چیف جسٹس پاکستان نے ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ مسٹر ایڈمنسٹریٹر آپ کٹھ پتلی ہیں، ہمیں لیکچر نہ دیں بلکہ کام کریں، جتنے رفاہی پلاٹس ہیں قبضہ ختم کرائیں، کھیل کے میدان بحال کریں۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس قاضی امین پر مشتمل بینچ نے تجاوزات کے خاتمے، سرکلر ریلوے، اورنگی اور گجرنالہ متاثرین کی بحالی سے متعلق کیس کی سماعت کی جبکہ نسلہ ٹاور سے متعلق بھی رپورٹ پیش کی گئی۔
ایڈمنسٹریٹر مرتضیٰ وہاب نے سپریم کورٹ میں رفاہی پلاٹس سے متعلق رپورٹ جمع کرائی اور بتایا کہ 200 رفاہی پلاٹ ہیں، کے ایم سی کے 42 پارکس فعال ہیں، کے ایم سی کی 9 ہزار دکانیں ہیں، میں ریونیو جنریٹ کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جتنے رفاہی پلاٹس ہیں قبضہ ختم کرائیں کھیل کے میدان بحال کریں، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کس نے کیا ہے یہ سب کچھ؟ ایڈمنسٹریٹر کراچی نے بتایا کہ گزشتہ حکومتوں نے یہ سب کچھ کیا ہے۔
مرتضیٰ وہاب نے عدالت کو بتایا کہ 9 پیٹرول پمپ ہیں دکانوں کا کرایہ بڑھایا جارہا ہے، میرا اپنا شہر ہے دو ڈھائی ماہ میں جو کرسکتا تھا کیا ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کیا سمجھ رہے ہیں ٹی وی پر بیٹھ کر بات کر رہے ہیں۔
ایڈمنسٹریٹر کراچی نے کہا کہ میں صرف اپنا بولنے کا حق استعمال کر رہا ہوں، جسٹس قاضی امین نے کہا کہ آپ ہماری اجازت کے بعد بولیں گے،چیف جسٹس نے ایڈمنسٹریٹر کراچی سے کہاکہ چلے جائیں ۔
وکیل کے ایم سی نے عدالت کو بتایا کہ میں نے سب کچھ نوٹ کرلیا ہے رپورٹ جمع کرا دیں گے، جسٹس قاضی امین نے کہا کہ تجاوزات والوں کو نوٹس دے کر خالی کیوں نہیں کراتے، چیف جسٹس نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ شہر کے 90 فیصد حصے پر قبضہ ہوچکا ہے، اینٹی انکروچمنٹ کے پاس کوئی کام نہیں ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ اینٹی انکروچمنٹ کی تین عدالتیں خالی پڑی ہیں کام ہی نہیں ہے،ہم نےپی ای سی ایچ ایس میں دیکھا ہے 300 ،400 گز کے گھر توڑ کر چار چار منزلہ بنالئے ہیں،کیا کے ایم سی، کیا کے ڈی اے، بد ترین صورت حال ہے۔
Comments are closed.