ماسکو کو 20 سال تک امریکہ کے اہم راز فراہم کرنے والے ایف بی آئی جاسوس گرفتار کیسے ہوئے؟

رابرٹ ہینسن

،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, کیالا ایپسٹین
  • عہدہ, بی بی سی نیوز، نیو یارک

رابرٹ ہینسن ایف بی آئی کی تاریخ میں اس ایجنسی کو سب سے زیادہ نقصان پہنچانے والے جاسوسوں میں سے ایک تھے۔ سابق امریکی ایجنٹ رابرٹ کی حال ہی میں جیل میں موت ہوئی ہے اور وہ ماسکو کو تقریباً 20 سال تک امریکہ کے اہم راز افشا کرتے رہے۔ اس سارے عرصے میں وہ امریکہ کو دھوکہ دیتے رہے۔

ایف بی آئی کا کہنا ہے کہ اُن کی دھوکہ دہی کے نتیجے میں کئی جانوں کا نقصان بھی ہوا۔

آخر کار انھیں پکڑنے کے لیے 300 ایف بی آئی ایجنٹوں نے دن رات کام کیا۔ ان میں سے دو اہلکار جنھوں نے اُن کو پکڑنے میں مرکزی کردار ادا کیا، ہمیں بتاتے ہیں کہ انھوں نے یہ کام کیسے کیا۔

دسمبر 2000 میں ایف بی آئی کے ایجنٹ رچرڈ گارشیا کی روس کے ڈیسک کی نگرانی کرنے والے ایک ساتھی سے دلچسپ ملاقات ہوئی تھی۔

’اس نے گارشیا سے پوچھا آپ رابرٹ ہینسن نامی شخص کو جانتے ہیں؟‘ گارشیا نے جواب دیا کہ ’نہیں۔‘

اس اہلکار نے جواب دیا ’چلو اچھا ہے کیونکہ جلد ہی آپ اسے جان جائیں گے۔‘

چند ماہ بعد رچرڈ گارشیا کے خفیہ مشن کے نتیجہ میں پورا ملک رابرٹ ہینسن نامی اس بدنام ایجنٹ جان گیا تھا۔ ہینسن کی فروری 2001 میں گرفتاری نے جاسوسی کی دنیا میں ہلچل مچا دی تھی اور ان کے ڈبل ایجنٹ ہونے کی کہانیاں اخباروں کے فرنٹ پیج کی سرخیاں بن گئی تھیں۔

اس واقعے کے دو دہائی سے زائد عرصے کے بعد رواں ہفتے پیر کو حکام نے اعلان کیا کہ رابرٹ ہینسن کولوراڈو میں ایک ہائی سکیورٹی جیل میں اپنے سیل میں مردہ پائے گیا ہے۔ وہ اس جیل میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے تھے۔ ان کی عمر 79 برس تھی اور خیال کیا جاتا ہے کہ ان کی موت قدرتی وجوہات سے ہوئی ہے۔

ان کی گرفتاری میں مدد دینے والے ایف بی آئی ایجنٹ رچرڈ گارشیا کی عمر اب 70 برس ہے اور اب وہ ایف بی آئی سے ریٹائر ہو چکے ہیں۔ انھوں نے اس خبر پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ’اچھا ہوا، جان چھوٹی۔‘

رابرٹ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

رابرٹ ہینسن ماسکو کو تقریباً 20 سال تک امریکہ کے اہم راز افشا کرتے رہے

جان لیوا دھوکے

رابرٹ ہینسن نے کالج میں روسی زبان کی تعلیم حاصل کی اور سنہ 1976 میں ایف بی آئی کے لیے کام کرنا شروع کیا۔ اپنی ملازمت کے ایک دہائی کے اندر ہی وہ ایف بی آئی کو ڈبل کراس کر رہے تھے۔ سنہ 1985 میں شروع ہونے والے اس خفیہ مشن میں ہینسن نے امریکی حکومت کے اندر ایک تباہ کن جاسوس کے طور پر کام کیا، سوویت یونین اور روس کو اعلیٰ خفیہ دستاویزات فروخت کیں، اور خفیہ جاسوسوں کی شناخت کے متعلق بتایا۔

ان کے جرائم پر مبنی 100 صفحات کے حلف نامے کے مطابق ہینسن کی جاسوسی کے نتیجے میں تین امریکی ایجنٹس کی گرفتاری اور قید عمل میں آئی جبکہ مزید دو کو پھانسی دی گئی۔

