’مسلم ممالک کا رہنما‘ سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار کیوں ہے؟
- مصنف, پرینکا جھا
- عہدہ, بی بی سی
گذشتہ چند برسوں کے دوران اسرائیل اور عرب ممالک کے تعلقات بتدریج بہتر ہوتے نظر آئے ہیں۔
متحدہ عرب امارات (یو اے ای)، بحرین، سوڈان اور مراکش نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات باقاعدہ طور پر بحال کر لیے ہیں لیکن مسلم ممالک کے ’رہنما‘ سمجھا جانے والے ملک، سعودی عرب، اب بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے سے گریزاں نظر آتا ہے۔
گذشتہ کچھ عرصے سے امریکہ کی ثالثی میں سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان ممکنہ امن معاہدے کی قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں لیکن گذشتہ ہفتے نائف السدیری کو فلسطین میں اپنا سفیر مقرر کر کے سعودی عرب نے واضح کر دیا ہے کہ وہ فی الحال وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کے موڈ میں نہیں ہے۔
اسرائیل اور فلسطین کے تنازع میں اب تک سعودی عرب کُھل کر فلسطین کی حمایت کرتا آیا ہے۔
سعودی عرب اور اسرائیل کے تعلقات میں ممکنہ بہتری سے متعلق چہ میگوئیاں میں شدت حال ہی میں اس وقت آئی تھی جب معروف امریکی اخبار وال سٹریٹ جرنل میں اس سے متعلق ایک رپورٹ شائع ہوئی۔
اس رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ امریکہ نے اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان ممکنہ معاہدے کا ایک خاکہ تیار کیا ہے جس کے تحت تعلقات معمول پر لائیں جائیں گے۔
رپورٹ میں بعض امریکی حکام کے حوالے سے امید ظاہر کی گئی ہے کہ اگلے 9 سے 12 ماہ کے اندر مشرق وسطیٰ کے خطے میں اس دور کے اہم ترین امن معاہدے پر بات چیت ہو سکتی ہے۔
یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے امریکی حکام کو یقین دلایا ہے کہ وہ ’تصفیے تک پہنچنے کی کوشش میں سنجیدہ ہیں۔‘
تاہم اس دوران اس نوعیت کی خبریں بھی گردش کرتی رہیں کہ محمد بن سلمان نے مبینہ طور اپنے قریبی حلقوں میں واضح کیا ہے کہ وہ فی الوقت اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
ماہرین سعودی عرب کے اس مبہم موقف کے پیچھے بہت سی وجوہات بتاتے ہیں۔
خیال کیا جا رہا ہے کہ سعودی عرب، جو آج تک مسئلہ فلسطین کو بھرپور طریقے سے اٹھاتا رہا ہے، اگر اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے سے متعلق کوئی اہم فیصلہ کرتا ہے تو اسے ناصرف مسلم ممالک بلکہ ملک کے اندر بھی مزاحمت اور تنقید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اس کے ساتھ عالمی برادری بالخصوص مسلم ممالک میں سعودی عرب کے ’رہنما والے رتبے‘ کو بھی بڑا دھچکا لگ سکتا ہے۔
سعودی عرب ’ایران فیکٹر‘ کی وجہ سے پریشانی کا شکار
ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان (دائیں) اپنے سعودی عرب کے ہم منصب فیصل بن فرحان کے ساتھ
مشرق وسطیٰ کے دو انتہائی اہم ممالک، سعودی عرب اور ایران، کے دہائیوں کے کشیدہ تعلقات میں رواں برس چین کی ثالثی میں بڑی تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔
مارچ میں سعودی عرب اور ایران کے حکام کے درمیان چین میں چار روزہ مذاکرات کے بعد دونوں ممالک نے غیر متوقع طور پر برسوں سے منقطع سفارتی تعلقات کی بحالی کا اعلان کیا۔
سعودی عرب میں معروف شیعہ عالم شیخ نمر النمر کو پھانسی دیے جانے کے بعد ایرانی مظاہرین نے ریاض میں سعودی سفارت خانے پر دھاوا بول دیا تھا۔ سنہ 2016 میں پیش آنے والے اس واقعے کے بعد سعودی عرب نے ایران کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات منقطع کر دیے تھے۔
سفارتی تعلقات منقطع ہونے کے بعد سے سنی اکثریتی سعودی عرب اور شیعہ اکثریتی ایران کے درمیان کافی کشیدگی پائی جاتی تھی۔
