انگلش چینل سانحہ: ’مریم نوری نے اچھی زندگی کے لیے برطانیہ کا انتخاب کیا مگر وہ زندہ نہ بچ سکیں‘
شمالی عراق میں ایک گھر میں صفِ ماتم بچھی ہوئی ہے اور عورتیں گریہ زاری کر رہی ہیں۔ مرنے والی مریم نوری یہاں سے ہزاروں میل دور فرانس اور برطانیہ کی سمندری حدود میں بدھ کو ایک کشتی ڈوبنے کے حادثے میں ہلاک ہو گئی تھیں۔
ان کے والد نوری ہمادامن کہتے ہیں کہ وہ جرمنی سے فرانس گئی اور فرانس سے اس ’ذبیحہ خانے‘ چلی گئی، پوری دنیا یورپ کے بارے میں بات کرتی ہے کہ یہ پر امن جگہ ہے، اچھی ہے، کیا سکون کا مطلب یہ ہے کہ 30 کے قریب لوگ سمندر کے بیچوں بیچ مر رہے ہیں لوگوں کو اس صورتحال میں لانا ایک گناہ ہے۔‘
24 سالہ کرد خاتون مریم انگلش چینل کو عبور کرتے ہوئے ہلاک ہونے والوں میں سے پہلی ہیں جن کی شناخت ہوئی ہے۔
یہ سوگ برطانیہ میں غیر قانونی طریقے سے چھوٹی کشتی کے ذریعے داخل ہونے کی کوشش کرنے والے 30 افراد میں سے ایک مریم نوری کی موت کی وجہ سے ہے۔ اس واقعے میں کشتی میں سوار 30 میں سے 27 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
ان کے منگیتر نے، جو اس وقت برطانیہ میں ہی ہیں، بی بی سی کو بتایا کہ جب کشتی ڈوب رہی تھی تو تب تک وہ ان کے ساتھ میسج کر رہی تھیں۔
انھوں نے اپنے منگیتر کو یہ یقین دہانی کروانے کی کوشش کی کہ انھیں مدد مل جائے گی۔ لیکن مریم اور ان کے ساتھ موجود لوگوں کو مدد بہت دیر سے ملی۔ مریم کے ہمراہ موجود چھ اور عورتیں جن میں سے ایک حاملہ تھیں اور 17 مرد اور تین بچے سمندر میں ڈوبنے سے ہلاک ہو گئے۔
اس حادثے میں صرف دو لوگ زندہ بچے۔ ایک کا تعلق عراق سے اور دوسرے کا صومالیہ سے ہے۔
کئی برسوں کے دوران انگلش چینل کو عبور کرنے کی کوشش میں ہلاک ہونے والی کی یہ ایک بڑی تعداد ہے۔ ان کے منگیتر کا کہنا ہے کہ مریم کشتی پر اپنی خواتین رشتہ داروں کے ہمراہ تھیں۔
وہ کہتے ہیں کہ وہ اس بارے میں لاعلم تھے کہ مریم انگلش چینل کو عبور کر کے برطانیہ داخل ہونے کی کوشش کر رہی ہیں اور یہ ان کے لیے سرپرائز تھا۔
جب ان کی چھوٹی سی کشتی ڈولنے لگی تو وہ ایک دوسرے سے سنیپ چیٹ پر بات کر رہے تھے۔ مریم نے انھیں بتایا کہ کشتی سے ہوا نکل رہی ہے اور وہ اس سے پانی کو باہر نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ اپنے آخری پیغام میں وہ مجھے یقین دلا رہی تھی اور امید دلا رہی تھی کہ حکام انھیں بچانے کے لیے آ رہے ہیں۔
مریم کے چچا نے بی بی سی کو تصدیق کی کہ انگلش چینل میں ڈوبنے والی کشتی میں سوار افراد میں مریم بھی شامل تھیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے یہ خبر دو افراد سے سنی جو مریم کے ساتھ کشتی میں موجود تھے۔ اب یہ خاندان مریم کے جسد خاکی کو واپس عراق بھجوائے جانے کا منتظر ہے۔
جمعے کی رات کو ان کے والد، خاندان والے اور دوست شمالی عراق میں موجود ان کے گھر میں ان کی موت کا غم بانٹنے اور ان کی یاد میں اکھٹے ہوئے۔
مریم کی بہت عزیز دوست ایمان حسن کہتی ہیں کہ وہ بہت بڑے دل کی مالک اور نہایت عاجز انسان تھی۔ وہ بتاتی ہیں جب وہ کردستان سے نکلی تو وہ بہت خوش تھی اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ اپنے منگیتر سے ملنے جا رہی ہے۔
بی بی سی سے گفتگو میں ایمان نے کہا کہ اپنی منگنی کے روز وہ مجھے بتا رہی تھی کہ میں تمھارے گھر کے قریب گھر لوں گی اور ہم اکھٹے رہنے جا رہے ہیں۔ ایمان حسن نے کہا کہ وہ دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتی ہیں کہ کوئی بھی ایسی موت کا حقدار نہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’اس نے اچھی زندگی جینے کی کوشش کے لیے برطانیہ کا انتخاب کیا مگر وہ زندہ نہ بچ سکیں۔‘
انگلش چینل سے آنے والے تارکین وطن کو روکنے کے لیے کیا جا رہا ہے؟
برطانیہ بارڈر فورس انگلش چینل کو چھوٹی کشتیوں کے ذریعے عبور کرنے کی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے اپنے جہاز بھیجتی ہے لیکن وہ خطرات میں گھرے ہوئے لوگوں کو بچانے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔
