’مرشد، امریکی سفارتخانہ جل رہا ہے۔۔۔‘ کعبہ کا محاصرہ اور جنرل ضیا کا سائیکل پر راولپنڈی کا دورہ
- مصنف, عمیر سلیمی اور زبیر اعظم
- عہدہ, بی بی سی اردو، اسلام آباد
21 نومبر 1979 کو اسلام آباد میں 32 ایکڑ رقبے پر پھیلے امریکی سفارتخانے کے احاطے میں امریکی آڈیٹر ولیم پٹسچر سوئمنگ پول کے پاس ہاٹ ڈاگ کھا رہے تھے۔ جیسے ہی انھوں نے مشتعل ہجوم کا شور سنا تو اپنا کھانا چھوڑ کر قریب ایک دفتر میں جا کر چھپ گئے۔
صرف ایک دن قبل 20 نومبر کو 400 سے زائد شدت پسندوں نے نئے اسلامی سال کے آغاز پر خانہ کعبہ پر حملہ کیا تھا۔ ایک لاکھ عبادت گزاروں کو مسجد الحرام میں محصور کر کے شدت پسندوں نے اس کا انتظام سنبھال لیا تھا۔
حملہ آوروں کی قیادت کرنے والے جہيمان بن محمد بن سيف العتيبی کا تعلق سعودی علاقے نجد کے ایک بدو قبیلے سے تھا لیکن اس وقت دنیا میں یہ بات معلوم نہیں تھی۔ ایسے میں افواہوں کا بازار گرم تھا کہ کعبہ کے محاصرے کا ذمہ دار کون ہے۔
اس حوالے سے کئی افواہیں اور سازشی نظریات گردش میں تھے جب اگلے ہی دن اسلام آباد میں ایک مشتعل ہجوم نے امریکی سفارتخانے پر دھاوا بول دیا جہاں سفارت کاروں اور امریکی فوجیوں سمیت قریب ڈیڑھ سو افراد کا عملہ کام کرتا تھا۔
’بسوں میں سوار طلبہ امریکی سفارتخانے کی طرف آ رہے ہیں‘
21 نومبر 1979 کی صبح اسلام آباد میں امریکی سفارتخانہ میں سیاسی شعبے کے سربراہ ہربرٹ ہیگرٹی اپنی کار پر دفتر جا رہے تھے جب انھوں نے سرکاری ریڈیو پر سنا کہ ’خانہ کعبہ کے محاصرے پر پورا ملک سوگوار ہے‘ اور مارکیٹوں میں دکانیں بند رہیں گی۔
ہیگرٹی نے کتاب ’سفارتخانوں کے محاصرے‘ میں اس روز سے متعلق اپنی یادداشتوں میں لکھا کہ انھوں نے دن کے آغاز پر ہی محکمۂ خارجہ کو ’امیجیئٹ‘ کیبل بھیجی جس میں پاکستان میں کسی ’امریکہ مخالف سرگرمی‘ کے حوالے سے متنبہ کیا گیا۔
چھ سال قبل اسلام آباد کے ایک کونے میں دیہی علاقوں کے بیچ و بیچ 21 ملین ڈالر کی لاگت سے کلب، سکول اور ہاؤسنگ بلاکس پر مشتمل امریکہ سفارتخانہ تعمیر کیا گیا تھا جسے امریکی میرینز کے ایک چھوٹے دستے کی حفاظت حاصل تھی۔
صبح قریب 11 بجے سفیر اور ڈپٹی چیف آف مشن کے عمارت سے باہر جانے پر ہیگرٹی وہاں سب سے سینیئر افسر بن گئے۔ انھیں قریب واقع آسٹریلوی سفارتخانے کے سفیر نے فون کر کے بتایا کہ قریب پانچ سو نوجوانوں پر مشتمل ایک ہجوم امریکی سفارتخانے کی طرف بڑھ رہا ہے۔
جیسے ہی مظاہرین قریب آئے، ہیگرٹی نے مذاکرات کے لیے باہری دروازے پر ایک اردو بولنے والے افسر ڈیوڈ ویلچ کو بھیجا۔ عموماً مظاہرین سفارتخانے کے عملے کو اپنی درخواست تھما کر منتشر ہو جایا کرتے تھے۔
