دنیا بھر کے مختلف اسلامی ممالک میں ماہِ رمضان کی مختلف اسلامی روایات عرصۂ قدیم سے چلی آ رہی ہیں۔
کچھ روایات آج بھی ان ممالک میں اسی طرح زندہ ہیں جیسے قدیم دور میں ہوا کرتی تھیں تاہم کچھ روایات وقت کے ساتھ ساتھ دم توڑتی جا رہی ہیں۔
دنیا بھر کے مسلمان اس مقدس مہینے میں سحری جگانے سے لے کر سڑک کنارے افطار کا اہتمام بھی اپنے علاقے کی روایات و اقدار کے مطابق مختلف طریقوں سے کرتے ہیں جن میں سے کچھ درجِ ذیل ہیں:
جدید ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں ایک سے بڑھ کر ایک الارم کلاک موجود ہے، اس کے باوجود ہر رمضان ڈھول والے گلی گلی، محلے محلے جا کر لوگوں کو جگاتے ہیں، یہ ہماری پیاری اسلامی ثقافت ہے جو کئی صدیوں سے اسی طرح چلی آ رہی ہے۔
مختلف ممالک میں ماسحراتی (Masaharati) کے نام سے مشہور یہ واحد روایت ہے جو کسی رد و بدل کے بغیر آج بھی برقرار ہے۔
ماسحراتی کہلانے والے یہ لوگ پورے رمضان سحری کے اوقات میں سڑکوں، گلی، محلوں میں ڈھول، بانسری، ڈفلی، رباب وغیرہ جیسے موسیقی کے مختلف آلات تھامے گھومتے ہوئے روزے داروں کو سحری کے لیے جگاتے ہیں۔
7 ویں صدی میں مصر کے گورنر عتبہ بن اسحاق نے اس خوبصورت روایت کی بنیاد رکھی تھی، وہ رات کے آخری پہر میں قاہرہ کی گلیوں سے گزرتے اور پکارتے کہ ’اللّٰہ کے بندو سحری کرو کیونکہ سحری میں برکت ہے‘۔
وقت کے ساتھ ساتھ یہ روایت اسلامی دنیا کے دیگر ممالک میں پھیل گئی۔
مراکش میں روزے داروں کو جگانے کے لیے ڈرم بجایا جاتا ہے جبکہ یمن میں، روزے داروں کے دروازے پر دستک دی جاتی ہے۔
لیونٹ میں یہ کردار اس قدر مقبول ہوا کہ ہر محلے میں اپنے اپنے ماسحراتی ہوتے ہیں جو سڑکوں پر گھومتے، ڈھول پیٹتے اور مکینوں کو پکارتے ہیں کہ ’سونے والے، جاگ جاؤ، اللّٰہ کے سوا کوئی خدا نہیں ہے جو ابدی ہے‘، پاکستان میں گلی محلوں میں ڈھول پیٹ کر جگایا جاتا ہے۔
مختلف ممالک میں رمضان کا چاند نظر آتے ہی گلی محلوں کو برقی قمقموں اور لالٹینوں سے سجایا جاتا ہے اور اس سجاوٹ میں اسلامی علامت ہلال اور ستارے کو نمایاں کیا جاتا ہے۔
ماہِ رمضان میں جب روز مرہ کی زندگی یکسر تبدیل ہو جاتی ہے، مسلمان صبح سے غروبِ آفتاب تک کھانے پینے سے پرہیز کرتے ہیں جبکہ مختلف ممالک میں رمضان کی راتوں میں سماجی زندگی اور تفریح کے لیے خاص اہتمام کیا جاتا ہے، مرد و خواتین کیفے، گلیوں وغیرہ میں مل بیٹھتے ہیں جہاں مہینے بھر کے لیے سجاوٹ اور روشنیاں کی جاتی ہیں، یہ بالکل تہوار کا ماحول بن جاتا ہے۔
رمضان المبارک کی سجاوٹ کا ہر ملک کا اپنا انداز ہوتا ہے، قاہرہ کی سڑکیں رنگ برنگے کپڑوں، چراغوں اور لالٹینوں سے سجائی جاتی ہیں۔
شمالی افریقا میں عربی ڈیزائنوں کا غلبہ رہتا ہے۔
خلیجی ممالک میں رنگ برنگی روشنیاں اور 8 نکاتی ستارے اور ہلال مختلف عمارتوں اور شاپنگ سینٹرز کی چھتوں سے لٹک رہے ہوتے ہیں۔
وطنِ عزیز میں نوجوان لڑکے تراویح کے بعد سے سحری تک کرکٹ کھیل کر شاہراہوں کو رونق بخشتے ہیں۔
