آئرلینڈ: وہ چھوٹا سا ملک جس کے لیے ’اضافی کیش‘ درد سر بنا ہوا ہے، مگر اتنا پیسہ اس کے پاس آیا کہاں سے؟

آئرلینڈ

آپ دسیوں ارب پاؤنڈز بچا کر کیا کریں گے؟

یہ سوال حکومتوں کو بھی ایک خیالی پلاؤ کی طرح محسوس ہو سکتا ہے۔

لیکن صرف پانچ ملین یعنی 50 لاکھ سے زیادہ آبادی والے ملک جمہوریہ آئرلینڈ کے لیے یہ حقیقت پسندانہ سوال ہے۔

کارپوریشن ٹیکس کی خطیر آمدنی، جو بنیادی طور پر عالمی ٹیکنالوجی اور فارماسیوٹیکل کمپنیوں کے ذریعے حاصل ہوتی ہے وہ سرکاری خزانے کو بھرے جا رہی ہے۔

قومی بجٹ سرپلس یعنی روزانہ کی آمدن اور اخراجات کے درمیان کا فرق اگلے چار سالوں میں 62 ارب یورو سے زیادہ ہونے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔

بہت سے ممالک میں وبائی امراض کی وجہ سے جو سرکاری خزانے پر بوجھ پڑا اس کے بعد بہت ساری دوسری حکومتیں ڈبلن کو حسد کی نگاہ سے دیکھ سکتی ہیں۔

تاہم یہ نعمت اپنے ساتھ کسی حد تک سیاسی زحمت بھی لاتی ہے، کیونکہ نقدی کا بڑھتا ہوا انبار لامحالہ عوامی توقعات میں اضافے کا باعث ہوگا۔

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

آئرلینڈ کی دولت کا علامتی مرکز دارالحکومت کا وہ حصہ ہے جسے سلیکون ڈاکس کہا جاتا ہے۔

دریائے لیفے کے جنوبی کنارے کے گھاٹ اور نہروں کے ساتھ ساتھ چمکتے ہوئے شیشے کے دفاتر بھی ہیں جو کرۂ ارض کی چند امیر ترین کمپنیوں کے اہم یورپی اڈے ہیں۔

ان چمچماتی عمارتوں میں میٹا، گوگل، ایئر بی این بی اور ایکس (پہلے ٹوئٹر کے نام سے جانا جاتا تھا) جیسی بڑی کمپنیوں کے دفاتر شامل ہیں۔

اسی کے قریب اکنامک اینڈ سوشل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ بھی ہے جسے قومی تھنک ٹینک سمجھا جاتا ہے۔

پروفیسر ایلن بیرٹ نے بی بی سی کو بتایا کہ عالمی ٹیک کمپنیوں کی ‘حقیقی موجودگی’ کا مطلب ہے کہ آئرلینڈ کو کارپوریشن ٹیکس کے نظام میں حالیہ بین الاقوامی اصلاحات سے فائدہ ہوا ہے اور اس نے ٹیکس کو ملک کی ‘حقیقی سرگرمیوں’ سے جوڑا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’بعض اوقات اسے دیکھنے والے لوگ یہ سوچ سکتے ہیں کہ یہ سب اکاؤنٹنگ (یعنی حساب کتاب کا) بلبلہ ہے اور اس میں حقیقتاً کچھ بھی نہیں ہو رہا ہے۔

لیکن جب آپ اعداد و شمار اور اصل سرگرمی کی مقدار کو دیکھتے ہیں تو آپ پائیں گے کہ آئرلینڈ کی معیشت بہت مضبوط پوزیشن میں ہے۔

کارپوریشن ٹیکس کی تاریخی طور پر نسبتاً کم شرح یعنی 12.5 فیصد ملٹی نیشنل کمپنیوں کو اپنی طرف راغب کرنے کی بڑی وجہ ہے۔

پروفیسر بیرٹ کے مطابق اس چیز نے آئرلینڈ کو ایک ’آؤٹ لیئر‘ (منفرد یا نمایاں) بنا دیا ہے کیونکہ انھوں نے نشاندہی کی ہے کہ جمہوریہ آئرلینڈ میں ٹیکس ریونیو کا 25 فیصد سے زیادہ کارپوریشن ٹیکس سے آتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں یہ پورے یورپ میں اوسطاً 10 فیصد سے بھی کم ہے۔

آئرلینڈ کے محکمہ خزانہ کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ وہ رواں سال اسے 10 ارب یورو کا سرپلس بجٹ حاصل ہونے والا ہے جو کہ قومی آمدن کا 3.5 فیصد ہے جبکہ سنہ 2026 تک سالانہ اعداد و شمار کے بڑھنے کی پیش گوئی 20.8 ارب ڈالر تک کی ہے۔

کارک

’یہاں امیر اور غریب کے درمیان بہت بڑا فرق ہے‘

سیلیکون ڈاکس کے ایک میل شمال میں ہی ٹیک سیکٹر کی دولت ایک دوسری دنیا محسوس کر سکتی ہے۔