ویلچ امریکی پالیسیوں پر اعتراضات پر مشتمل ان مطالبات کے ساتھ اندر لوٹے تو ہیگرٹی نے آسٹریلوی سفیر کو فون پر کہا ’مجھے لگتا ہے وہ مطمئن ہو گئے ہیں اور اب آپ کی جانب آ رہے ہیں۔‘
،تصویر کا ذریعہCourtesy Loyd Miller
تاہم آسٹریلوی سفیر نے جواب دیا ’افسوس کے ساتھ آپ کو مایوس کر رہا ہوں۔ (ان کی) بس ہمارے سامنے سے گزرنے کے بعد واپس مڑ گئی ہے اور وہ اب (قائد اعظم) یونیورسٹی سے مزید بسوں کے ساتھ آپ کی جانب بڑھ رہے ہیں۔‘
کتاب ’مکہ کا محاصرہ‘ میں صحافی یاروسلاف ٹرافی موو لکھتے ہیں کہ اس حملے کا آغاز امریکی سفارتخانے کی ایک گاڑی کو آگ لگا کر ہوا جو بدقسمتی سے احتجاج کے دوران عمارت کی جانب آئی تھی جبکہ ممکنہ طور پر پولیس نے ابتدائی تصادم میں آصف نامی ایک طالبعلم کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
ہیگرٹی کو ڈر تھا کہ مظاہرین کعبے کے محاصرے سے جڑی افواہوں کی وجہ سے مشتعل ہوئے ہیں جبکہ امریکی صدر کارٹر نے سفارت کاروں کو یرغمال بنانے پر ایران کو فوجی کارروائی کی دھمکی دے رکھی تھی۔
سفارتخانے میں خفیہ دستاویزات کو جلا دیا گیا
ولیم پٹسچر نے ہجوم کا شور سنا تو اپنا کھانا یعنی وہ ہاٹ ڈاگ وہیں چھوڑا اور ایک قریبی دفتر میں جا کر چھپ گئے لیکن ہجوم میں سے چند لوگ انھیں دیکھ چکے تھے۔ امریکی مصنف سٹیو کول نے اپنی کتاب گوسٹ وارز میں اس واقعے کو تفصیل سے بیان کیا۔
گوسٹ وارز کے مطابق ہجوم نے ولیم کو باہر نکلنے پر محبور کیا اور چند مظاہرین نے زبردستی انھیں ایک گاڑی میں بٹھا لیا اور قریب ہی موجود قائد اعظم یونیورسٹی کے ہاسٹل لے گئے۔ خوش قسمتی سے دن کے اختتام تک ولیم کو کوئی نقصان پہنچائے بغیر ہی چھوڑ دیا گیا لیکن سفارتخانے میں موجود ان کے باقی ساتھی اتنے خوش نصیب نہیں رہے۔
سٹیو کول لکھتے ہیں کہ سفارتخانے کی عمارت کی تیسری منزل پر سی آئی اے کا سٹیشن تھا جہاں ڈپٹی چیف آف سٹیشن باب لیزرڈ کے ساتھ ایک نوجوان سی آئی اے افسر گیری شرون بھی موجود تھا۔ گیری شرون بعد میں پاکستان میں سی آئی اے کے سٹیشن چیف بنے۔
لیکن اس دن اسلام آباد میں ان کو ایک مشکل صورتحال کا سامنا تھا۔ سفارتخانے پر ہجوم کی جانب سے دھاوا بولے جانے کے بعد ان کو یہ فکر لاحق تھی کہ خفیہ دستاویزات کو کیسے بچایا جائے۔
انھوں نے تمام دستاویزات کو جلانے کی تیاری شروع کر دی۔ کھڑکی سے باہر کے مناظر پریشان کن تھے۔ انھیں دکھائی دے رہا تھا کہ سفارتخانے کے گیٹ کے باہر بسوں سے سینکڑوں مظاہرین اتر کر عمارت کے گرد موجود حفاطتی باڑ باآسانی کود کر اندر داخل ہو رہے تھے۔ چند مظاہرین نے رسیوں کے ذریعے دھاتی رکاوٹ کو بھی گرا دیا۔
