مراکش: کس طرح شاہ نے ’عرب سپرنگ‘ کے بعد مذہبی سیاسی جماعتوں کا راستہ کس طرح روکا؟
- مجدی عبدالہادی
- شمالی افریقہ کے تجزیہ کار
شاہ محمد VI نے آئینی تبدیلیاں کر کے عرب سپرنگ کا مقابلہ کیا
مراکش میں ہونے والے حالیہ انتخابات میں وہاں کی برسرِ اقتدار اسلام پسند پارٹی کو حیران کن شکست ہوئی ہے۔
خطے اور مشرقِ وسطیٰ میں انتخابات کے ذریعے اقتدار میں آنے والی پہلی مذہی سیاسی جماعت، ڈویلپمنٹ اینڈ جسٹس پارٹی (پی جے ڈی)، کے ووٹ میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی اور اس کی نشستیں 125 سے کم ہو کر صرف 12 رہ گئی ہیں۔
سنہ 2011 میں مراکش میں واقعی بہت سے لوگ سمجھتے تھے کہ نئی صبح طلوع ہو چکی ہے۔
اور اس دوران وقت بھی پی جے ڈی کے ساتھ تھا۔
تیونس میں شروع ہونے والے مظاہرے زوروں پر تھے جو بعد میں عرب سپرنگ کے نام سے مشہور ہوئے۔ اسی سال تیونس کے زین العابدین بن علی، مصر کے حسنی مبارک اور لیبیا کے معمر قذافی کی حکومتوں کے تختے الٹے گئے۔ جیسا کہ بہت سے لوگوں کو امید تھی کہ اسلامی جماعتیں مصر اور تیونس میں انتخابات جیت کر تاریخ بدل دیں گی۔
مراکش کے شاہ محمد VI نے جب دیکھا کہ تبدیلی کی ہوا تیز چل رہی ہے تو وہ فوری طور پر ملک میں ایسی تبدیلیاں لائے جن سے ان کے تاج کو کوئی خطرہ نہ ہو۔
عرب سپرنگ کے دوران مراکش میں بھی مظاہرین تبدیلیوں کا مطالبہ کر رہے تھے
انھوں نے کابینہ کو برطرف کیا اور پارلیمان کو تحلیل۔ بڑھتے ہوئے احتجاج کو دیکھتے ہوئے انھوں نے مراکش کو ایک نئی راہ پر ڈالنے کی ٹھانی اور ایک نئے آئین کے مسودے کا اعلان کیا۔
’کاسمیٹک تبدیلیاں‘
بعد میں اسے 98.5 فیصد ووٹوں سے منظور کیا گیا، جسے ایک گیم چینجر کہا گیا، اور بادشاہ کو ایک ایسے مطلق العنان آمر کے طور پر دیکھا گیا جو لوگوں کے ساتھ طاقت بانٹنے کے لیے آمادہ بھی ہے۔
لیکن 20 فروری تک ’موومنٹ فار چینج‘ نے بادشاہ کی اصلاحات کے وعدے کو برائے نام تبدیلیاں کہہ کر مسترد کر دیا۔ عرب سپرنگ کے دوران ’موومنٹ فار چینج‘ نے مراکش میں مظاہروں کا اہتمام کیا تھا۔
پی جے ڈی نے شمالی افریقہ میں نومبر 2011 کو انتخابات جیت کر نئی تاریخ رقم کی تھی
یہ تحریک مراکش کو آئینی بادشاہت میں تبدیل کرنے کے لیے ایسی ریڈیکل اصلاحات کا مطالبہ کرتے ہوئے لوگوں کو سڑکوں پر لائی تھی جن میں یہ شامل تھا کہ بادشاہ کا ’راج تو ہو لیکن حکومت نہیں۔‘ تقریباً اسی طرح کی جیسی برطانیہ اور سکینڈینیویا میں یورپی بادشاہتیں ہیں، بس ایک علامت کے طور پر۔
حقیقت میں بادشاہ نے نئے آئین میں وہ تقریباً تمام اختیارات اپنے پاس رکھے جو ماضی میں بھی ان کے پاس تھے۔ خارجہ، دفاعی اور سیکورٹی پالیسی کا کنٹرول انھیں کے پاس رہا۔
انھوں نے قوم کے روحانی پیشوا کی حیثیت سے بھی اپنا مقام برقرار رکھا۔ وہ سرکاری طور پر ’کمانڈر آف دی فیتھ فل‘ یعنی مسلمانوں کے کمانڈر ہیں، اور یہ ایک ایسا تاریخی عہدہ ہے جس کی آج کل کہیں اور مثال نہیں ملتی۔ اس کی بنیاد وہ دعویٰ ہے کہ ان کا خاندان پیغمبرِ اسلام کی براہ راست آل میں سے ہے۔
تاہم، نئے آئین نے پی جے ڈی سمیت سیاسی طبقے کے کچھ حصوں کے لیے ایک نئے آغاز کا وعدہ ضرور کیا۔
پارٹی نے موقع کا فائدہ اٹھایا اور پرانی سیاسی جماعتوں کے ساتھ وسیع پیمانے پر عدم اطمینان کی لہر میں شامل ہو گئی۔
اور بادشاہ اور ان کے درباریوں نے ہچکچاتے ہوئے اسلام پسندوں کو برداشت کیا اور ان کے عروج کو نہیں روکا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنی طاقت کے دائرے کو بھی برقرار رکھا۔
سنہ 2016 میں پی جے ڈی نے انتخابات میں اپنے ووٹ کا حصہ مزید بڑھایا اور 125 نشستیں حاصل کر کے مزید پانچ سال تک اقتدار اپنے نام کیا۔
زہر کا پیالہ