یہ بھی پڑھیے
فرانس کے وزیر دفاع نے بدھ کے روز کہا تھا کہ صرف ایک دن میں انگلش چینل کو عبور کرنے کی کوشش کرنے والے 671 لوگوں کو روکا گیا ہے۔
کیلے سے فرانسیسی ممبر پارلیمنٹ پیئر ہنری ڈوماں نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ یہ توقع کرنا کہ 200 سے 300 کلو میٹر لمبے ساحل پر پولیس افسران 24 گھنٹے گشت کریں گے، حقیقت پسندانہ سوچ نہیں ہے۔
انگلش چینل میں ملنے والے افراد کے ساتھ کیا کیا جاتا ہے؟
اگر تارکین وطن کا کوئی گروہ انگلش چینل کو عبور کرنے کی کوشش میں بارڈر فورس کے ہتھے چڑھ جاتا ہے، تو اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ اس گروہ کے افراد کو برطانوی بندرگاہ پر لایا جائے گا۔
اگر یہ لوگ عالمی پانیوں میں ملے ہوں تو پھر برطانوی اور فرانسیسی حکام مل کر فیصلہ کرتے ہیں کہ ان تارکین وطن کے ساتھ کیا کیا جائے۔ دونوں ملکوں کے اپنے اپنے تلاش اور حفاظت کے زون ہیں۔
لیکن چونکہ انگلش چینل کی چوڑائی صرف 20 میل ہے اس لیے اس علاقے کو انٹرنیشنل واٹرز میں تصور نہیں کیا جاتا ہے۔ تارکین وطن جب ایک بار برطانوی حدود میں داخل ہو جاتے ہیں تو انھیں، عام طور پر، ایسے مراکز میں لے جایا جاتا ہے، جہاں انھیں مختصر عرصے کے لیے رکھا جاتا ہے۔
کتنے تارکین وطن انگلش چینل کو عبور کرتے ہیں؟
نومبر میں صرف ایک روز میں 1000 افراد انگلش چینل عبور کر کے برطانیہ میں داخل ہوئے۔ رواں برس 25 ہزار افراد انگلش چینل عبور کر کے برطانیہ پہنچے ہیں۔ لیکن یہ اعداد و شمار مکمل کہانی بیان نہیں کرتے۔
2019 میں برطانیہ میں 45 ہزار افراد نے پناہ کی درخواست دی لیکن یہ تمام افراد انگلش چینل کو عبور کر کے برطانیہ نہیں پہنچے تھے بلکہ پناہ کی درخواست دینے والوں کا ایک حصہ تھے۔
کیا تارکین وطن کو واپس فرانس بھیجا جا سکتا ہے؟
عالمی قوانین کے تحت پناہ کے متلاشی لوگ کسی بھی ملک پہنچ کر وہاں پناہ کی درخواست دے سکتے ہیں۔ یہ لازم نہیں ہے کہ وہ اسی ‘محفوظ’ ملک میں پناہ کی درخواست دیں جہاں وہ سب سے پہلے پناہ کی تلاش میں پہنچے ہیں۔
البتہ یورپی یونین کے ڈبلن تھری قانون کے تحت پناہ گزینوں کو واپس اسی ملک بھیجا جاتا ہے جہاں وہ سب سے پہلے پہنچے ہیں۔ جنوری 2019 سے اکتوبر 2020 کے درمیان برطانیہ نے ڈبلن تھری قانون کے تحت 231 ایسے پناہ گزینوں کو واپس یورپ بھیج دیا تھا جو برطانیہ پہنچ گئے تھے۔
لیکن اب برطانیہ یورپی یونین کا حصہ نہیں رہا ہے اور اسے یہ قانونی سہولت میسر نہیں ہے۔ پناہ گزینوں کے حوالے سے برطانیہ ابھی تک یورپی یونین کے ساتھ کسی متبادل نظام پر متفق نہیں ہوا ہے لہذا برطانوی حدود میں پہنچنے والے تارکین وطن کو واپس بھیجنا مشکل ہو چکا ہے۔
برطانیہ کے امیگریشن وزیر ٹام پرسگللوو نے 17 نومبر کو ممبران پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ 2021 میں برطانیہ صرف پانچ افراد کو واپس یورپی یونین کے ممالک میں بھیج پایا ہے۔
کیا تارکین وطن کو انگلش چینل میں واپس دھکیلا جا سکتا ہے؟
برطانیہ کی وزیر داخلہ پریتی پٹیل نے بارڈر فورس کے حکام کو اجازت دی ہے کہ وہ مخصوص حالات میں پناہ گزینوں کی کشتیوں کو واپس دھکیل سکتے ہیں۔
آسٹریلیا نے پناہ گزینوں کو واپس دھکیلنے کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ لیکن فرانس برطانیہ کی اس پالیسی کے ساتھ تعاون نہیں کرتا۔
جوں ہی کشتیاں فرانسیسی پانیوں سے نکل آئیں برطانوی اہلکار فرانس کی رضامندی کے بغیر فرانس کے پانیوں میں داخل نہیں ہو سکتے اور پناہ گزینوں کو برطانوی قانون کے تحت تحفظ حاصل ہے۔
میری ٹائم قانون کے ماہر پروفیسر اینڈریو سرڈی کے مطابق: ’اگر فرانس ان پناہ گزینوں کو واپس لینے پر رضامند نہیں جو اس کے پانیوں سے نکل آئے ہیں، تو اسے مجبور نہیں کیا جا سکتا۔‘
کسی کشتی کو اسی وقت واپس دھکیلا جا سکتا ہے جب اس پر سوار لوگوں کی زندگیوں کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔ چھوٹی سے کشتی جن میں پناہ گزین سفر کرتے ہیں انھیں محفوظ نہیں قرار دیا جا سکتا۔
Comments are closed.