ملائیشیا کی ٹرانسجینڈر خاتون نور سجات: ’میرے پاس زندگی بچانے اور ملک چھوڑنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا‘
- جوناتھن ہیڈ
- نامہ نگار، جنوب مشرقی ایشیا
ملائیشیا کی خواجہ سرا خاتون نور سجات قمرالزمان ملک میں فیشن اور گلیمر کی دنیا کی جانی پہچانی شخصیت ہیں
اس سال ستمبر میں کسی طرح یہ خبر منظرعام پر آ گئی کہ تھائی لینڈ کے حکومتی اہلکاروں نے بینکاک میں ایک خاتون کو حراست میں لے لیا لیکن یہ گرفتاری کیوں عمل میں آئی اس بارے میں کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔
گرفتار کی جانے والی 36 سالہ خاتون کا نام نور سجات قمرالزمان تھا جو کہ ملائیشیا میں فیشن اور گلیمر کی دنیا کی جانی پہچانی شخصیت تھیں۔ وہ نہ صرف کاسمیٹکس کی کمپنی کی مالک ہیں بلکہ سوشل میڈیا کی دنیا کا بہت بڑا نام ہیں۔
گرفتاری کے فوراً بعد حکام نے انھیں اس بنیاد پر کسی دوسرے ملک کے حوالے کرنے کی کوشش شروع کر دی کہ نور سجات نے اسلام کی توہین کی ہے۔ ان کے خلاف یہ الزام جنوری میں سامنے لایا گیا اور ملائیشیا کے قانون میں اس جرم میں تین سال قید تک کی سزا ہو سکتی ہے۔
نور سجات پر الزام تھا کہ انھوں نے سنہ 2018 میں ایک نجی تقریب میں باجُو کورنگ نامی روایتی لباس پہنا تھا جو کہ لمبی آستینوں والا لباس ہوتا ہے جو مسلمان مالے خواتین پہنتی ہیں۔
ملائیشین حکام کی نظر نور سجات ایک مرد ہیں اور اسلامی قوانین کے مطابق ایک مرد ایسا لباس نہیں پہن سکتا جو خواتین پہنتی ہیں۔
دراصل نور سجات ایک ٹرانسجینڈر خاتون ہیں اور اسی وجہ سے انھیں ’ریفیوجی‘ یا ’پناہ گزین‘ کا درجہ دے کر ملائیشین حکام نے اجازات دی کہ وہ آسٹریلیا میں سکونت کی درخواست دے سکتی ہیں۔
آج کل نور سجات آسٹریلیا میں ہیں اور سڈنی سے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ ملائیشیا سے نکل آئیں۔ انھوں نے بتایا کہ ملائیشیا کے صوبے سیلنگور کے مذہبی امور کے محکمے (جے اے آئی ایس) کے اہلکاروں کی طرف سے اسلام کی توہین کرنے کے الزام اور تشدد کے بعد ان کے پاس یہی راستہ بچا تھا کہ وہ ملک چھوڑ دیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ ’مجھے وہاں سے بھاگنا پڑا۔ میرے ساتھ بہت بُرا سلوک کیا گیا، مجھے میرے والدین اور گھر کے دوسرے افراد کے سامنے دھکے دیے گئے۔ مجھے شرمندگی محسوس ہوئی اور مجھے بہت دُکھ ہوا۔ میں نے اپنی طرف سے تعاون بھی کیا۔ لیکن انھوں نے پھر بھی مجھ سے بُرا سلوک کیا۔‘
’شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مجھے ایک ٹرانس عورت کی حیثیت سے دیکھتے ہیں، اسی لیے انھیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ مجھے روک کر مجھ پر تشدد کیا گیا، اور وہ مجھے اپنے پاؤں تلے روندتے رہے۔ ہم ٹرانس خواتین کے بھی جذبات ہوتے ہیں۔ ہمیں یہ حق حاصل ہے کہ ہم بھی عام لوگوں کی طرح اپنی زندگی گزار سکیں۔‘
