گزشتہ روز انتقال کر جانے والے سینئر صحافی اور ماہرِ افغان امور رحیم اللّٰہ یوسف زئی کو خیبر پختون خوا کے ضلع مردان میں نمازِ جنازہ کے بعد آبائی قبرستان میں سپردِ خاک کر دیا گیا۔
رحیم اللّٰہ یوسف زئی کی نمازِ جنازہ مردان میں انذرگئی کاٹلنگ کے علاقے خان ضمیر بانڈہ میں ادا کی گئی۔
نمازِ جنازہ کے بعد سینئر صحافی رحیم اللّٰہ یوسف زئی کی تدفین خان ضمیر بانڈہ میں واقع ان کے آبائی قبرستان میں کر دی گئی۔
واضح رہے کہ پاکستان کے قومی ایوارڈ یافتہ نامور صحافی، دی نیوز انٹرنیشنل پشاور کے بیور چیف، کالم نگار، دفاعی تجزیہ نگار، ایشیائی سیاست اور افغان امور کے ماہر رحیم اللّٰہ یوسف زئی علالت کے باعث گزشتہ روز انتقال کر گئے تھے۔
انتقال کے وقت ان کی عمر 66 برس تھی اور وہ طویل عرصے سے صاحبِ فراش تھے۔
وزیرِ اعظم عمران خان، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، وزیرِ اعلیٰ خیبر پختون خوا محمود خان، گورنر شاہ فرمان، وفاقی وزیرِ داخلہ شیخ رشید، جماعتِ اسلامی کے امیر سراج الحق، عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی خان، جمعیت علمائے اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمٰن، قومی وطن پارٹی کے چیئرمین آفتاب احمد خان شیر پاؤ اور پی ایف یو جے نے رحیم اللّٰہ یوسف زئی کی وفات پر انتہائی دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے مرحوم کی مغفرت اور بلندی درجات کی دعا کی ہے۔
رحیم اللّٰہ یوسف زئی 10 ستمبر 1954ء کو پیدا ہوئے، انہوں نے 80ء کی دہائی میں اپنے صحافتی سفر کا آغاز کیا، وہ روزنامہ ’جنگ‘ کے لیے بطور کالم نگار کام کرتے رہے، اس سے پہلے انہوں نے ٹائم میگزین کے لیے بھی کام کیا، جبکہ وہ بی بی سی اردو اور بی بی سی پشتو کے نمائندے بھی رہے۔
انہیں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن اور ملا عمر کے انٹرویوز کی وجہ سے کافی شہرت ملی۔
رحیم اللّٰہ یوسف زئی ان چند صحافیوں میں سے ہیں جنہوں نے طالبان کی کارروائیوں کو رپورٹ کیا اور 1995ء میں خود قندھار گئے۔
مرحوم کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان نے انہیں 2004ء میں تمغۂ امتیاز اور 2009ء میں ستارۂ امتیاز سے نوازا۔
رحیم اللّٰہ یوسف زئی گزشتہ 2 سال سے علیل تھے، جمعرات کی شام طبیعت بگڑنے پر انہیں اسپتال پہنچایا گیا مگر ان کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔
Comments are closed.