مشرق وسطیٰ میں بالادستی کے مقابلے میں مصروف دونوں ممالک ایک دوسرے کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے رہے ہیں۔
اسی وجہ سے دونوں ممالک لبنان، شام، عراق اور یمن سمیت مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک میں حریف دھڑوں کی حمایت کرتے رہے ہیں۔
تاہم دونوں ممالک نے ابھی تک ایک دوسرے کا مکمل اعتماد حاصل نہیں کیا ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ اگر سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرتا ہے تو ایران اس کے خلاف لازمی آواز اٹھائے گا جبکہ اس بات کا بھی اندیشہ ہے کہ اسلامی ممالک کے سربراہ کی حیثیت سے سعودی عرب کی پوزیشن بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے وہ بھی ایک ایسے وقت میں جب ایران اور دوسرے بڑے اسلامی ممالک نے مسلم ممالک کی قیادت کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔
دلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں مغربی ایشیائی امور کے پروفیسر اے کے پاشا کہتے ہیں ’ناصرف ایران بلکہ خطے میں اس کے حمایت یافتہ تنظیمیں حزب اللہ، حماس اور حوثی بھی اپنی ناراضگی کا اظہار کریں گے کیونکہ مسئلہ فلسطین اسلامی ممالک کے لیے ایک ’انتہائی جذباتی‘ مسئلہ ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ بھی ممکن ہے کہ سعودی عرب کے ایران کے ساتھ جو تعلقات حال ہی میں بہتر ہوئے ہیں وہ دوبارہ کشیدگی کا شکار ہو جائیں۔ شاید انھیں خطرات کو بھانپتے اور چہ میگوئیوں کا سدباب کرتے ہوئے سعودی عرب نے اُردن میں تعینات اپنے سفارتکار کو فلسطین کے لیے اپنے سفارتکار کے طور پر اضافی ذمہ داری دی ہے۔‘
اے کے پاشا کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب سے جو بائیڈن امریکہ کے صدر بنے ہیں،ان کے سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کے ساتھ انسانی حقوق سمیت دیگر کئی معاملات کی وجہ سے تعلقات اچھے نہیں ہیں۔
پروفیسر پاشا کا کہنا ہے کہ ’ایسے حالات میں محمد بن سلمان کی خواہش ہے کہ امریکہ سعودی عرب کا ساتھ دے اور وہ امریکہ کے ساتھ چند دفاعی معاہدے بھی کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ چین کی مداخلت کی وجہ سے سعودی عرب کے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات بہتر ہوئے ہیں لیکن پھر بھی سعودی عرب ایران کو عسکری اور نظریاتی سطح پر اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ سعودی عرب چاہتا ہے کہ امریکہ اسے اچھے اور جدید ہتھیار دے، سعودی عرب یہ بھی چاہتا ہے کہ اسے ایران کے جوہری ری ایکٹر کے جواب میں امریکہ میں سول نیوکلیئر ری ایکٹر ملیں۔
مگر سعودی عرب کے امریکہ سے تمام تر مطالبات کے حقیقت بننے کے لیے امریکی کانگریس میں اسرائیلی لابی کی منظوری بہت ضروری ہے۔
اسلامی ممالک میں ’مذہبی تشخص‘ کا خاتمہ؟
مکہ اور مدینہ کی موجودگی کی وجہ سے سعودی عرب دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے مقدس ترین ملک ہے۔ اس لیے یہ خود کو مسلم دنیا کا رہنما بھی سمجھتا ہے۔
سعودی عرب کا یہ مؤقف ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ اس وقت تک باضابطہ تعلقات قائم نہیں کرے گا جب تک فلسطین سنہ 1967 کی سرحدوں کے تحت آزاد ریاست نہیں بن جاتا۔ سعودی عرب مشرقی یروشلم کو فلسطین کا دارالحکومت بنانے کا مطالبہ بھی کرتا ہے۔
سنہ 1967 میں چھ روزہ جنگ کے بعد عرب دنیا اور اسرائیل کے درمیان دشمنی میں اضافہ ہوا تھا، اس جنگ میں اسرائیل کو فتح حاصل ہوئی تھی جبکہ عرب ممالک کو متحد ہو کر بھی شکست کا منہ دیکھنا پڑا تھا۔
تجزیہ کاروں کی نظر میں الاقصیٰ پر اسرائیل کا موقف واضح ہونے کے باوجود اگر سعودی عرب اس کے ساتھ امن معاہدہ کرتا ہے تو اس سے اسلامی ممالک میں اس کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا۔