’صنفی ابہام‘
نور سجات ایک کامیاب انسان ہیں جس نے اپنی محنت سے کامیاب کاروبار کھڑا کیا ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ سات برس پہلے انھوں نے سوشل میڈیا پر خود کو پیش کرنا شروع کیا۔ اس دوران وہ جِلد کی حفاظت والی مصنوعات کے علاوہ صحت بنانے والے سپلیمنٹس لائیں اور خاص طور پر ان کی بنائی ہوئی ایک کارسیٹ (شمیض) بہت مقبول ہو گئی۔
اپنے نہایت خوبصورت بناؤ سنگھار، شخصیت اور سوشل میڈیا پر شرارتوں سے بھرپور ہلکی پھلکی ویڈیوز کی بدولت ان کے مداحوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی اور وہ ملائیشیا کی مشہور شحضیت بن گئیں۔ اس کے بعد ان کی صنفی حیثیت پر سوال اٹھنے لگے۔
نور کی صنف کبھی بھی کوئی پوشیدہ چیز نہیں تھی کیونکہ انھوں نے سنہ 2013 میں خواجہ سراؤں کے مشہور مقابلہ حسن میں حصہ لیا تھا جہاں انھیں بہترین ڈانس پر انعام سے بھی نوازا گیا تھا۔
ملائیشیا میں جس بات پر اعتراضات اٹھنے لگے تھے وہ یہ تھی کہ وہ ایک مسلمان بھی تھیں اور انھوں نے اکثر حجاب میں اپنی تصاویر بھی پوسٹ کی تھیں۔
جنھوں نے بھی ان سے پوچھا انھیں نور سجات نے بتایا کہ وہ مرد اور عورت کے جنسی اعضا کے ساتھ پیدا ہوئی تھی، اس جسمانی حالت کو انٹرسیکس کہا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسی حالت ہے جس کے ساتھ اسلام میں اپنی پیدائش کی جنس تبدیل کرنے والوں کے مقابلے میں زیادہ رواداری کا برتاؤ کیا جاتا ہے۔
سنہ 2017 میں نور سجات نے اعلان کیا تھا کہ جسمانی طور پر اب وہ ایک مکمل عورت ہیں اور اپنے اس دعویٰ کے حق میں انھوں نے ڈاکٹر کی ایک رپورٹ بھی سوشل میڈیا پر پوسٹ کی تھی۔
حکام نے اس معاملے کی تحقیقات کرنے کا فیصلہ کیا اور ملائیشیا کے محکمہ اسلامی ترقی جاکم نے کہا تھا کہ انھیں اس بارے میں مزید شواہد درکار ہیں کہ نور سجات انٹرسکیس کی حالت میں پیدا ہوئی تھیں۔ اس ادارے نے نور کو صنفی ابہام میں مدد کرنے کی پیشکش کی تھی۔
گذشتہ برس یہ تنازع اس وقت زیادہ شدت اختیار کر گیا تھا جب نور سجات کی اپنے خاندان کے ہمراہ مکہ میں حج کے دوران خواتین کے اہرام میں ملبوس تصاویر شائع ہوئی تھی۔ اس نے قدامت پسند مسلمانوں کی جانب سے سخت تنقید کو جنم دیا تھا۔
بعد ازاں انھوں نے اس سخت تنقید کی وجہ سے معافی بھی مانگی تھی لیکن اس کے ایک سال کے اندر ہی انھیں جرم سرزد کرنے کے الزامات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
نور سجات کو حجاب میں اپنی تصاویر پوسٹ کرنے پر سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا
نور سجات کا کہنا تھا کہ ’جب میں مقدس زمین پر تھی تو میں صرف خود سے یہ پوچھنا چاہتی تھی کہ یہ میری ایسی پیدائش کی کوئی تو وجہ ہو گی؟ ایک خواجہ سرا خاتون اور مسلمان کے طور پر میں یہ مانتی ہوں کہ اپنے مذہب کا اپنی مرضی سے اظہار کرنے کا مجھے حق حاصل ہے۔ اگر وہ خدا کے لیے کام کر رہے ہیں تو انھیں کوئی حق نہیں پہنچاتا کہ وہ مجھے سزا دیں۔‘
