مقابلہ حسن میں شرکت کرنے والی خواتین کی جنسی ہراسانی کی شکایت: ’جسم کی جانچ بند کمرے میں کی گئی لیکن وہاں مرد بھی موجود تھے‘

مس یونیورس

،تصویر کا ذریعہMISS UNIVERSE INDONESIA

،تصویر کا کیپشن

مس یونیورس کی تاج پوشی کے ایک ہفتے بعد جنسی ہراسانی کی شکایتیں

  • مصنف, جوئل گوئنتو اور پیلر انوگرہ
  • عہدہ, سنگاپور اور جکارتہ سے

مس یونیورس انڈونیشیا کی کئی امیدواروں نے پولیس میں شکایات کی ہیں اور منتظمین پر جنسی ہراسانی کا الزام لگایا ہے۔

شکایت کرنے والی خواتین کے ایک وکیل نے بتایا کہ 3 اگست کو فائنل سے دو دن قبل ’باڈی چیکس‘ کے نام پر اور تصاویر کے لیے مقابلے میں شرکت کرنے والوں سے کہا گيا کہ وہ اپنی ٹاپ اتاریں۔

انڈونیشیا میں مقابلہ حسن میں شرکت کی اجازت ہے لیکن منتظمین محتاط رہتے ہیں کہ وہ قدامت پسند معاشرے کے پس منظر میں لوگوں کو ناراض نہ کریں۔

یاد رہے کہ سنہ 2013 میں مس ورلڈ کے مقابلے کے منتظمین نے جب مقابلے کا فائنل مرحلہ اس مسلم ملک میں منعقد کیا تھا تو انھوں نے اپنا بکنی راؤنڈ منسوخ کر دیا تھا۔

دارالحکومت جکارتہ میں پولیس نے کہا کہ شکایات کو ’مزید تفتیش‘ کے لیے بنیاد کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔

انڈونیشیا کے قانون کے تحت جنسی بدسلوکی کی سزا 15 سال تک قید ہے۔

تین امیدواروں کی نمائندگی کرنے والی وکیل میلیسا اینگرینی نے بی بی سی نیوز انڈونیشیا کو شکایت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ بہت سے دوسرے شکایت کنندگان بھی سامنے آئیں گے۔

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

خبر رساں ادارے روئٹرز نے اطلاع دی ہے کہ چھ امیدواروں نے پولیس میں شکایت درج کرائی ہے۔

میلیسا اینگرینی نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’منتظمین نے امیدواروں کو بتایا تھا کہ جسم کی جانچ کا مقصد ’ان کے جسم پر کسی بھی نشان یا ٹیٹو کا معائنہ کرنا تھا۔‘

انڈونیشیا کی سیلیبریٹی پوپی کیپیلا نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مس یونیورس انڈونیشیا آرگنائزیشن ان الزامات کی تحقیقات کرے گی۔

گلوبل مس یونیورس آرگنائزیشن نے بھی کہا کہ وہ اس معاملے کو دیکھ رہی ہے اور وہ جنسی بدسلوکی کے الزامات کو ’بہت سنجیدگی سے‘ لیتی ہے۔

کچھ شکایت کنندگان نے سوموار کی شام ایک پریس کانفرنس میں بات کی لیکن مقامی ٹیلی ویژن نے ان کی شناخت کے تحفظ کے لیے نشریات کے دوران ان کے چہروں کو دھندلا کر دیا۔

خواتین میں سے ایک نے کہا کہ ’ایک عورت کے طور پر میں محسوس کرتی ہوں کہ میرے حقوق کی خلاف ورزی ہوئی اور اس نے مجھے ذہنی طور پر متاثر کیا۔ مجھے زیادہ سوچنے کی وجہ سے سونے میں پریشانی ہوئی ہے۔‘

انھوں کہا کہ اگرچہ جسم کی جانچ ایک بند کمرے میں کی گئی تھی لیکن وہاں کچھ مرد بھی موجود تھے۔

خاتون نے کہا کہ دروازہ بھی مکمل طور پر بند نہیں کیا گیا تھا، جس کی وجہ سے باہر کے لوگ بھی یہ دیکھ سکتے تھے کہ اندر کیا ہو رہا ہے۔

سابق مس انڈونیشیا ماریہ ہرفنتی نے سنہ 2015 میں مس ورلڈ کے مقابلوں میں تیسری پوزیشن حاصل کی تھی۔ انھوں نے کہا کہ ملک میں جسم کی جانچ معمول کی بات ہے لیکن مقابلے میں شامل خواتین کو عام طور پر برہنہ ہونے کو نہیں کہا جاتا۔

ماریہ ہرفنتی نے کہا کہ منتظمین اکثر مقابلہ کرنے والوں سے ان کا بی ایم آئی یعنی باڈی ماس انڈیکس پوچھتے ہیں تاکہ جسمانی تناسب کو چیک کیا جا سکے۔

مس یونیورس کے مقابلے جو اب اپنے 73ویں ایڈیشن میں جنوب مشرقی ایشیائی ممالک خاص کر انڈونیشیا، فلپائن اور تھائی لینڈ میں بہت مقبول ہیں اور یہاں سے آنے والی فاتح، سیلیبریٹی اور سوشل میڈیا انفلوئنسر بن جاتی ہیں۔

اس کی موجودہ مالک این جکراجوتاتپ ہیں جو تھائی لینڈ کی ٹرانس جینڈر اور بڑی میڈیا مالک ہیں۔ انھوں نے شادی شدہ خواتین، ٹرانس جینڈر خواتین اور تنہا ماؤں کو مقابلہ میں شریک ہونے کی اجازت دے کر برانڈ کو مزید جامع بنانے کی کوشش کی ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