے کھولنے میں کئی طریقوں سے ہماری مدد کرے گا۔’
تہور رانا کون ہیں اور انھیں کن جرائم میں سزا ہوئی؟
59 سالہ تہور حسین رانا کی پرورش پاکستان میں ہوئی اور انھوں نے میڈیکل کی ڈگری لینے کے بعد پاکستانی فوج کی میڈیکل کور میں شمولیت اختیار کی۔
وہ اور ان کی اہلیہ، جو خود بھی ایک ڈاکٹر ہیں، 2001 میں امیگریشن لینے کے بعد کینیڈا کے شہری بن گئے تھے۔
سنہ 2009 میں گرفتاری سے قبل رانا شکاگو میں رہتے تھے اور امیگریشن اور ٹریول ایجنسی سمیت کئی کاروبار چلاتے تھے۔
تہور رانا پر 12 الزامات عائد کیے گئے تھے جن میں امریکی شہریوں کو قتل کرنے میں مدد کرنا بھی شامل تھا۔
ان پر ہیڈلی کو کور فراہم کرنے اور اپنے سابق دوست اور ’میجر اقبال‘ نامی شخص کے درمیان پیغامات بھیجنے کا بھی الزام ہے، جس کے بارے میں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ پاکستان کی انٹر سروسز انٹیلی جنس ایجنسی کا حصہ ہیں۔
تہور رانا کو لشکر طیبہ کو مادی مدد فراہم کرنے اور ڈنمارک کے ایک اخبار کے خلاف ناکام سازش میں کردار ادا کرنے کا مجرم قرار دیا گیا تھا لیکن پاکستانی نژاد کینیڈین شہری کو ممبئی حملوں میں براہ راست ملوث ہونے کے الزامات سے بری کر دیا گیا تھا، جس میں چھ امریکیوں سمیت 160 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
Comments are closed.