بی بی سی نے ملائیشیا کے مذہبی امور کے محکمہ سے نور سجات کے مقدمے پر تبصرہ کرنے کے لیے رابطہ کیا مگر تاحال وہاں سے کوئی جواب نہیں دیا گیا ہے۔
ستمبر میں ملائیشیا کے وزیر مذہبی امور ادریس احمد نے کہا تھا کہ ’اگر وہ ہمارے پاس آنا چاہتی ہیں اور یہ تسلیم کرتی ہیں کہ انھوں نے غلط کیا اور اگر وہ اپنی اصل فطرت کی جانب آنا چاہتی ہیں تو پھر کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ہم انھیں سزا نہیں دینا چاہتے، ہم انھیں صرف تعلیم دینا چاہتے ہیں۔‘
ہم نے ملائیشیا کی ریاست پرلیس کے ایک اعلیٰ اسلامی مشیر یا مفتی محمد اسری زین العبدین سے پوچھا کہ ملائیشیا کے مسلمانوں کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ خواجہ سراؤں کو تسلیم کریں؟
اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ نور سجات کا معاملہ الگ ہے۔ ’نور سجات نے بہت کچھ ایسا کیا ہے جس نے مذہبی حکام کو ردعمل دینے پر مجبور کیا ہے۔ عموماً اسلام میں ہم ذاتی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرتے ہیں کیونکہ یہ آپ کے اور اللہ کے درمیان معاملہ ہے۔ لیکن ہم اس گناہ کو کبھی قبول نہیں کرتے کہ آپ خود کو عورت محسوس کرتے ہوئے عورتوں کے بیت الخلا میں داخل ہونا چاہیں۔ آپ ایسا نہیں کر سکتے۔‘
یہ بھی پڑھیے
ملائیشیا میں دہرے قوانین کا نظام رائج ہے۔ ایک اسلامی شرعی قوانین ہیں جو ملک کے وفاقی علاقوں سمیت 13 ریاستوں میں خاندانی اور اخلاقی معاملات کو دیکھتا ہے۔ ان قوانین کا ملک کی 60 فیصد مسلم آبادی پر اطلاق ہوتا ہے۔ یہ ملک میں خواجہ سراؤں اور ہم جنس پرست افراد کے لیے مسلسل مشکلات پیدا کرتے ہیں۔
ایک اور خواجہ سرا نشا ایوب جنھیں خود بھی ایک مرتبہ خواتین جیسے کپڑے پہننے پر جیل جانا پڑا تھا کا کہنا ہے کہ ’ملک کے شرعی قوانین ہر ریاست میں ہماری برادری کو خاص طور پر ہدف بناتے ہیں۔ اور ان قوانین کی موجودگی میں ہمارے سیاستدان، رہنما اور مذہبی حکام ہماری برادری کے متعلق بڑے منفی بیانات دیتے ہیں۔ یہ وجوہات ہمارے لیے ملک میں انتہائی غیر محفوظ ماحول کی وجہ ہے۔‘
اسلامی رحجانات کی جانب سفر
لیکن ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔ ’ملائیشیا ایک وقت میں خواجہ سرا برادری کی جانب بڑا روادار معاشرہ تھا اور انھیں بڑی اچھی طرح تسلیم کیا جاتا تھا۔‘ یہ کہنا ہے روزانہ عیسیٰ کا جنھوں نے ملائیشیا میں ’اسلام میں بہنیں‘ نامی ایک ادارے کی بنیاد رکھی ہے جو خواتین کے حقوق کے لیے کام کرتا ہے اور اس نے نور سجات کی حمایت کی تھی۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ہم انھیں ہمارے گھرانوں کے ساتھ رہتے واضح طور پر دیکھتے تھے۔ روز مرہ کی زندگی میں حصہ لیتے دیکھتے تھے۔ لیکن تیس برس سے زائد عرصے سے ہم نے قدامت پسند اسلامی رحجانات کی پالیسی اپنا لی ہے۔ لہذا اب آپ کو زیادہ اسلامی قوانین اور اسلام کی مختلف تشریحات دیکھنے کو ملتی ہیں۔ جو ثقافتی تنوع کو تسلیم کرنے میں بہت تنگ نظر ہیں۔‘