یوں تو رمضان کا کوئی رسمی رنگ نہیں ہوتا لیکن سبز، پیلا، جامنی اور فیروزی رنگ جو امن اور روحانیت کی نمائندگی کرتے ہیں، سجاوٹ میں عام نظر آتے ہیں۔
رمضان کے دوران ہر کوئی اپنا دستر خوان وسیع کر دیتا ہے، بیشتر عرب ممالک میں سجنے والی اجتماعی ضیافتیں اسلامی بھائی چارے کی بہترین نمائندگی کرتی ہیں، جہاں کم وسائل کے حامل افراد اور روزے داروں سے ہمدردی اور محبت کا رویہ روا رکھا جاتا ہے۔
مصر میں رہائشی محلوں میں خیراتی ضیافتیں منعقد کی جاتی ہیں، جہاں ہر کوئی بڑھ چڑھ کر اپنا حصہ ڈالتا ہے۔
سعودی عرب میں مسجد الحرام اور مسجد نبوی کے صحنوں کے علاوہ مختلف مساجد اور سڑک کنارے شاندار افطاری کی ضیافتوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
متحدہ عرب امارات میں خیراتی اداروں کے تحت مساجد کے صحنوں اور رمضان کے لیے لگائے گئے خیموں میں کھانے کی عارضی میزیں لگائی جاتی ہیں۔
پاکستان میں بھی سڑک کنارے میزیں سجائی جاتی ہیں جہاں ضرورت مندوں کو افطار کروایا جاتا ہے، اس حوالے سے شہر کراچی میں لگائی گئی میزیں ملک بھر میں مشہور ہیں۔
رمضان کے مقدس مہینے میں افطار کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے، اسے شاندار پکوان سے سجایا جاتا ہے لیکن کچھ پکوانوں کو خاص رمضان سے منسلک کر دیا جاتا ہے، افطار کے موقع پر کچھ خاص کھانوں کے بغیر دسترخوان نامکمل ہوتا ہے جیسے پاکستان میں پکوڑوں کے بغیر افطار کا تصویر ہی نہیں کیا جاتا۔
دنیا بھر میں جہاں جہاں مسلمان روزہ افطار کے لیے دسترخوان سجا رہے ہیں وہاں ایک چیز ہر درسترخوان کی زینت ہوتی ہے وہ ہے ’کھجور‘، سنتِ نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے مطابق صدیوں سے مسلمان کھجور اور پانی سے کر رہے ہیں۔
کھجور شکر، پوٹاشیئم، میگنیشیئم اور فائبر سے بھرپور ہوتی ہیں، اس طرح دن بھر کے روزے کے بعد افطار میں یہ صحت بخش ثابت ہوتی ہے۔
امارات میں دنبے کے گوشت اور سبزیوں سے تیار کردہ شوربہ افطار کے درسترخوان پر موجود ہوتا ہے، ایسے ہی مصر میں (molokhia) مولوخیہ سوپ، مراکش میں ہریرہ لازمی ہوتا ہے، اس کے ساتھ میٹھے میں مراکش میں ’چیباکیا‘ نامی پکوان کو شہد اور تل سے تیار کیا جاتا ہے جبکہ یمن میں کیلے سے تیار کردی پڈنگ افطار کے دسترخوان کا لازمی جز ہوتے ہیں۔
افطار کے وقت توپ داغنے کی روایت کی بنیاد 15ویں صدی میں سلطان مملوک نے رکھی تھی آج تقریباً دم توڑ چکی ہے۔
اس روایت کو 19ویں صدی تک قائم رکھا گیا تاہم گنجان آباد شہروں میں جگہ کی کمی کے باعث یہ روایت دم توڑ گئی۔
اس روایت کے تحت افطار کے وقت گولہ داغ کر روزے داروں کو افطاری کے وقت سے آگاہ کیا جاتا تھا، تاہم اب سائرن بجایا جاتا ہے جس سے روزے داروں کو علم ہو جاتا ہے کہ اب افطار کا وقت ہو گیا ہے۔
یہ روایت آج خلیجی ممالک میں اسی طرح قائم ہے، جہاں پولیس غروب آفتاب کے ساتھ ہی توپ سے ایک گولہ فائر کر کے سب کو آگاہ کرتی ہے کہ اب افطار کا وقت ہو گیا ہے۔
Comments are closed.