homemade hookup hookup que significa hookups skateboards shirts what is hud hookup app arduino led hookups

بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

مسجد نبویؐ واقعے کے مقدمات درج نہ کرنیکا حکم

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پولیس کو مسجد نبویؐ کے واقعہ کی ایف آئی آرز درج نہ کرنے کا حکم دے دیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ریاست کا کام ہےیقینی بنائے کہ مذہبی استحصال نہ ہو۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللّٰہ نے مسجد نبویؐ واقعہ پر درج مقدمات کے خلاف فواد چوہدری ،قاسم سوری، شہباز گِل کی درخواستوں کو یکجا کرکے سماعت کی۔

وکیل پی ٹی آئی فیصل چوہدری نے کہا کہ پولیس رپورٹ ہے کہ چار درخواستیں آئیں جس میں تفتیش چل رہی ہے، پرچہ درج نہیں ہوا۔

سماعت کے دوران سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے عدالت میں کہا کہ میں حاضر ہو گیا ہوں، حیران ہوں ان کیسز پر، مارشل لاء بھی رہا، مگر کسی حکومت نے توہین مذہب کے قانون کو اس طرح استعمال نہیں کیا۔

سابق وزیر نے کہا کہ وزیر داخلہ کے بارے میں نہیں کہتا، مگر وزیر قانون پر حیرت ہے، ہم نےکوئی فساد تو نہیں کرانے، ایک دوسرے کی لاشوں پر چڑھ کر تو وزیر نہیں بننا ہوتا، ایسا رواج شروع کیا ہے کہ اس کے سنگین نتائج ہیں۔

فواد چوہدری نے کہا کہ یو کے کی پارلیمنٹ میں ڈسکشن شروع ہو رہی ہے اور ویزے واپس لینے کی بات ہو رہی ہے، سوسائٹی میں تفریق پیدا کر دی گئی ہے۔

چیف جسٹس اسلام آباد نے سوال کیا کہ کیا یہ عدالت اس کیس میں کارروائی کو آگے چلائے؟ آپ کو اس پر اعتماد ہے؟ فواد چوہدری نے جواب میں کہا کہ عدالت پر اعتماد نہیں ہوگا تو کس پر ہو گا؟

چیف جسٹس نے کہا کہ سیاسی قیادت ہی سوسائٹی میں تبدیلی اور صبر لا سکتی ہے، مذہب کو سیاسی مقصد کے لیے استعمال کرنا خود توہین مذہب ہے، اس طرح 2018 میں بھی ہوا اور پہلے بھی ہوتا رہا، یہ بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں سے ایک ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ ایک غیر ملکی کو سیالکوٹ میں مارا گیا، مشال خان کا واقعہ بھی سامنے ہے، یہاں پر بھی جو کیسز درج ہو رہے ہیں وہ درست معلوم نہیں ہوتے، سابق وزیر فواد چوہدری نے کہاکہ اصولاً تو حکومت کو خود ہی عقل کرنی چاہیے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ درج ایف آئی آرز میں عمران خان، شہباز گل، قاسم سوری سمیت دیگر کو نامزد کیا گیا ہے، ا سپر فواد چوہدری نے کہا کہ ہم سب استعفیٰ دے چکے ہیں، چیف جسٹس نے کہاکہ مگر ابھی تک آپ کو ڈی نوٹیفائی نہیں کیا گیا۔

اس پر فواد چوہدری نے کہا کہ عثمان بزدار پر اس کو اپلائی کریں تو پھر وہ چیف منسٹر ہیں، پی ٹی آئی کے وکیل نے کہاکہ اس وقت پنجاب میں کوئی حکومت نہیں ہے، چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہاکہ آئین پاکستان کی بہت بے توقیری ہو چکی ہے۔

انہوں نے ریمارکس میں مزید کہا کہ آئین پاکستان ہی لوگوں کو اکٹھا رکھ سکتا ہے، ہم آئین کو سپریم نہیں سمجھتے ورنہ آج ملک میں یہ حالات نہ ہوتے، ادارے بھی اسی آئین کے تابع ہیں، سب کو آئین کی پاسداری کرنی چاہیے، آئین کے تحت ہر ادارہ جوابدہ ہے، مدینہ منورہ میں واقعہ ہوا، ریاست کا کام ہےیقینی بنائے کہ مذہبی استحصال نہ ہو۔

اس سے قبل مسجد نبویؐ واقعہ پر کیسز کے خلاف قاسم سوری کی درخواست پر وفاق اور دیگر کو نوٹس جاری کیے گئے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللّٰہ نے استفسار کیا کہ قاسم سوری ڈی نوٹیفائی ہو گئے ہیں؟ وکیل نے آگاہ کیا قاسم سوری نے استعفیٰ دے رکھا ہے لیکن ابھی ڈی نوٹیفائی نہیں ہوئے، مقدمات اندراج کے بعد مختلف طریقوں سے ہراساں کیا جا رہا ہے۔

عدالت نے قاسم سوری کی درخواست کو فواد چوہدری کی ایسی ہی درخواست کے ساتھ یکجا کیا، درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ فواد چوہدری کی درخواست بھی آج ہی سماعت کے لیے فکس ہے، اس پر چیف جسٹس اسلام آباد نے کہا کہ پھر قاسم سوری کی درخواست کو بھی اس کے ساتھ ہی دیکھ لیں گے۔

وکیل درخواست گزارنے کہاکہ مدینہ منورہ واقعہ کے بعد اسی روز قاسم سوری پر بھی حملہ کیا گیا تھا، چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہاکہ ریاست نے دیکھنا ہے کہ کمپلینٹ کی نوعیت کیا ہے؟ ، مذہب کو سیاست میں استعمال نہیں کرنا چاہیے، ماضی میں ایسا ہوتا رہا ہے۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل سید طیب شاہ نے کہا کہ میں اس متعلق وفاق سے ہدایات لے لیتا ہوں، ریاست کو چاہیےسیاسی قیادت کو بٹھائے، پالیسی بنائے کہ مذہب کوسیاست میں نہیں لانا چاہیے۔

چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہاکہ سیاسی تنازعات کے لیے مذہب کا استعمال درست نہیں، یہ طے ہونا چاہئے کہ سیاست میں مذہبی کارڈ استعمال نہیں کیا جائے گا۔

وکیل درخواست گزار نے کہاکہ وفاقی حکومت کو ہدایات جاری کریں کہ ایف آئی آرز واپس لے، ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ لوگوں کے مذہبی جذبات ہیںاور ان کے مذہبی جذبات کو واقعہ سے ٹھیس پہنچی، مقدمہ درج کرانے کی درخواستیں پرائیویٹ پرسنز کی جانب سے جمع کرائی گئیں۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہاکہ یہ بتا دیں کہ مستقبل میں ایسے ایشوز کو کیسے ڈیل کیا جائے گا؟ وکیل نے کہاکہ وزارت داخلہ کو تمام مقدمات کی تفصیل جمع کرانے کی ہدایت کی جائے۔

اس موقع پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کیس کی سماعت دو ہفتے کے لیے ملتوی کردی۔

بشکریہ جنگ
You might also like

Comments are closed.