انڈین کونسل آف ورلڈ افیئرز کے فیلو اور مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہر فضل الرحمان صدیقی کہتے ہیں ’سعودی عرب کی ایک مذہبی شناخت ہے۔ مسلمانوں کے تین مقدس مقامات میں سے دو سعودی عرب میں ہیں اور یہ ان کے زیر انتظام ہیں۔ کئی سال تک اس نے مسئلہ فلسطین کو مسلم دنیا کا مشترکہ مسئلہ قرار دیتے ہوئے اسے ایک اسلامی مسئلہ قرار دیا، اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ (یروشلم) مسلمانوں کے تیسرے مقدس ترین مقام (الاقصیٰ) کا گھر ہے۔‘
فضل الرحمان صدیقی کا کہنا ہے کہ ’سعودی عرب سے دنیا بھر کے مسلمانوں کے مذہبی جذبات وابستہ ہیں، ہر سال دنیا بھر سے 25 سے 30 لاکھ لوگ مکہ مدینہ جاتے ہیں، اسی لیے یہ فیصلہ (اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے) سعودی عرب کے لیے سب سے مشکل ثابت ہو گا۔ سعودی عرب کو مسلمانوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’سب سے پہلے مسلم دنیا میں سعودی عرب کی جو جگہ ہے، اسے بڑا دھچکا لگے گا۔ اس کی مذہبی شناخت کو بہت نقصان پہنچے گا۔ تیسرا یہ کہ ایران، ترکی، پاکستان، سعودی عرب ایسے ممالک ہیں جو تقریباً 50 سے 60 سالوں سے مسلمانوں کے مسائل پر بات کرتے ہیں۔ ان کے درمیان مذہبی شناخت کی وجہ سے سعودی عرب کو جو سٹریٹیجک پوزیشن حاصل ہے وہ اس سے محروم ہو جائے گا۔‘
اے کے پاشا کی رائے بھی اس سے ملتی جلتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے بارے میں کوئی ٹھوس فیصلہ نہیں کر پا رہا ہے کیونکہ وہ اس بات سے پریشان ہے کہ اگر اسرائیل کو تسلیم کر لیا گیا تو اسلامی ممالک کی تنظیم (او آئی سی) جیسے دیگر بلاکس میں اس کی پوزیشن کیا ہو گی؟ وہ یہ بھی نہیں جانتا کہ پاکستان، افغانستان یا انڈونیشیا، ترکی اس پر کیا ردعمل ظاہر کریں گے۔‘
فضل صدیقی کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کا صاف مطلب ہے کہ آپ نے مسئلہ فلسطین کو مکمل طور پر چھوڑ دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ تمام حقائق سعودی عرب کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے سے روک رہے ہیں۔
متحدہ عرب امارات تعلقات قائم کر سکتا ہے تو سعودی عرب کیوں نہیں؟
سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان (بائیں) متحدہ عرب امارات کے نائب صدر شیخ منصور بن زید النہیان کے ساتھ
سنہ 1979 میں مصر نے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کیا تھا۔ یہ معاہدہ وائٹ ہاؤس میں اُس وقت کے امریکی صدر جمی کارٹر کے ثالثی میں ہوا تھا۔
اس کے کئی سال بعد سنہ 1994 میں اردن نے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کیا جس کے بعد طویل خاموشی چھا گئی۔ لیکن پھر سنہ 2020 میں ایک لہر آئی اور بحرین، متحدہ عرب امارات، مراکش، سوڈان جیسے مسلم اکثریتی ممالک نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے ‘ابراہیم ایکارڈ’ پر دستخط کر دیے۔
اس کے بعد متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لیے۔
تو سوال یہ ہے کہ اگر کئی دیگر مسلم ممالک یہ سب کر سکتے ہیں تو سعودی عرب کے لیے یہ اتنا مشکل کیوں ہے؟
سعودی عرب میں انڈیا کے سابق سفارتکار تلمیز احمد کہتے ہیں کہ ’صرف چار عرب ممالک ہیں جن کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات ہیں۔ سوڈان خود خانہ جنگی سے گزر رہا ہے، اس کا شمار بھی نہیں ہے۔ جہاں تک مراکش کا تعلق ہے۔ اس نے صرف اسرائیل تک پروازوں کا سلسلہ شروع کیا ہے لیکن آج تک اپنا سفیر اسرائیل میں نہیں بھیجا۔ متحدہ عرب امارات واحد ملک ہے جس نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں کچھ پہل دکھائی ہے۔ یو اے ای بھی ایک بہت چھوٹا ملک ہے اور اس کی مسلم دنیا میں وہ سٹریٹجک اہمیت نہیں ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی راہ میں بہت سی مشکلات ہیں جن میں سے پہلا ’عرب پیس انیشیٹو‘ معاہدہ ہے جس پر تقریباً 20 سال قبل دستخط ہوئے تھے۔
