روس یوکرین جنگ: مغربی پابندیوں کے باوجود روس سستا تیل کیسے فروخت کر رہا ہے؟
یوکرین پر روس کے حملے کے بعد سے مغربی ممالک نے ماسکو پر دباو ڈالنے کے لیے اس کے توانائی سیکٹر کو پابندیوں کا نشانہ بنایا تاکہ روس کی معیشت کو کمزور کیا جا سکے اور وہ جنگ ختم کرنے پر مجبور ہو جائے۔
لیکن حال ہی میں جاری ہونے والی سینٹر فار ریسرچ برائے توانائی کی رپورٹ کے مطابق ان تمام پابندیوں کے باوجود روس تیل اور گیس کی فروخت سے بیش بہا پیسہ کما رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق روس نے یوکرین پر حملے کے 100 دن کے اندر تیل اور گیس کی برآمدات سے تقریبا 100 بلین ڈالر کمائے ہیں۔
واضح رہے کہ مارچ کے مہینے میں امریکہ نے روس سے تیل اور گیس کی برآمد پر مکمل پابندی عائد کر دی تھی جبکہ یورپین یونین کا کہنا ہے کہ وہ سنہ 2030 تک روسی توانائی پر انحصار کو ختم کر دے گا۔
یورپین یونین کی جانب سے روس پر عائد تازہ ترین پابندیوں کے دوران پائپ لائن کے ذریعے تیل کی درآمد کو استثنیٰ دیا گیا ہے کیوںکہ ہنگری، سلوویکیا اور چیک ریپبلک جیسے ممالک کے لیے اب بھی روس کا تیل ناگزیر ہے لیکن سمندر کے راستے تمام روسی تیل کی درآمد پر پابندی لگ چکی ہے۔
ادھر پولینڈ اور جرمنی رواں سال کے اختتام تک پائپ لائن کے ذریعے بھی روس کے تیل کی درآمد ختم کرنے کا اعلان کر چکے ہیں جس کے بعد یورپ میں روس کی تیل کی درآمدات تقریبا 90 فیصد تک کم ہو جائیں گی۔
روس کی برآمدات کم ہو رہی ہیں لیکن آمدن برقرار ہے
سینٹر فار ریسرچ برائے توانائی کی رپورٹ کے مطابق مارچ کے مہینے کے بعد روس کی آمدن میں کمی ہوئی لیکن اب بھی ایک خاطر خواہ آمدنی برقرار ہے۔
رپورٹ کے مطابق روس نے 24 جنوری سے تین جون تک یعنی یوکرین جنگ کے پہلے 100 دن کے اندر توانائی کی مصنوعات کی برآمدات سے 97 ارب ڈالر کمائے۔
اس آمدن کا بڑا حصہ یورپ سے ہی وصول ہوا جس نے 61 فیصد درآمدات کیں اور روس کو 59 ارب ڈالر کی آمدنی حاصل ہوئی۔
مجموعی طور پر روس کی تیل اور گیس کی برآّمدات میں کمی ضرور واقع ہوئی ہے اور توانائی کی برآمدات سے حاصل ہونے والی آمدنی مارچ میں ایک ارب ڈالر ماہانہ سے کم ہوئی ہے۔
اس کے باوجود رپورٹ کے مطابق روس کی آمدنی یوکرین جنگ پر ہونے والے خرچ سے کہیں زیادہ تھی۔ رپورٹ کے مطابق تخمینہ لگایا گیا ہے کہ روس روزانہ کی بنیاد پر یوکرین جنگ میں 876 ملین ڈالر خرچ کر رہا ہے۔
متبادل مارکیٹ
امریکہ اور سعودی عرب کے بعد روس دنیا بھر میں تیل پیدا کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے۔
یوکرین جنگ سے پہلے روس کی تیل کی مصنوعات کی سب سے بڑی منڈی یورپ تھی جہاں نصف سے زیادہ روسی مصنوعات کی کھپت ہوتی تھی۔ یورپ کی تیل کی 27 فیصد اور گیس کی 40 فیصد ضرورت روس کے ذریعے ہی پوری ہوتی تھی۔
لیکن پابندیوں کے بعد روزانہ کی بنیاد پر روس کی جانب سے یورپ برآمد ہونے والے ساڑھے تین ملین بیرل تیل میں مسلسل کمی آئی ہے۔