شہر کا شمالی اندرونی حصہ یورپ کے امیر ترین دارالحکومتوں میں سے ایک کے سب سے محروم علاقوں میں سے ایک ہے۔

آئیکون کمیونٹی نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والی بلنڈا نجنٹ نے ان کے مسائل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہاں نشے کی لت، بے دخلی اور ناقص معیار کی رہائش جیسے مسائل ہیں جن کے بارے میں لوگوں کو مدد چاہیے۔

وہ مجھے جارجیا کی ایک خالی عمارت ایلڈبورو ہاؤس کے عقبی حصے میں لے گئیں تاکہ وہ اسے ایک مثال کے طور پر دکھائیں کہ عوام کے پیسے کو کس طرح اور کہاں خرچ ہونا چاہیے۔

انھوں نے کہا ’ہمارے پاس آٹزم اور اضافی ضروریات کے شکار بچوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، لیکن ان کے جانے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔‘

اسے (عمارت کو) ان خاندانوں کے لیے ایک مرکز میں تبدیل کرنا ایک مثالی سرمایہ کاری ہوگی۔‘

ریاستی خزانے میں آنے والے اربوں یورو کے بارے میں انھوں نے کہا کہ ’یہ ہماری جیبوں میں نہیں ہیں۔ ہم پر مہنگائی کا بوجھ پڑ رہا ہے، ہم توانائی کے بلوں میں اضافے اور زیادہ کرایوں کو محسوس کرتے ہیں۔ یہاں امیر اور غریب کے درمیان بہت بڑا فرق ہے۔‘

ڈبلن میں رہائش کا بحران

اخراجات

ملک بھر میں جانچنے کا معیار سماجی اور سیاسی ہاؤسنگ کا مسئلہ ہے۔

آئرلینڈ میں بے گھری کا ریکارڈ بلندی پر ہے۔ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق جون میں 12,600 افراد ہنگامی رہائشوں میں تھے۔

لیکن رہائش کی کمی کے وسیع اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ڈبلن میں ایک بیڈروم کی پراپرٹی کرائے پر لینے کی اوسط قیمت 1,800 یورو ماہانہ ہے۔

یہ یورپی یونین کے شماریاتی ادارے یوروسٹیٹ کے ذریعہ کیے گئے 40 سے زیادہ مقامات کے مطالعے میں جنیوا اور لندن کے بعد یورپ میں تیسرے نمبر پر ہے۔

لورا مرفی نے ڈاکٹریٹ کر رکھی ہے اور وہ فنانس انڈسٹری میں کام کرتی ہیں۔ لیکن وہ نوجوان پیشہ ور افراد کی اس نسل سے آتی ہیں جو پراپرٹی مارکیٹ سے خود کو باہر محسوس کرتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’مجھے یاد نہیں ہے کہ ہم آخری بار دوستوں سے کب ملے تھے جب ہم نے رہائش کے بحران کے بارے میں بات نہیں کی ہو۔‘

انھوں نے رہائش کے لیے جگہ کی تلاش کے بارے میں یاد کرتے ہوئے کہا کہ جن اپارٹمنٹس کی تشہیر نسبتاً کم کرایہ کے طور پر کی گئی تھی ان کے باہر بڑی قطاریں تھیں۔

وہ اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتی ہیں کہ انھوں نے اوسط سے کم قیمت پر ایک بیڈروم کی پراپرٹی حاصل کی لیکن انھیں یہ بھی لگتا ہے کہ اپنا گھر ہونا ’مختصر مدت میں غیر حقیقی‘ ہے۔

’آپ اس مقام پر پہنچ جاتے ہیں جہاں آپ سوچتے ہیں کہ کیا میں پانچ سے 10 سال تک اپنے پاس موجود ہر ایک پیسہ کو (مکان) ڈپازٹ کے لیے بچانے جا رہی ہوں، یا کیا میں چھٹیاں گزارنے جا رہی ہوں؟‘

مرفی

انھوں نے کہا کہ ’آئرلینڈ میں گھر کا مالک ہونا ایک ایسی چیز ہے جس کی ہم خواہش رکھتے ہیں۔ ہمارے والدین نے یہ کیا، ہمارے دادا دادی نے یہ کیا، لیکن ہمارے لیے یہ ہماری دسترس سے باہر ہے۔‘

ان کے مطابق ’یہ بہت مایوس کن کرنے والی بات ہے اور اس کے بارے میں غصہ پایا جاتا ہے۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ حکومت کو بجٹ سرپلس کے ساتھ کیا کرنا چاہیے تو انھوں نے کہا کہ وہ مکانات کی کمی سے نمٹنے کے لیے ’مزید طویل مدتی سوچ‘ چاہتی ہیں۔

’جب ان کے پاس اس کے بارے میں کچھ کرنے کے لیے پیسے ہیں تو انھیں مستقبل کے لیے سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔‘

پروفیسر بیریٹ کے مطابق ’معیشت میں ’صلاحیت جیسی رکاوٹیں‘ ہیں جس کا مطلب ہے کہ گھر بنانے کے پروگرام میں تیزی سے اضافی رقم خرچ کرنے میں مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’مزدوروں کی مانگ میں بڑا اضافہ شاید اجرتوں میں افراط زر کا باعث بنے گا کیونکہ وہاں صرف مزدور دستیاب نہیں ہیں۔‘

حکومت اس مقصد کے لیے ایک ’خودمختار دولت فنڈ‘ پر غور کر رہی ہے۔ اس ہدف کے لیے ایک بڑی رقم مختص کرنے سے اس شعبے کے بجٹ میں اضافہ کرنا مقصد ہے۔

اس حوالے سے عالمی سطح پر اختیار کی جانے والی حکمت عملی کی بہترین مثال ناروے ہے، جہاں حکومت نے تیل کی آمدنی کو اس مقصد کے لیے استعمال کیا ہے۔

آئرش کے وزیراعظم لیو وارادکر نے حال ہی میں ان کمپنیوں میں سے ایک کے آئرش میں کام کرنے والی ایک کمپنی کے دفتر کا دورہ کیا، جس نے ملک کے ٹیکس کے ہدف کو قابل ذکر حد تک بڑھایا ہے۔

ایپل نے سنہ 1981 میں ’کارک‘ میں کام شروع کیا، اور فی الحال اس جگہ وہ اپنے تازہ ترین توسیعی منصوبے کو آگے بڑھا رہی ہے۔

بی بی سی نے لیو وارادکر سے پوچھا کہ کیا بھاری بجٹ سرپلس مشکل سیاسی انتخاب لا رہا ہے کیونکہ ووٹرز کی توقعات بڑھ جائیں گی۔

انھوں نے حکومت میں اپنے ابتدائی تجربات کی طرف اشارہ کیا جب صرف ایک دہائی قبل عالمی مالیاتی بحران کے دوران آئرلینڈ معاشی بدحالی کا شکار ہوا تھا۔

آئرلینڈ

،تصویر کا ذریعہMICHAEL O’SULLIVAN/OSM PHOTOGRAPHY

انھوں نے کہا کہ ’میں خود بجٹ کا حصہ رہا ہوں جہاں ہمیں اربوں یورو کی کٹوتی کرنی پڑی ہے اور یہ سیاسی طور پر ایک مشکل فیصلہ تھا۔‘

ان کے مطابق ’اب ہم اس پوزیشن میں ہیں جہاں ہمارے پاس اربوں یوروز ہیں حالانکہ یقیناً مطالبات ہمیشہ اس رقم سے زیادہ ہوتے ہیں جو ہمارے پاس خزانے میں خرچ کرنے کے لیے موجود ہوتی ہے۔‘

وزیراعظم نے بتایا کہ ’لیکن یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا مجھے 12 سال پہلے ہونے والے مسئلے سے کہیں زیادہ سامنا تھا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’یہ اہم ہے کہ آئرلینڈ ’کسی قسم کے غرور میں نہیں ہے کیونکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایک چھوٹی ’اوپن‘ معیشت غلط پالیسی کے انتخاب اور بین الاقوامی واقعات سے جلد متاثر ہو سکتی ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’اسی لیے ہم قرض کی ادائیگی، مستقبل کے بنیادی ڈھانچے کے اخراجات، مستقبل کی پینشن کے اخراجات کے لیے اگلے سال سرپلس سے تقریباً 10 بلین مختص کرنے کا فیصلہ کر رہے ہیں۔‘

ان کے مطابق ’میں نہیں چاہتا کہ مستقبل کی کوئی حکومت چاہے وہ میری پارٹی کی ہو یا نہیں، ان فیصلوں کا سامنا کرے جن کا ہمیں ماضی میں سامنا کرنا پڑا۔‘

اب آگے کیا ہوگا؟

ڈبلن

،تصویر کا کیپشن

آئرلینڈ میں آئندہ عام انتخابات کا انعقاد سنہ 2025 کے اوائل میں ہونا ہے

وزرا اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ وہ ہاؤسنگ کے بحران سے نمٹنے کے لیے پہلے ہی قابل ذکر رقم کی سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔

وزیراعظم لیو وارادکر کی پارٹی۔۔ فائن گیل۔۔ ایک اور بڑی سیاسی جماعت فیانا فیل کی اتحادی ہے۔ خیال رہے کہ گرین پارٹی بھی اس اتحادی حکومت کا حصہ ہے۔

آئندہ عام انتخابات کا انعقاد سنہ 2025 کے اوائل میں ہونا ہے۔

بائیں بازو کی سن فین پارٹی فی الحال مقبول سمجھی جاتی ہے۔ آئرلینڈ کی بھاگ ڈور سنبھالنے کی دوڑ میں یہ بحث مرکزی حیثیت اختیار کر جائے گی کہ اس وقت خزانے میں پڑے اربوں یوروز سے متعلق کیا حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے۔

BBCUrdu.com بشکریہ