گوسٹ وارز میں دعویٰ کیا گیا کہ ان مظاہرین میں طلبہ بھی شامل تھے جن میں سے چند اسلحے سے لیس تھے۔ انھی میں سے ایک طالب علم نے سفارتخانے کے گیٹ پر گولی چلائی تو یہ گولی لوہے کی وجہ سے پلٹ کر مظاہرین میں سے کسی کو لگی۔
سٹیو کول لکھتے ہیں کہ ہجوم میں یہ تاثر پھیلا کہ سفارتخانے کی چھت پر موجود امریکی فوجیوں نے گولی چلائی ہے لیکن سفارت خانے میں صرف چھ میرین گارڈ تھے جن میں سے چھت پر موجود دو کو حکم تھا کہ وہ صرف اپنی جان بچانے کے لیے ہی گولی چلا سکتے ہیں۔
سفارت خانے کے اندر تھوڑی ہی دیر میں آواز گونجی کہ انھوں نے ایک میرین کو گولی مار دی ہے۔ ہجوم کی جانب سے گولی چلی جو چھت پر موجود بائیس سالہ کارپورل سٹیفن کرولی کو لگی اور ان کا خون تیزی سے بہنے لگا۔
سی آئی اے افسران نے فرسٹ ایڈ کٹ اٹھائی اور چھت کی جانب دوڑے جہاں انھوں نے سٹیفن کرولی کو زخمی حالت میں پایا۔
،تصویر کا ذریعہFACEBOOK
جنرل ضیا راولپنڈی میں سائیکل پر دورہ کرنے میں مصروف
سفارت خانے کے ایمرجنسی پروٹوکول کے مطابق تمام عملے کو ایسی صورت حال میں ہدایت تھی کہ وہ کمیونیکیشن والٹ میں پناہ لیں جس میں مضبوط سٹیل کے دروازے تھے۔ عملے کو ہدایت تھی کہ وہ پناہ لینے کے بعد پاکستانی پولیس یا قانون نافذ کرنے والے حکام کا انتظار کریں۔
اب دوپہر کا ایک بج چکا تھا اور ہجوم کو عمارت میں داخل ہوئے ایک گھنٹہ بیت چکا تھا۔ چند ہفتوں قبل ذرائع سے اسی آئی اے سٹیشن چیف کو اطلاع ملی تھی کہ ایران میں امریکی سفارت خانے میں عملے کے چند افراد کو یرغمال بنائے جانے کے واقعے پر قائد اعظم یونیورسٹی کے طلبہ اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کے باہر احتجاج کر سکتے ہیں۔
اس اطلاع کے بعد امریکی سفیر آرتھر ہمل نے حکام سے درخواست کی تھی کہ سفارت خانے کے باہر مزید نفری تعینات کی جائے اور تقریباً دو درجن مزید اہلکار تعینات کردیے گئے تھے۔
دوسری طرف اس روز پاکستان کے فوجی صدر اور آرمی چیف جنرل ضیا الحق نے راولپنڈی میں سائیکل پر سواری کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔ سٹیو کول کے مطابق جب سفارت خانے سے مدد کے لیے فون کیا گیا تو فوجی قیادت کی اکثریت دستیاب ہی نہیں تھی اور اس کی وجہ سادگی کو فروغ دینے کی ایک مہم تھی۔