ہینسن کی جانب سے روس کے حوالے کیے گئے کچھ اہم اور خفیہ ترین دستاویزات میں امریکی جوہری پروگراموں کے بارے میں خفیہ معلومات جمع کرنے کی سوویت یونین کی کوششوں کا امریکی انٹیلیجنس کا جائزہ شامل تھا۔ ہینسن نے روسی کی خفیہ ایجنسی کے جی بی کو معلومات فراہم کیں، اور بعد میں سوویت دور کے بعد کی تفصیلات دیں۔

اس دھوکے کے بدلے میں روسیوں نے ہینسن کو 14 لاکھ ڈالرز ادا کیے جن میں سے چھ لاکھ ڈالرز نقد اور ہیرے، اور مزید آٹھ لاکھ ڈالرز ایک بینک اکاؤنٹ میں جمع کروائے۔

ہینسن اپنے پرانے جاسوسی طریقوں کی وجہ سے اتنے عرصے تک خفیہ ایجنسی کی ناک کے نیچے اپنا کام کرتے رہے۔ انھوں نے ’ڈیڈ ڈراپس‘ پر انحصار کیا، جو اپنے سہولت کاروں کے لیے معلومات چھوڑنے کا خفیہ ایک طریقہ تھا۔ انھوں نے چوری شدہ انٹیلیجنس فراہم کرنے کے لیے ورجینیا کے مضافاتی علاقوں میں جگہوں کا انتخاب کیا، جو واشنگٹن کے آس پاس ہیں۔

ماسکو میں ان کے ہینڈلرز کو ان کی شناخت کا علم نہیں تھا اور وہ فرضی نام سے جانے جاتے تھے۔

دیوار برلن کے گرنے اور سویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد بھی ان کی سرگرمیاں طویل عرصے تک جاری رہیں۔ وہ اپنی گرفتاری کے وقت تک روسیوں کے ساتھ بات چیت کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

لیکن انٹیلی جنس کامیابیوں کے ایک سلسلے کے نتیجے میں بالآخر ایف بی آئی اور امریکی انٹیلیجنس کے نظام نے ان کی دم پر پاؤں رکھ ہی دیا۔

جاسوسی

،تصویر کا ذریعہFBI

،تصویر کا کیپشن

رابرٹ ہینسن کی جانب سے روسی ایجنٹوں کے لیے چھوڑے جانے والا ایک پیکٹ

غدار جاسوس کی نشاندہی

امریکی انٹیلیجنس حکام کو 1990 کی دہائی سے اپنے درمیان ایک غدار جاسوس کا شبہ تھا، لیکن ہینسن کی نشاندہی کرنے اور پکڑنے میں چند سال لگے۔

پھر امریکہ کے لیے کام کرنے والے ایک روسی جاسوس نے ورجینیا میں اپنے آدمی کے ذریعے سے چند خفیہ روسی دستاویزات حاصل کیں۔ امریکی انٹیلیجنس میں حکام نے ہینسن کے اپنے ہینڈلرز کو کی گئی ایک فون کال کی ریکارڈنگ اور ساتھ ہی ڈیڈ ڈراپس کے لیے استعمال ہونے والی ردی کی ٹوکری کے تھیلوں پر چھوڑے گئے فنگر پرنٹس کو دریافت کیا۔

نومبر 2000 تک انھیں اپنے اندر موجود غدار مل چکا تھا لیکن اب انھیں یہ سب کچھ ثابت کرنا تھا۔

ایف بی آئی نے ہینسن کو محکمہ خارجہ سے ٹرانسفر کر کے نگرانی میں رکھنے کا منصوبہ بنایا جہاں ایف بی آئی آپریٹیو اس کی نگرانی کر سکتے تھے۔

کاؤنٹر انٹیلیجنس ڈویژن کے سابق ڈپٹی اسسٹنٹ ڈائریکٹر ڈیبرا ایونز سمتھ نے اس کیس کی ایف بی آئی سمری یاد کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم جو کرنا چاہتے تھے وہ اسے مجرم ٹھہرانے کے لیے کافی ثبوت حاصل کرنا تھے، اور حتمی مقصد اسے یہ کام کرتے ہوئے پکڑنا تھا۔‘

یہاں رچرڈ گارشیا اس کیس میں شامل ہوئے۔

آٹھ دسمبر 2000 کو ایف بی آئی کے روس ڈیسک کے سیکشن چیف نے انھیں ہینسن کی جگہ پر کوئی حیلہ بہانا بنا کر چھوڑ دیا تھا۔

رچرڈ گارشیا جو ایک انتہائی تجربہ کار خفیہ جاسوس ہیں کو ایک ہینسن کا ایک انتہائی بیورو کریٹک جعلی افسر بنا کر بھیجا گیا۔