امریکہ کے سینٹر فار سٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز کے انرجی سیکیورٹی پروگرام کے سینیئر ریسرچر بین کیہل کا ماننا ہے کہ ایسے میں چین اور انڈیا روس کے لیے متبادل مارکیٹ کے طور پر ابھریں گے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’گزشتہ دو ماہ میں انڈیا نے روزانہ کی بنیاد پر اوسطاً چھ لاکھ بیرل خام تیل روس سے درآمد کیا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’اب تک چین کی جانب سے روسی درآمدات میں زیادہ اضافہ نہیں دیکھا گیا لیکن چین کی حکومت اور نجی سیکٹر اب اس سمت میں جا رہا ہے خصوصاً اس وجہ سے کہ روس کا تیل عالمی منڈی کی قیمت سے سستے داموں مل رہا ہے۔ کسی بھی خریدار کے لیے ایسا موقع ہاتھ سے گنوانا آسان نہیں۔‘
رواں سال فروری کے مہینے میں روسی صدر ولادیمیر پوتن نے چین سے ایک معاہدہ کیا تھا جس کے تحت اگلے دس سال میں روس کی جانب سے چین کو تیل اور گیس کی مصنوعات کی فراہمی 80 بلین ڈالر تک پہنچ جائے گی۔
عمومی طور پر بھی ایشیا کی منڈی روس کے تیل کے لیے ایک بہترین منزل ہے۔ یوکرین جنگ سے پہلے ایشیا کی منڈی تقریباً روسی تیل کا مجموعی طور پر 35 فیصد حصہ حاصل کر رہی تھی جس میں اب اضافے کی توقع ہے۔ چند تخمینوں کے مطابق ایشیا تک پہنچنے والے روسی تیل کا حجم بڑھ کر 50 فیصد تک ہو چکا ہے۔
حالانکہ روس کی جانب سے ایشیا کی منڈی میں تیل کی فراہمی کو مسائل کا سامنا ہے کیوںکہ یہاں کوئی پائپ لائن موجود نہیں اور کوئی بھی نئی پائل لائن بنانے کے لیے سال درکار ہیں جو ایک انتہائی مہنگا عمل بھی ہوتا ہے۔
ماسکو کے سکول آف اکنامکس کے پروفیسر لیونڈ سوکیانن کہتے ہیں کہ ’ایشیا کی منڈی میں دو عوامل ایسے ہیں جو روس کے لیے فائدہ مند ہیں، پہلا تیل کی مانگ میں اضافہ خصوصا انڈسٹریل چین میں جسے بڑی تعداد میں سستا خام مال درکار ہے اور دوسرا یہ کہ ایشیا میں خرید و فروخت کے لیے روس کو بین الاقوامی سوئفٹ نظام پر انحصار بھی نہیں کرنا پڑتا جس سے ماسکو کو حال ہی میں بے دخل کر دیا گیا تھا۔‘
نئی منڈی اور کم قیمت
نئی منڈیوں تک رسائی حاصل کرنے کے ساتھ ہی روس ایک اور منصوبے کے تحت سستا خام تیل بیچ رہا ہے جس سے نئے خریدار اس کی جانب متوجہ ہو رہے ہیں۔
ڈاکٹر لیونڈ کے مطابق ’روس کی جانب سے سستے خام تیل کو فروخت کرنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اس کو نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ اگرچہ کہ روس خام تیل موجودہ قیمت سے 30 ڈالر کم پر بیچ رہا ہے لیکن عالمی منڈی میں تیل کی قیمت گزشتہ ماہ کے دوران 120 ڈالر تک پہنچ جانے کے بعد روس کا منافع اب بھی کافی زیادہ ہے۔‘
واضح رہے کہ برینٹ کروڈ آئل کی قیمت یوکرین جنگ کے آغاز کے بعد 100 ڈالر فی بیرل سے تجاوز کر گئی تھی جس کے بعد یورپ کی جانب سے روسی توانائی کے شعبے پر پابندیوں کی خبر کے بعد اس کی قیمت میں مذید اضافہ ہوا تھا۔
توقع کی جا رہی ہے کہ یورپی یونین کی جانب سے روسی تیل کی خریداری جیسے جیسے کم ہوتی جائے گی، عالمی منڈی میں کام تیل کی قیمت میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا کیوںکہ متبادل ذرائع کی تلاش میں یورپی یونین کے ممالک تیل اور گیس فراہم کرنے والے دوسرے ممالک کا رخ کریں گے اور یہ سب بہت کم عرصے میں کرنا ہو گا۔