کتاب ’مکہ کا محاصرہ‘ کے مطابق جنرل ضیا پہلے ایک اوپن جیپ پر پنڈی کی گلیوں کا دورہ کرتے رہے، پھر سائیکل چلانے لگے جس دوران ان کے روٹ پر تعینات خواتین پھول کی پتیاں پھینک رہی تھیں۔ جب جب جنرل ضیا رُکتے، ان کے مشیر لوگوں میں چاولوں کے تھیلے، نقد رقوم اور قرآن کے نسخے تقسیم کرتے۔
صحافی یاروسلاف ٹرافی موو لکھتے ہیں کہ امریکی حکام بڑی دیر سے ضیا سے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے تاکہ معاملے میں مداخلت کی جاسکے۔ مظاہرین سے بچنے کے لیے سفارتخانے کے والٹ میں بند سینیئر افسر ہیگرٹی، سفیر آرتھر ہمل سے ریڈیو پر مسلسل رابطے میں تھے جو سفارتخانے کے قریب اپنے گھر سے پاکستانی وزارت خارجہ، پولیس اور فوج کو بار بار فون ملا رہے تھے۔
مگر یاروسلاف ٹرافی موو کے مطابق ’جونیئر پاکستانی حکام نے کوئی اقدام نہ کیا اور ضیا فون نہیں اٹھا رہے تھے۔ صدر جمی کارٹر، جنھیں سیکریٹری خارجہ سائرس وانس نے صبح سویرے فون کر کے جگایا، بھی پہلی بار میں پاکستانی رہنما کے ساتھ رابطہ قائم نہ کر سکے تھے۔‘
’اسلام آباد کے کئی امریکی سفارتکاروں نے بعد میں ضیا پر الزام لگایا کہ انھوں نے جان بوجھ کر اپنے حمایتی شدت پسندوں کو منشتر نہیں کیا اور سفارتخانے کو جلنے دیا۔‘
پاکستانی فوج اور پولیس کے دستے پورے دن ڈپلومیٹک ایریا میں آتے رہے مگر اگلی صبح اخبار ڈان کی ایک رپورٹ میں عینی شاہدین کے حوالے سے لکھا گیا کہ وہ ’خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے۔‘
لیفٹیننٹ جنرل فیض علی چشتی نے اپنی کتاب بیٹریلئلز آف انیدر کائینڈ (Betrayals of another kind) میں لکھا ہے کہ ماتحتوں کے مشورے پر جنرل ضیا نے سائیکل پر پنڈی کے دورے کا فیصلہ کیا کیونکہ ان کی کمزوری تھی کہ وہ کسی بھی ایسی چیز سے انکار نہیں کرتے تھے جو ان کی نام نہاد مقبولیت بڑھا سکے۔ ’21 نومبر برا دن ثابت ہوا۔ (کعبہ کے محاصرے کی خبروں پر) ضیا سے پروگرام کینسل کرنے کا کہا گیا مگر انھوں نے عوام کے جذبات کا فائدہ اٹھانے کا سوچا۔‘
جنرل چشتی کے مطابق وارث خان چوک پر عام لوگوں سے بات چیت کے دوران ضیا الحق نے جان بوجھ کر یا بے دھیانی میں کعبہ کے محاصرے میں امریکہ کے ملوث ہونے کی افواہوں کا حوالہ دے دیا۔ ’جنرل ضیا کی گفتگو سننے کے بعد مشتعل لوگ اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کی طرف بڑھنے لگے تھے۔‘
جنرل چشتی، جو ضیا کی کابینہ میں پیٹرولیم کے وزیر تھے، اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ دن قریب تین بجے ’مجھے اپنی رہائش گاہ پر جنرل ضیا کا فون آیا: مرشد، امریکی سفارت خانہ جل رہا ہے۔ صورتحال بہت خراب ہے. ہجوم کسی امریکی سفارت کار کو بچانے نہیں دے رہا۔‘
