وہ استانی جس نے مراکش کے زلزلے میں اپنی کلاس کے تمام 32 طلبہ کھو دیے
- مصنف, یاسمین فراغ
- عہدہ, بی بی سی نیوز
مراکش میں ایک ہفتہ قبل آنے والے 6.8 شدت زلزلے کے جھٹکے محسوس کرتے ہی ایک اُستانی کو سب سے پہلے اپنے ننھے منے طلبہ کا خیال آیا کہ نہ جانے اس ناگہانی آفت میں اُن پر کیا گزری۔
نسرین ابو الفدیل مراکش میں ہی تھی، لیکن اداسیل، وہ پہاڑی قصبہ جہاں اُن کا سکول بھی تھا اور اُن کے طلبہ کا گھر بھی، یہ مقام زلزلے کے مرکز کے بہت قریب تھا۔
عربی اور فرانسیسی زبان کی اُستانی اداسیل واپس آئیں اور اپنے طلبہ کو ڈھونڈنے نکلیں۔
مگر وہ جان کر غم سے نڈھال ہو گئیں کہ اُن کے وہ تمام 32 طلبہ جن کی عُمریں چھ سے 12 سال کے درمیان تھیں سب کے سب اس قدرتی آفت میں مر چکے تھے۔
الفدیل نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’میں اداسیل پہنچی اور اپنے بچوں کے بارے میں اُن کے رشتے داروں اور جاننے والوں سے پوچھنے لگی ’سومیا کہاں ہے؟ یوسف کہاں ہے؟ یہ لڑکی کہاں ہے؟ وہ لڑکا کہاں ہے؟‘ مگر کئی گھنٹوں بعد جواب ملا: ’وہ سب مر چکے ہیں۔‘
الفدیل نے کہا ’میں نے اپنے ذہن میں اپنے طلبہ کی حاضری لگانے کا سوچا ایک کے بعد ایک نام لیا اور ان کے نام پر ایک ایک کر کے لکیر کھینچتی چلی گئی حتیٰ کہ 32 ناموں کی یہ فہرست ختم ہو گئی، اب اُن میں سے کوئی بھی میری کلاس میں نہیں رہا وہ سب کے سب مر چکے ہیں۔‘
وہ 8 ستمبر کی شام کو مراکش میں ریکارڈ کیے گئے اب تک کے شدید ترین زلزلے میں ہلاک ہونے والے تقریباً 3,000 لوگوں میں شامل تھے۔
مراکش کے جنوبی علاقے اس زلزلے میں سب سے زیادہ متاثر ہوئے، پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے یہاں موجود متعدد دیہات مکمل طور پر تباہ ہو چُکے ہیں، اور اداسیل بھی انھیں میں سے ایک تھا۔
الفدیل نے بی بی سی کو بتایا کے انھوں نے چھ برس کی خدیجہ کے بارے میں کیا سُنا، کہ اُن کے ساتھ کیا ہوا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’امدادی کارکنوں کو خدیجہ کی لاش ان کے بھائی محمد اور ان کی دو بہنوں مینا اور حنان کے پاس سے ہی ملی۔ جب زلزلہ آیا تو وہ سب کے سب شاید اپنے بستر پر سوئے ہوئے تھے۔ اور یہ سب بچے نسرین کے سکول میں ہی پڑھتے تھے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’خدیجہ میری پسندیدہ سٹوڈنٹ تھیں۔ وہ بہت اچھی، ہوشیار، محنتی اور گانا گانے کی شوقین تھیں۔ وہ اکثر میرے گھر آتیں، مجھے انھیں پڑھانا اور اُن سے باتیں کرنا اچھا لگتا تھا۔‘
الفدیل نے اپنے طلبہ کو ’فرشتہ صفت‘ اور قابل احترام بچوں کے طور پر بیان کیا جو سیکھنے کے شوقین تھے۔ غربت اور دیگر معاشی مسائل سے لڑنے کے باوجود ان بچوں اور اُن کے والدین نے سکول جانے کو ہمیشہ ترجیح دی اور اسے ’دُنیا کا سب سے اہم اور قیمتی عمل قرار دیا۔‘
الفدیل نے کہا کہ ’ہماری آخری کلاس جمعہ کو زلزلہ آنے سے ٹھیک پانچ گھنٹے پہلے تھی۔‘
وہ کہتی ہیں ’ہم مراکش کا قومی ترانہ سیکھ رہے تھے، اور پیر کی صبح پورے سکول کے سامنے اسے گانے کی منصوبہ بندی بھی کر رہے تھے۔‘
پرسکون آواز کے باوجود، الفدیل شدید صدمے کی حالت میں تھیں۔ وہ اب بھی اس صدمے سے نمٹنے کی کوشش میں تھیں کہ اُن کے طلبا اور اُن کے سکول کے ساتھ کیا ہوا۔
اُنھوں نے کہا کہ ’مجھے رات بھر نیند نہیں آتی، میں اب بھی شدید صدمے میں ہوں۔‘
الفدیل کہتی ہیں کہ ’لوگ مجھے خوش نصیبوں میں سے ایک سمجھتے ہیں کہ میری جان بچ گئی، لیکن میں نہیں جانتی کہ اس سب کے بعد میں اپنی زندگی کیسے گزاروں گی۔‘
الفدیل کو ’امازی‘ کی آبادی والے گاؤں میں بچوں کو عربی اور فرانسیسی پڑھانا پسند تھا، جو بنیادی طور پر اپنی زبان تمازائٹ بولتے ہیں۔ (’امازی‘ شمالی افریقہ کہ وہ مقامی قبائل یا لوگ جو اپنے علاقوں میں اپنی مادری زبان تمازائٹ بولتے ہیں، اس قبلیے کے لوگ دُنیا کے سات سے زائد بڑے اور ترقی یافتہ مُمالک میں موجود ہیں)
الفدیل اپنے طلبہ کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’عربی اور فرانسیسی دونوں زبانیں سیکھنا بہت مشکل تھا، لیکن میرے بچے (سٹوڈنٹس) بہت ذہین تھے، اور وہ دونوں زبانیں روانی سے بولنے اور سمجھنے لگے تھے۔‘
وہ اب بھی درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ رہنا چاہتی ہیں، اور امید کرتی ہیں کہ حکام اداسیل کے سکول کو دوبارہ تعمیر کریں گے، جو اس قیامت خیز زلزلے کی نظر ہوگیا۔
مراکش کی حکومت کی جان سے جاری ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق کل 530 تعلیمی اداروں کو نقصان پہنچا ہے، جن میں سے کچھ مکمل طور پر منہدم ہو گئے ہیں یا انھیں شدید نوعیت کا نقصان پہنچا ہے۔
مراکش کی حکومت نے سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں تعلیمی سرگرمیوں کو عارضی طور پر روک دیا ہے۔
الفدیل نہ کہا کہ ’جب ہمارا سکول دوبارہ تعمیر ہو جائے گا اور اس میں تعلیمی سرگرمیاں بھی شروع ہو جائیں گی تو ہم ان 32 بچوں کو یاد کریں گہ اور اُن کی کہانیاں سب کو سُنائیں گے۔‘
Comments are closed.