روس کو ایک خطرہ یہ ضرور ہے کہ کہیں مغربی ممالک ایشیا اور افریقہ میں روسی تیل درآمد کرنے والے یورپی پابندیوں سے متاثر نہ ہوں۔
بین کیہل کہتے ہیں کہ ’روسی تیل درآمد کرنے والوں کے خلاف پابندی سے ماسکو اور اس کی معیشت کو دھچکہ لگے گا۔‘
ان کے مطابق ’ایسی کوئی بھی پابندی نہایت اہم ہو گی اور اس کے نتائج غیر معمولی ہو سکتے ہیں کیوںکہ یورپی یونین کو معلوم ہے کہ روس متبادل منڈیوں میں تیل اور گیس فروخت کرنے کی کوشش کرے گا اور وہ کوشش کریں گے کہ روس کی معیشت پر دباو بڑھانے کے لیے وہ اس کی مخالفت کریں۔‘
یہ بھی پڑھیے
انڈیا اور چین تیل بیچنے میں روس کی مدد کر رہے ہیں؟
ماسکو نے ایک طریقہ یہ بھی اپنایا ہے کہ بین الاقوامی پانیوں میں آئل ٹینکرز کو فروخت کیا جانا شروع کر دیا گیا کیوںکہ یہ ٹینکرز بین الاقوامی پانیوں میں ہی اپنا رخ تبدیل کر لیتے ہیں اس لیے یہ تعین کرنا مشکل ہوتا ہے کہ ان کی آخری منزل کیا ہے۔
یہ طریقہ بین الاقوامی مالی نظام سے بھی باہر رہ کر کام کرتا ہے اور ممکن ہے کہ چین اور انڈیا کی کمپنیز روس کا تیل کسی بھی تیسری پارٹی کو فروخت کرنے میں ایک اہم کردار ادا کر رہی ہوں۔
امریکہ کی جانب سے ایران اور وینیزویلا کے تیل کی خریداری پر پابندی کے بعد ان ممالک نے بھی یہی طریقہ اپنایا تھا جس کے تحت وہ تجارت برقرار رکھ سکے۔
سینٹر فار ریسرچ برائے توانائی کی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ روس پر عائد پابندیوں میں بھی ایک نقص موجود ہے جس کا فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔
رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ روسی خام تیل کی بڑی مقدار انڈیا برآمد کی جاتی ہے جو یوکرین جنگ سے پہلے روسی تیل کا ایک فیصد حاصل کر رہا تھا لیکن مئی میں یہ مقدار 18 فیصد تک جا پہنچی۔
سینٹر فار ریسرچ برائے توانائی کی رپورٹ میں دعوی کیا گیا ہے کہ انڈیا تک پہنچنے والے روسی تیل کا ایک بڑا حصہ ریفائن کیا جاتا ہے اور پھر امریکہ اور یورپ میں خریداروں کو بیچ دیا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس نقص کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔
رپورٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ روسی خام تیل لے جانے والے آئل ٹینکرز پر سخت پابندی کے ذریعے اس کام کو روکا جا سکتا ہے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب روس سمندر کے راستے نئی منڈیوں تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، زیادہ تر سمندری جہاز یورپی اور امریکی کمپنیوں کی ملکیت ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انڈیا کے علاوہ فرانس، چین، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے بھی روسی تیل کی درآمدات میں اضافہ کیا ہے۔
بین کیہل کہتے ہیں کہ ’مغربی ممالک اب سمندر کے راستے روسی تیل کی فروخت پر پابندی لگانے پر غور کر رہے ہیں جس کا مقصد روس کے گرد گھیرا مذید تنگ کرنا ہے۔‘
Comments are closed.