’تمام سفارت کار دم گھٹنے سے مر جائیں گے یا جل جائیں گے۔ براہ کرم چارج لیں اور کچھ کریں۔‘
سٹیو کول لکھتے ہیں کہ چار بجے کے قریب ایک فوجی ہیلی کاپٹر سفارت خانے کی عمارت کے اوپر نمودار ہوا لیکن چند ہی لمحوں بعد غائب ہو گیا۔ سٹیو کول کے مطابق پاکستان کی حکومت نے دعویٰ کیا کہ عمارت کے اوپر دھویں کے بادل اتنے گھنے تھے کہ ہیلی کاپٹر میں موجود عملہ کچھ دیکھ ہی نہیں پایا۔
یاروسلاف ٹرافی موو کے مطابق پاکستانی فوج کا یہ ہیلی کاپٹر سفارتخانے کے اوپر اُڑان بھر رہا تھا اور ہیگرٹی سمیت دیگر حکام کو لگا تھا کہ یہ ان کی مدد کو آن پہنچا ہے۔
مگر پاکستانی پائلٹ نے ’نیچے صورتحال دیکھ کر اپنا رُخ موڑ لیا۔ مظاہرین اس پر خوش ہوئے۔۔۔ اندر پھنسے امریکیوں کو لگا کہ شاید آج وہ زندہ نہ بچ پائیں۔‘
تقریباً دو بجے عملے میں شامل ایک سو چالیس افراد، جن میں پاکستانی بھی شامل تھے، خود کو پھنسا ہوا محسوس کر رہے تھے۔ ایک نوجوان اہلکار واشنگٹن کو حملے کی اطلاع دینے کے لیے پیغام تحریر کر رہا تھا جبکہ باقی عملہ خفیہ دستاویزات کو تباہ کرنے میں مصروف تھے۔
جیسے ہی مظاہرین نے کھڑکیوں کو توڑنا اور عمارت کو آگ لگانا شروع کیا، باقی عملے نے بھی والٹ میں پناہ لے لی جن میں ٹائم میگزین کی ایک رپورٹر مارسیا گوگر بھی شامل تھیں۔ بدقسمتی سے انھیں اسی روز کچھ معلومات تک رسائی کے لیے ایک امریکی سفارتکار سے ملنا تھا۔
دوپہر کے بعد مظاہرین کی تعداد بڑھ چکی تھی اور وہ سفارتخانے کے کمپاؤنڈ کے ہر حصے میں پھیل چکے تھے۔ انھوں نے دفتروں کو آگ لگا دی اور پوری عمارت میں آگ کے شعلے بھڑک اٹھے۔
اسی دوران مظاہرین عمارت کی چھت پر چڑھ گئے۔ عملے نے بعد میں میڈیا کو دیے بیانات میں بتایا کہ مظاہرین وینٹیلیشن شافٹ سے نیچے کی طرف گولیاں برسا رہے تھے۔
کمیونیکیشن والٹ کے بالکل نیچے ہی بجٹ اور فنانس کا دفتر فائلوں اور کاغذات سے بھرا ہوا تھا۔ جب یہاں آگ لگی تو اوپر کمیونیکیشن والٹ گرم ہونا شروع ہو گیا۔ سٹیل کا دروازہ بھی آگ کے دباؤ سے متاثر ہوا اور یہ تشویش بڑھ گئی کہ یہ دروازہ کسی بھی وقت ٹوٹ سکتا ہے۔
اب تک میرین فوجی بھی باقی عملے کے ساتھ تیسری منزل پر موجود والٹ میں پناہ لے چکے تھے۔ عمارت کے باہر موجود گاڑیوں کو بھی نظر آتش کر دیا گیا اور اندازے کے مطابق تقریبا ساٹھ گاڑیاں جل کر راکھ ہو گئیں۔
سٹیو کول کے مطابق اگرچہ دھویں کے بادل اب میلوں دور سے دیکھے جا سکتے تھے تاہم امریکی سفیر ہمل اور سی آئی اے سٹیشن چیف جان ریگن کی جانب سے متعدد بار مدد کی درخواست کے باوجود کوئی حکومتی اہلکار بروقت نہیں پہنچ سکا۔