اس معاہدے کا آغاز سعودی عرب نے کیا تھا اور باقی عرب ممالک نے اسے قبول کیا تھا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ سنہ 1967 کے بعد اسرائیل نے جتنے بھی عرب علاقوں پر قبضہ کر رکھا ہے وہ وہاں سے پیچھے ہٹ جائے۔ فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر بھی تسلیم کریں، جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہو گا۔
تلمیز احمد کا کہنا ہے کہ ’اسرائیل کی جانب سے فلسطین پر بھی معاہدہ پیش کیا جانا چاہیے، مگر اس کے برعکس اسرائیل کی موجودہ حکومت میں ظلم بڑھ گیا ہے۔ ایسے ماحول میں خود کو عربوں اور اسلامی دنیا کا لیڈر سمجھنے والے سعودی عرب کے لیے آگے بڑھنا بہت مشکل ہے۔‘
اس سوال کا جواب ’دی یروشلم پوسٹ‘ کے ایک آرٹیکل میں بھی ملتا ہے۔
اس آرٹیکل کے مطابق متحدہ عرب امارات کی خواہش خود کو مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کے تجارتی اور مالیاتی مرکز کے طور پر قائم کرنا ہے۔ یو اے ای نے یہاں تک کہ اپنے ملک میں کام کے لیے مقیم جنوبی ایشیائی مزدوروں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایک مندر بھی بنایا ہے۔ لیکن دوسری جانب سعودی عرب کا تشخص مذہبی ہے۔ متحدہ عرب امارات کی لبرل پالیسیوں کے برعکس وہ مسلمانوں کے مقدس مقامات کا نگہبان ہونے پر فخر محسوس کرتا ہے۔
ممکنہ معاہدے سے سعودی عرب کو کیا فائدہ ہو گا؟
اسرائیل کے سب سے بڑے سٹریٹیجک اتحادی امریکہ نے عرب دنیا اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کا آغاز کر دیا ہے۔
مصر اور اردن کے ساتھ دہائیوں پہلے کا معاہدہ ہو یا سنہ 2020 میں ابراہم ایکارڈ۔ ان تمام مواقع پر امریکی صدور کا کردار اہم تھا۔
وال سٹریٹ جرنل کے مطابق سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان معاہدہ کروانے کے لیے صدر جو بائیڈن نے پہل تو کی ہے لیکن اس معاہدے سے امریکا کو کیا ملے گا؟
اس پر تلمیز احمد کا کہنا ہے کہ ’اگلے سال امریکہ میں صدارتی انتخابات ہونے ہیں، اگر یہ معاہدہ ہو گیا تو جو بائیڈن کو الیکشن لڑنے سے پہلے بڑی کامیابی مل جائے گی۔‘
اے کے پاشا کے مطابق اسرائیل کو اس سے سب سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔ اسرائیل کی موجودہ حکومت کو اپنے ہی گھر میں عدالتی اصلاحات کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج کا سامنا ہے اور اگر یہ معاہدہ ہوتا ہے تو اسرائیل کو ملکی بحران سے توجہ ہٹانے میں مدد ملے گی۔‘
تاہم سعودی عرب کو اس معاہدے سے کچھ بھی ٹھوس حاصل نہیں ہونے والا۔
اے کے پاشا کا کہنا ہے کہ ’سعودی عرب کو یہ بھی معلوم ہے کہ اگر اگلے سال امریکہ میں اقتدار کی تبدیلی ہوتی ہے تو ہو سکتا ہے کہ اسے جو مدد مل رہی ہے وہ پہلے جیسی نہ ہو۔ بلکہ اس سے اسرائیل کو فائدہ پہنچے گا۔ وہ کہہ سکے گا کہ ’عالمی برادری میں سب سے بڑے اسلامی ممالک کے سربراہ سعودی عرب نے بھی اسے قبول کر لیا ہے۔‘
’سعودی عرب پر صرف تنقید ہو گی اور اندرونی جھگڑے بڑھ سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ شاہی خاندان میں بھی پھوٹ پڑ سکتی ہے۔ پہلے ہی خاندان کے سینیئر افراد کی گرفتاری، اثاثوں کی ضبطی جیسی کارروائیوں کی وجہ سے محمد بن سلمان کے خلاف ناراضگی کا ماحول ہے۔ اسرائیل محمد بن سلمان کے مخالفین کو انھیں گھیرنے کا موقع دے سکتا ہے جس سے ان کی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔‘
Comments are closed.