شیخ محمد بن زید: متحدہ عرب امارات کے نئے صدر جو امریکی فوج کے قابل اعتماد دوست بھی رہے
ابوظہبی کی معیشیت اور تعلیمی اداروں کو ترقی دینے کی وجہ سے شیخ محمد بن زید اہم شخصیت بن کر ابھرے
متحدہ عرب امارات کے سرکاری خبر رساں ادارے ایمریٹس نیوز ایجنسی کے مطابق شیخ محمد بن زید النہیان امارات کے صدر منتخب ہو گئے ہیں۔ سرکاری خبر رساں ادارے کے مطابق سنیچر کو یونین کی سپریم کونسل نے متفقہ طور پر محمد بن زید النہیان کو صدر منتخب کیا۔
ایمریٹس نیوز ایجنسی کے مطابق کونسل نے سنیچر کو ابوظہبی کے المشرف پیلس میں ایک اجلاس منعقد کیا، جس کی سربراہی متحدہ عرب امارات کے نائب صدر، وزیر اعظم اور دبئی کے حکمران شیخ محمد بن راشد المکتوم نے کی۔
یہ فیصلہ شیخ خلیفہ بن زید النہیان کی موت کے ایک دن بعد سامنے آیا، جو سنہ 2004 سے ملک کے صدر تھے۔
شیخ محمد بن زید کون ہیں؟
محمد بن زید بن سلطان النہیان 11 مارچ سنہ 1961 کو اماراتی ابوظہبی کے شہر العین میں پیدا ہوئے اور سنہ 2004 سے اب تک ابوظہبی کے ولی عہد کے عہدے پر فائز ہیں۔
محمد بن زید سنہ سنہ 2014 میں اپنے بھائی خلیفہ بن زید کو فالج کا دورہ پڑنے کے بعد سے عملی طور پر ملک کے حکمران تھے۔
شیخ خلیفہ 2004 سے متحدہ عرب امارات کے صدر تھے لیکن 2014 میں سٹروک (فالج) کے حملے کے بعد سے ان کا کردار بڑی حد تک رسمی ہی رہا
ابتدائی زندگی اور فوجی کریئر
محمد شیخ زید بن سلطان النہیان کے تیسرے بیٹے ہیں، جنھوں نے سنہ 1966 سے 2004 تک ابوظہبی کے حکمران اور سنہ 1971 سے 2004 تک متحدہ عرب امارات کے صدر کے طور پر خدمات انجام دیں۔
متحدہ عرب امارات کی سرکاری ویب سائٹ کا کہنا ہے کہ شیخ محمد بن زید النہیان نے اٹھارہ سال کی عمر میں العین اور ابوظہبی شہروں کے تعلیمی اداروں سے اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔
سنہ 1979 میں برطانیہ کی رائل ملٹری اکیڈمی سینڈہرسٹ سے گریجویشن کرنے کے بعد انھوں نے متحدہ عرب امارات کی فضائیہ میں اہم کردار ادا کیا۔
متحدہ عرب امارات کی سرکاری ویب سائٹ کا کہنا ہے کہ شیخ محمد بن زید نے سینڈہرسٹ ملٹری اکیڈمی میں آرمرڈ کور، ورٹیکل ایوی ایشن، ٹیکٹیکل ایوی ایشن اور چھاتہ بردار کی تربیت حاصل کی اور پھر متحدہ عرب امارات کے امارات میں شارجہ میں افسران کے تربیتی کورس میں شامل ہوئے۔
متحدہ عرب امارات کی سرکاری ویب سائٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ وہ متحدہ عرب امارات کی مسلح افواج میں امیری گارڈ اور متحدہ عرب امارات میں ایلیٹ فورسز کے افسر سے لے کر فضائیہ میں پائلٹ تک کے عہدوں پر فائز رہے اور پھر کئی اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوئے۔
متحدہ عرب امارات کی حکومت کی ویب سائٹ کے مطابق شیخ محمد بن زید نے سٹریٹجک منصوبہ بندی، تربیت، تنظیمی ڈھانچے اور ملک کی دفاعی صلاحیتوں کو مضبوط بنانے کے حوالے سے متحدہ عرب امارات کی مسلح افواج کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔
انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے مطابق خلیجی جنگ کے دوران وہ امریکی فوج کے قابل اعتماد دوست بن گئے اور سکیورٹی کوآرڈینیشن کے معاملات پر امریکہ کے لیے رابطہ کار کے طور پر فرائض سر انجام دیے۔
انھیں سنہ سنہ 2005 میں متحدہ عرب امارات کی مسلح افواج کے ڈپٹی سپریم کمانڈر کے طور پر تعینات کیا گیا تھا اور انھیں لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی تھی۔
ابوظہبی کے ولی عہد