،تصویر کا ذریعہAFP
ریسکیو آپریشن
شام کو بالآخر قریب ساڑھے پانچ گھنٹے بعد جنرل ضیا نے پاکستانی فوج کے دستوں کو سفارتخانے میں پھنسے افراد کی مدد کا حکم دیا اور ریسکیو آپریشن شروع ہوا۔
ہیگرٹی یاد کرتے ہیں کہ امریکی میرینز کے کارپورل کرولی، جنھیں چہرے پر گولی لگی تھی، نے دم توڑ دیا تھا مگر یہ خبر انھوں نے اپنے تک رکھی۔ ان سے دوسری منزل سے بذریعہ ایمبیسی فون تین پاکستانی ملازمین اور ایک ہسپانوی ملازم نے فون پر رابطہ کیا جو دھویں میں سانس نہیں لے پا رہے تھے۔
انھوں نے ان لوگوں کو ’کھڑکیوں سے باہر کود کر اپنی جان بچانے کا کہا۔ چاروں نے شلوار قمیض پہن رکھی تھی، اس لیے لوگ انھیں مظاہرین سمجھ کر نوٹس نہ کر پاتے تاہم دو پاکستانیوں نے ایسا نہ کیا اور ان کی موت دھویں میں سانس نہ لے پانے کی وجہ سے ہوئی۔‘
عمارت میں کئی لوگ آگ کے دھویں میں گیلے تولیوں کے ذریعے سانس لے پا رہے تھے۔ اگر وہ والٹ میں زیادہ دیر موجود رہتے تو درجہ حرارت بڑھنے سے ان کی موت ہوجاتی۔
جان بچانے کے لیے ماسٹر سارجنٹ ملر اور دیگر امریکی، ایک پاکستانی ملازم، چھت کی طرف بھاگے۔ اس وقت تک تاریکی چھا چکی تھی جبکہ کینیڈا کے سفارت کار ریڈیو پر بتا چکے تھے کہ مظاہرین کی تعداد کم ہوگئی ہے۔ ایک، ایک کر کے تمام لوگوں کو باہر لایا گیا۔
گوسٹ وارز کے مطابق میرینز نے سائیکلوں کی مدد سے ایک سیڑھی بنائی، پھر تمام لوگوں کو والٹ سے باحفاظت باہر نکالا۔ ’فوجی دستے عمارت کے اندر آ چکے تھے، مگر اکثر صرف دیکھ رہے تھے۔‘
ریسکیو آپریشن کے بعد عملے کو معلوم ہوا تھا کہ مظاہرین نے کرولی کے علاوہ ایک اور امریکی فوجی کا قتل کیا ہے۔ وارنٹ افسر برائن ایلس اس دن چھٹی پر تھے اور اپنے فلیٹ میں سو رہے تھے جب مظاہرین نے انھیں ہلاک کیا اور پھر لاش کو آگ لگا دی۔
اس حملے میں مجموعی طور پر دو امریکی فوجی اور سفارتخانے کے دو پاکستانی ملازمین ہلاک ہوئے جبکہ مرنے والے مظاہرین کی تعداد دو بتائی گئی۔
یونیورسٹی کے طلبہ نے ولیم پٹسچر کو بے قصور تسلیم کر کے دیر رات کو رہا کر دیا۔ وہ خود ہی پیدل چلتے ہوئے واپس سفارتخانے تک پہنچ گئے۔
ہیگرٹی یاد کرتے ہیں کہ جب یہ سب ہونے کے بعد وہ ڈپلومیٹک ایریا میں اپنے گھر پہنچے تو ان کے نوجوان بیٹے ڈیون دروازے کے پیچھے بیس بال بیٹ لیے سہمے کھڑے تھے۔
،تصویر کا ذریعہUS EMBASSY, ISLAMABAD
اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کی طرف سے جاری کردہ ایک نوٹ
وہ پاکستانی شخص جس نے امریکی سفارتخانے میں کئی جانیں بچائیں