اسلام صرف ملائیشیا کا سرکاری مذہب ہی نہیں بلکہ یہ ملک کی سب سے بڑی نسلی برادری مالے کا بنیادی حصہ بھی مانا جاتا ہے۔
ملائیشیا میں اکثر سیاسی جماعتیں ووٹرز کو قدامت پسند مذہبی و سیاسی نعروں کے باعث اپنی جانب راغب کرنے کی کوشش کرتی ہیں
ملائیشیا میں انتخابات جیتنے کے لیے سیاسی جماعتوں کو پتا ہے کہ انھیں مالے آبادی کے گڑھ میں اچھی سیاسی کارکردگی دکھانی ہے۔ مالے افراد مذہبی طور پر زیادہ قدامت پسند ہیں۔ سیاسی جماعتیں اکثر ان علاقوں میں ووٹرز کو اپنی جانب راغب کرنے کے لیے مذہبی نعروں اور اسلامی اقدار کی پاسداری کے وعدوں کا سہارا لیتی ہیں۔
حال ہی میں ملائیشیا کی سیاست غیر معمولی طور پر ہنگامہ خیز حالت میں ہے، اور معیشت کووڈ 19 کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی ہے، کچھ لوگوں کو شبہ ہے کہ نور سجات کے معاملے پر حقیقی مذہبی خدشات کی بجائے مسلمانوں کی حمایت کے لیے ایک کمزور حکومت کی طرف سے زیادہ زور دیا گیا تھا۔
لیکن نشا ایوب کہتی ہیں کہ یہ مختلف اسلامی نظریات کے باوجود پھر بھی یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ خواجہ سراؤں کے حقوق کا تحفظ کرے۔ انھوں نے اس جانب اشارہ کیا کہ ایران اور پاکستان جیسے اسلامی ممالک نے ایسا کرنے کے لیے اپنے قوانین میں تبدیلیاں کی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’اگر ہمارے رہنما اقلیتوں کو ہمارے معاشرے کے ایک حصے کے طور پر قبول کر لیں تو چیزیں تبدیل ہو جائیں گی۔ سب کا آغاز قوانین سے ہوتا ہے جن میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ جب تک ہماری برادری کو ہدف بنانے والے قوانین موجود ہیں کچھ تبدیل نہیں ہو گا۔‘
نور سجات اپنے لے پالک بیٹے اور بیٹی کو بہت زیادہ یاد کرتی ہیں۔ ان کے بچوں کا خیال ملائیشیا میں ان کے گھر والے رکھ رہے ہیں۔ لیکن آسٹریلیا میں انھیں یہ موقع فراہم کیا گیا ہے کہ وہ آسٹریلیا میں موجود دیگر خواجہ سراؤں کے ساتھ اپنے تجربات شیئر کریں۔
اسلام میں بہنیں نامی ادارے کی بانی روزانہ عیسیٰ نے ملائیشیا کے عوام سے مطالبہ کیا ہے کہ ’وہ سوشل میڈیا کے متعلق زیادہ آزاد خیال اور سمجھدار ہو جائیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’ہم نور سجات پر اس قدر الزام کیوں عائد کر رہے ہیں؟ وہ اپنی تصاویر پوسٹ کرنے سے یا مکہ میں موجود ہونے سے کسی کو نقصان نہیں پہنچا رپیں۔ دراصل ہمیں کسی دوسرے کو سدھارنے کی بجائے خود کو سدھارنے کی ضرورت ہے۔‘
Comments are closed.