سنہ 2004 میں اپنے والد کی وفات کے بعد شیخ محمد بن زید ابوظہبی کی امارات کے ولی عہد بن گئے۔ اسی سال انھیں ابوظہبی کی امارات کی ایگزیکٹو کونسل کا چیئرمین بھی مقرر کیا گیا، جو روزمرہ کے امور کا انتظام کرتی ہے۔
ابوظہبی کی معیشیت اور تعلیمی اداروں کو ترقی دینے کی وجہ سے وہ اہم شخصیت بن کر ابھرے۔
انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے مطابق شیخ خلیفہ بن زید کو سنہ 2014 میں فالج کا دورہ پڑنے کے بعد شیخ محمد بن زید نے عملی طور پر حکمرانی کے فرائص سنبھال لیے جس میں متحدہ عرب امارات کی مسلح افواج کے کمانڈر ان چیف کی ذمہ داریاں بھی شامل تھیں۔
مبصرین شیخ محمد بن زید کو سنہ 2000 کی دہائی میں علاقائی معاملات کے لیے زیادہ فعال انداز میں متحدہ عرب امارات کی طرف منتقل ہونے کا کریڈٹ دیتے ہیں۔
عرب سپرنگ
سنہ 2010 اور 2011 میں عرب سپرنگ کے نام سے مشہور عوامی بغاوت کو ناکام بنانے کے لیے متحدہ عرب امارات نے سنہ 2011 میں بحرین میں سعودی عرب کے ساتھ مل کر حصہ لیا۔
اور سنہ 2014 میں، متحدہ عرب امارات نے عراق اور لیونٹ میں شدت پسند تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ کے خلاف امریکی قیادت میں فضائی مہم میں حصہ لیا۔
اس سے بھی زیادہ چیلنجنگ صورتحال میں یو اے ای نے سنہ 2014 میں لیبیا میں محدود فضائی حملے کیے اور لیبیا کے فوجی کمانڈر خلیفہ حفتر کی اقوام متحدہ کی تسلیم شدہ لیبیا کی حکومت کے خلاف مسلح بغاوت میں مدد کی۔
سنہ 2015 میں متحدہ عرب امارات نے یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف سعودی زیر قیادت اتحاد میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے اپنی تاریخ کا سب سے بڑا فوجی آپریشن کیا۔
تاہم سنہ 2019 میں اس نے سعودی عرب کے ساتھ اس وقت توڑ دیا جب اس کی افواج یمن کی جنگ میں اس کی طرف سے دستبردار ہونا شروع ہوئیں لیکن اس نے ایک علیحدگی پسند دھڑے کی مدد جاری رکھی جو اب عدن میں سعودی حمایت یافتہ حکومت کی مخالفت کر رہا ہے۔
شیخ محمد بن زید متحدہ عرب امارات کے بہت سے خارجہ تعلقات میں محرک رہے ہیں۔
اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی
شیخ محمد بن زید متحدہ عرب امارات اور اسرائیل دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لائے اور گذشتہ دسمبر میں اسرائیلی وزیراعظم نفتالی بینیٹ نے متحدہ عرب امارات کے دورے کے دوران شیخ محمد بن زید سے ملاقات کی تھی۔
اسرائیلی حکام کے مطابق شیخ محمد بن زید نے ابوظہبی میں اپنے محل میں وزیراعظم نفتالی بینیٹ کا استقبال کیا، ان سے چار گھنٹے سے زائد بات چیت کی تھی۔
اس وقت ایمریٹس نیوز ایجنسی نے رپورٹ کیا تھا کہ ’دو طرفہ تعاون کے ٹریک اور مختلف سرمایہ کاری، اقتصادی، تجارتی اور ترقی کے پہلوؤں، خاص طور پر زراعت، خوراک کی حفاظت، قابل تجدید توانائی، جدید ٹیکنالوجی، صحت اور باہمی دلچسپی کے دیگر اہم شعبوں میں اس کی ترقی کے مواقع پر تبادلہ خیال کیا۔‘
امریکہ کے ساتھ کشیدگی
متحدہ عرب امارات اور امریکہ کے درمیان تعلقات حال ہی میں کشیدہ رہے ہیں کیونکہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب چاہتے ہیں کہ امریکہ یمن میں ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے خلاف مزید کچھ اقدامات کرے۔
دریں اثنا دونوں خلیجی ممالک اب تک قیمتوں میں کمی لانے کے لیے تیل کی پیداوار بڑھانے کی واشنگٹن کی درخواستوں کو مسترد کر چکے ہیں۔
جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے پروفیسر جوڈی وٹوری جو مالیاتی بہاؤ اور امریکی قومی سلامتی کے درمیان تعلق کا مطالعہ کرتے ہیں نے کہا کہ پابندیوں کی پالیسی پر اختلافات ایک کانٹے دار موضوع رہے گا۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات اب بھی 24 فروری کو یوکرین میں شروع ہونے والے روسی فوجی آپریشن میں فریق نہ بننے کے پابند ہیں۔