کتاب ’مکہ کا محاصرہ‘ کے مطابق سفارتخانے کے حملے کو امید تھی کہ واشنگٹن یہ معاملہ پاکستانی حکومت کے ساتھ اٹھائے گا مگر وہ حیران ہوئے جب صدر کارٹر اور وزیر خارجہ وانس نے جنرل ضیا کے اقدامات کو سراہا۔
سابق امریکی صدر کارٹر نے اپنی یادداشتوں میں لکھا کہ ’صدر محمد ضیا نے فوراً ہمارے لوگوں اور املاک کی حفاظت کے لیے پاکستانی دستے بھیجے۔ انھوں نے مجھ سے ذاتی طور پر اور امریکی لوگوں سے معذرت کی اور اصرار کیا کہ حکومت تمام نقصان کا ازالہ کرے گی۔‘
تاہم ہیگرٹی نے اپنی یادداشتوں میں لکھا کہ ’ہمیں اس پر بہت غصہ آیا لیکن ہم پروفیشنلز تھے۔‘
جنرل چشتی کے مطابق قوم نے امریکی سفارتخانے کی تعمیر نو کے لیے 250 ملین روپے کا جرمانہ ادا کیا ’صرف اس لیے تاکہ ملک کا سربراہ سائیکل چلا کر سادگی کا پرچار کر سکے اور کعبہ کے محاصرے پر غیر ذمہ دارانہ بیان دے سکے۔‘
اس روز پاکستان کے سرکاری ریڈیو کی نشریات کے دوران کہا گیا کہ ’لوگ جذباتی تھے اور انھیں قابو کرنا مشکل تھا۔‘
متعدد میڈیا رپورٹس میں اس بات کی طرف نشاندہی کی گئی کہ یہ حملہ ایرانی رہنما آیت اللہ خمینی کے اس بیان کے بعد ہوا جس میں انھوں نے کعبہ کے محاصرے کا الزام امریکہ پر عائد پر کیا تھا۔
کتاب ’مکہ کا محاصرہ‘ میں صحافی یاروسلاف ٹرافی کے مطابق 22 نومبر کو ایرانی ٹی وی پر خمینی حج پر جانے والے درجنوں پاکستانی افسران سے ملتے نظر آئے جنھوں نے راستے میں ایران میں قیام کر رکھا تھا۔ ان سے خطاب میں خمینی نے امریکی سفارتخانے کی تباہی پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا ’پورا پاکستان امریکہ کے خلاف کھڑا ہوچکا ہے۔‘
سنہ 2019 کے دوران اسلام آباد میں امریکی سفارتکار ڈیوڈ ہیل نے سفارتخانے کے اس پاکستانی اہلکار کو خراج تحسین پیش کیا جنھوں نے 21 نومبر 1979 کو 100 سے زیادہ لوگوں کی جان بچائی تھی۔
انھوں نے کہا کہ جب ہجوم توڑ پھوڑ اور آتشزنی کر رہا تھا تو اس وقت محمد راشد عمات میں شدید گرمی اور دھویں کے باوجود تہہ خانے میں رہے تاکہ جنریٹر کو آپریٹ کر سکیں۔
’عمارت کا وینٹیلیشن سسٹم اسی جنریٹر سے چل رہا تھا جس کی بدولت سفارتخانے کے کمیونیکیشن والٹ میں لوگ سانس لے پا رہے تھے۔‘
مگر اس پورے واقعے کی سب سے دلچسپ بات جنرل چشتی کے بقول، یہ تھی کہ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل اختر عبدالرحمان نے جنرل ضیا کو بتایا کہ وہ اپنے دو تین ساتھیوں کے ساتھ خود امریکی سفارت خانے گئے تھے اور ’سویلین لباس میں انٹیلیجنس اہلکاروں نے تمام سفارت کاروں کو وینٹی لیٹرز سے نکال کر بچایا۔‘
Comments are closed.