اگرچہ تقریباً ہر کوئی یہ توقع کر رہا تھا کہ پارٹی پچھلے ہفتے ہونے والے انتخابات میں کم ووٹ لے گی، لیکن کسی کو بھی اس کا رتی بھر گمان نہیں تھا کہ اتنی بری شکست ہو گی۔ اتنی بری کہ پارٹی کے رہنما اور ان کے نائب بھی اپنی نشستیں جیت نہیں سکیں گے۔ شکست کے باعث وہ فوری طور پر مستعفی ہو گئے۔
شاید یہ قبل از وقت ہو گا کہ اس ڈرامائی زوال کی وجوہات کو مکمل طور پر سمجھا جائے۔ لیکن مبصرین اس بات پر متفق ہیں کہ پی جے ڈی اپنے انتخابی وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے۔
اساتذہ نے اپنے معاہدوں میں تبدیلی کو عوامی تعلیم کے نظام کو ختم کرنے کی پہلی کوشش کے دور پر دیکھا
وہ کہتے ہیں کہ وہ پارٹی جس کے نام میں ہی انصاف اور ترقی شامل ہو، یہ دونوں چیزیں دینے میں ناکام رہی ہے۔
مثال کے طور پر پارٹی نے مراکش کے زیادہ باشندوں کو غربت سے نکالنے کا وعدہ کیا، عوامی تعلیم اور صحت کو بہتر بنانے کی بات کی، لیکن وہ ایسا کرنے میں ناکام رہی۔ اس کے برعکس امیر اور غریب کے درمیان فرق وسیع سے وسیع تر ہوتا گیا۔
مزید براں پارٹی نے اپنے مضبوط ووٹروں کو اپنے سے اس وقت دور کیا جب اس نے اساتذہ کے لیے دو سالہ معاہدوں کو متعارف کرانے والے ایک متنازعہ قانون کی توثیق کی اور ان کی نوکریوں کو خطرے میں ڈال دیا۔ کچھ لوگ اسے تعلیمی نظام کی نجکاری کا پہلا قدم سمجھتے ہیں۔
تعلیم میں فرانسیسی زبان کی حیثیت کے سوال پر بھی پارٹی ناکام رہی اور سکولوں میں سائنس کی تعلیم کو فرانسیسی زبان میں پڑھانے کا قانون بننے کو نہ روک سکی۔ اگرچہ یہ اس جماعت کے لیے خاص طور پر ایک حساس موضوع تھا جو اپنے آپ کو سابقہ فرانسیسی کالونی میں عرب اسلامی شناخت کی چیمپیئن سمجھتی ہے۔
یہ بھی پڑھیئے
عرب سپرنگ: 10 برسوں میں 10 انتہائی اہم لمحات
پارٹی کے ناقدین کا کہنا ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد یہ شاہ سے زیادہ شاہ کی وفادار بن گئی تھی۔
کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ پارٹی کی سب سے بڑی غلطی طاقت کے بغیر حکومت کی ذمہ داری لینا تھی، اصل طاقت دراصل بادشاہ کے پاس تھی۔
یہ زہر کے پیالے کی طرح تھا۔
الیکشن کی پہیلی؟
علاقائی طور پر، جماعت کی ناکامی کی خبروں پر خوشیاں منائی جا رہی ہیں۔
مصر اور خلیج میں جماعت کو اخوان المسلمون کے مراکشی ورژن کے طور پر دیکھا جاتا ہے، ایک قومی اور بین الاقوامی سیاسی مذہبی تحریک جسے کچھ ممالک میں ’دہشت گرد‘ قرار دیا گیا ہے۔
ارب پتی عزیز اخنوش مراکش کے نئے وزیرِ اعظم بننے والے ہیں
مبصرین سمجھتے ہیں کہ پی جے ڈی کی شکست دراصل سیاسی اسلام کے کفن میں آخری کیل ہے۔
مراکش میں یہ بحث کرنا درست ہے کہ پی جے ڈی کو غیر اہم بنانے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ مخزن (مراکش میں شاہ اور طاقتور درباریوں اور سکیورٹی ایجنسیوں کے لیے استعمال ہونے والی اصطلاح) عرب سپرنگ کے طوفان اور اس کے فوراً بعد کے موسم سے مکمل طور پر نکل آیا ہے۔
لیکن حقیقی طور پر نمائندہ اور عوام کو جوابدہ حکومت کی تلاش یا بادشاہ کے اختیارات کو پابند بنانے کی خواہش کی وجہ سے پیدا ہونے والی کشیدگی ابھی دور نہیں ہوئی ہے۔
نئی حکومت بنانے کے لیے بادشاہ کی طرف سے نامزد کردہ نیشنل ریلی آف انڈیپنڈنٹس (آر این آئی) کے ارب پتی رہنما عزیز اخنوش نے کہا ہے کہ ان کی حکومت بادشاہ کی حکمت عملی پر عمل درآمد کے لیے کام کرے گی۔ واضح رہے کہ آر این آئی نے انتخابات میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہیں۔
ان کے اس بیان کے متعلق سینیئر مراکشی صحافی حامد الماحدئیو نے لکھا کہ پچھلے تمام نومنتخب وزرائے اعظم نے بھی یہ کچھ کہا تھا۔
وہ پوچھتے ہیں کہ انتخابات کا پھر کیا مقصد تھا اور کیا ’ووٹنگ اور سارا انتخاب ایک دھوکہ تھا۔‘
Comments are closed.