مشرق وسطیٰ میں واشنگٹن کے زیادہ تر اتحادی ایسی پوزیشنیں لینے سے گریز کرتے ہیں جو ان کی معیشتوں پر منفی اثر ڈال سکتے ہیں۔ خطے کے کچھ ممالک کے چین اور روس کے ساتھ بھی تزویراتی تعلقات ہیں۔
یوکرینی جنگ شروع ہونے کے بعد سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو تیل کی قیمتوں میں نئے متوقع اضافے کو روکنے کے لیے تیل کی پیداوار اور برآمدات بڑھانے کے لیے امریکی دباؤ کا سامنا ہے، جو فی بیرل 140 ڈالر سے بھی کم ہو چکی ہیں۔
توانائی کے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات عالمی منڈی میں تیل کی اضافی مقدار برآمد کرنے کی امریکہ کی خواہش کا جواب نہیں دیں گے۔
متحدہ عرب امارات، جو سعودی عرب اور عراق کے بعد اوپیک میں تیل پیدا کرنے والا تیسرا سب سے بڑا ملک ہے، تنظیم کے اندر اور ’اوپیک پلس‘ اتحاد دونوں میں سعودی تیل کی پالیسیوں پر کاربند ہے۔
یہ بھی پڑھیے
یو اے ای کے توانائی اور انفراسٹرکچر کے وزیر سہیل بن محمد فراج المزروعی نے یو اے ای ڈبلیو اے ایم ایجنسی کو ایک بیان میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ان کا ملک اوپیک پلس معاہدے اور ماہانہ پیداوار کو ایڈجسٹ کرنے کے اس کے موجودہ طریقہ کار کا پابند ہے۔
مبصرین کا خیال ہے کہ یہ اماراتی مؤقف سعودی عرب کے ساتھ ہم آہنگی میں لیا گیا ہو گا اور یہ کہ دونوں ممالک اوپیک پلس اتحاد کے اندر ایسے فیصلے لینے سے انکاری ہیں، جس سے ان کے اتحادی روس کو نقصان پہنچے۔
امریکہ اور متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب میں سے ہر ایک کے درمیان باہمی دباؤ کی پالیسی امریکی انتظامیہ کی طرف سے روس پر لگائی گئی پابندیوں کی عدم تعمیل اور روسی بینکوں کے ساتھ مالیاتی لین دین جاری رکھنے سے عیاں ہے۔
روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے گذشتہ فروری کے آخر میں ماسکو میں اپنے اماراتی ہم منصب شیخ عبداللہ بن زید النہیان سے ملاقات کی۔
شام سے متعلق پالیسی
18 مارچ کو شام کے صدر بشار الاسد جو ماسکو کے اتحادی ہیں، نے متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا، جہاں انھوں نے ابوظہبی کے اس وقت کے ولی عہد شیخ محمد بن زید سے ملاقات کی، جنھوں نے اس بات پر زور دیا کہ شام عرب سلامتی کا ایک لازمی ستون ہے۔
متحدہ عرب امارات اس کے ساتھ سیاسی اور انسانی امداد فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات کو مضبوط بنانے کی سطح پر تعاون کو مضبوط بنانے کا خواہاں ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب مشرق وسطیٰ کے ممالک کے درمیان تعلقات میں تبدیلیاں دیکھنے میں آ رہی ہیں اور کئی عرب ممالک اسد کے ساتھ اپنے تعلقات کو بحال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور وہ دیکھتے ہیں کہ شام کے مسئلے اور اس کے درمیان بہت بڑا ربط ہے۔
واشنگٹن نے 19 مارچ کو اعلان کیا کہ وہ شام کے صدر بشار الاسد کے یو اے ای کے دورے پر شدید مایوس اور فکر مند ہے، ایسے وقت میں جب روس، شام کا اتحادی اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ مضبوط تعلقات رکھنے والا ملک، اپنا حملہ جاری رکھے ہوئے ہے۔
دوسری جانب انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کا کہنا ہے کہ شیخ محمد بن زید کی بیرون ملک سرمایہ کاری اور خیراتی کاموں نے انھیں اثر و رسوخ اور پہچان حاصل کی ہے۔
Comments are closed.