لندن میں مقیم فلسطینی صحافی یارا عید نے برطانوی چینل کی اینکر کو اسرائیل اور فلسطین جنگ کے بارے میں حقائق کو گمراہ کن انداز میں پیش کرنے پر آڑے ہاتھوں لے لیا۔
23 سالہ صحافی یارا عید غزہ میں پرورش پانے کے بعد اس وقت لندن میں مقیم ہیں۔
یارا عید نے برطانوی چینل اسکائی نیوز کے ایک پروگرام میں بطور مہمان شرکت کی جہاں اُنہوں نے اسرائیل اور فلسطین جنگ کے اصل حقائق کے بارے میں بات نہ کرنے پر پروگرام کی اینکر پر تنقید کی۔
پروگرام کے دوران جب اینکر نے غزہ کی صورتِ حال کے بارے میں گفتگو کا آغاز کیا تو اسرائیلی ہلاکتوں کا ذکر کرتے ہوئے’قتل‘ کا لفظ استعمال کیا جبکہ فلسطینی ہلاکتوں کا ذکر کرنے کے لیے ’ہلاک‘ کا لفظ استعمال کیا جس پر فلسطینی صحافی یارا عید نے اینکر کو کہا کہ غزہ کی صورتِ حال پر رپورٹ کرتے ہوئے اُنہیں اپنے الفاظ کا انتخاب دانش مندی سے کرنا چاہیے۔
یارا عید نے کہا کہ جب آپ نے گفتگو کا آغاز کیا اور بتایا کہ غزہ میں کیا ہو رہا ہے تو آپ نے کہا کہ اسرائیل میں 1 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے اور فلسطین میں 4 ہزار سے زائد مر چکے ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ میرے خیال میں ایک صحافی کے لیے زبان کا استعمال کرنا بہت زیادہ اہم ہے کیونکہ بطور صحافی یہ آپ کی اخلاقی ذمے داری ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے اس کی حقیقت بتائیں۔
فلسطینی صحافی نے برطانوی چینل کی اینکر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے یہ بھی بتایا کہ یہ حماس اور اسرائیل کی جنگ ہے جبکہ ایسا نہیں ہے غزہ کی صورتِ حال کے بارے میں اس طرح بات کرنا بہت گمراہ کن ہے کیونکہ اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اسرائیل ایک مساوی طاقت ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے کیونکہ اسرائیل ایک قابض طاقت ہے اور اس پر غزہ میں موجود تمام شہریوں کی جانوں اور بچوں کی حفاظت کی ذمے داری ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ آپ کو بطور ایک صحافی جو کچھ ہو رہا ہے اسے بالکل ویسے ہی رپورٹ کرنا ہوتا ہے۔
یارا عید نے بتایا کہ میرا سب سے بہترین دوست فلسطینی صحافی ابراہیم لافی اور میرے اپنےخاندان کے 30 افراد جن میں سے17 بچے تھے اسرائیلی ڈیفنس فورسز (IDF) کے ہاتھوں شہید ہوئے۔
برطانوی چینل کی اینکر نے پوچھا کہ جب حماس نے اسرائیل پر حملہ کیا تو بحیثیت فلسطینی آپ کو کیا امید تھی کہ آگے کیا ہو گا؟
یارا عید نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ آپ کا سوال گمراہ کن ہے کیونکہ فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے آپ صرف 7 اکتوبر کو ہونے والے حملے کے بارے میں بات کر کے اسے چُھپا نہیں سکتیں۔
اُنہوں نے کہا کہ آپ 2014ء کے بارے میں بات کریں، آپ 2021ء کے بارے میں بات کریں، آپ اسرائیل کی فلسطینیوں پر کئی سال سے جاری جارحیت کے بارے میں بات کریں۔
Comments are closed.