رچرڈ گارشیا یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ایسا کہنا چاہیے کہ وہ مجھ سے نفرت کرتا تھا۔ میرا مقصد اس کا مذاق بنائے بغیر اس کی کارروائی کو سست کرنا تھا۔‘

ایف بی آئی کے صرف چند ملازمین کو اپنے درمیان ایک جاسوس کے بارے میں علم تھا۔

یہ بھی پڑھیے

پام پائلٹ ڈیوائس

رچرڈ گارشیا نے ہینسن کے انتظامی معاون کے طور پر ظاہر کرتے ہوئے ہیکنگ جاننے والے ایک 26 سالہ خفیہ آپریٹو ایرک او نیل کو بھرتی کیا۔

ایرک او نیل نے بی بی سی کو بتایا کہ ’نسبتاً کم عمری میں خفیہ رہنا اور امریکی تاریخ کے سب سے زیادہ نقصاندہ جاسوس کے خلاف جانا، یہ میری زندگی کے سب سے بڑے واقعات میں سے ایک تھا۔‘

اگلے چند ہفتوں میں، دونوں ایک دوسرے کو اچھی طرح جان گئے تھے حالانکہ دونوں ایک دوسرے کی چھپ چھپ کر تفتیش کر رہے تھے۔ ایک موقع پر، ایرک او نیل ہینسن کے خاندان کے ساتھ چرچ بھی گئے۔

ایرک او نیل نے ہینسن کو ایک بہت انا والا اور نرگسیت والی شخصیت کے طور پر بیان کیا۔ ’وہ ایک سرپرست بننا چاہتا تھا، جو اپنا سارا علم کسی کو دینا چاہتا تھا۔‘

تحقیقات کے دوران رچرڈ گارشیا، رابرٹ ہینسن کو (جسے وہ ’گن نٹ‘ کہتے ہیں) کو شوٹنگ رینج میں لے گئے جب کہ اس دوران ایف بی آئی کے خفیہ ایجنٹ ایک کار کی تلاشی لیتے ہیں۔ جہاں ایجنٹوں نے انتہائی خفیہ دستاویزات کا پردہ فاش کیا۔

ایک دن رچرڈ گارشیا، رابرٹ ہینسن کو بہلا پھسلا کر انھیں ان کے دفتر سے باہر ایک شوٹنگ رینج پر لے جاتے ہیں جبکہ ایرک و نیل فوری طور پر ان کے پام پائلٹ کے مواد کو کاپی کرتے ہیں۔ پام پائلٹ اس دور میں بلیک بیری اور سمارٹ فونز کی طرح کی ایک ڈیوائس تھی۔

ایروک او نیل بتاتے ہیں کہ ہینسن کے واپس پہنچنے سے چند لمحے قبل ہی انھوں نے اس ڈیوائس کو تبدیل کر کے وہاں رکھ دیا تھا۔

وہ کہتے ہیں کہ اگر یہ کسی ہالی وڈ کی فلم کی طرح لگتا ہے تو یہ بالکل ایسا ہی تھا۔ ایرک او نیل کی کہانی سنہ 2007 میں ’بریچ‘ نامی جاسوسی تھرلر فلم میں دکھائی گئی تھی، جس میں ریان فلپ، کرس کوپر اور لورا لِنی نے اداکاری کی تھی۔

رابرٹ ہینسن

،تصویر کا ذریعہGetty Images

گرفتاری اور سزا

ایف بی آئی کے مطابق فروری 2001 تک اس کیس پر 300 ایجنٹ کام کر رہے تھے۔ انھوں نے ہینسن کو پھانسنے کے انتظار میں ایک اور ڈیڈ ڈراپ کی کوشش کی اور آخر کار اس نے ایسا ہی کیا۔

ہینسن کو فروری 2001 میں ورجینیا کے فاکس سٹون پارک سے گرفتار کیا گیا تھا اور اُن پر جاسوسی کا الزام لگایا گیا تھا۔ اس نے 15 جرم قبول کیے اور انھیں ناقابل ضمانت عمر قید کی سزا سنائی گئی۔

ایف بی آئی کے ڈائریکٹر لوئس فری نے ہینسن کی دھوکہ دہی کو ’قانون کی حکمرانی والے ملک کے خلاف تصور کی جانے والی سب سے بڑی غداری کی کارروائی‘ قرار دیا۔

اس کیس نے سرد جنگ کے حریف کے ساتھ تعلقات میں بگاڑ پیدا کر دیا اور صدر جارج ڈبلیو بش نے متعدد روسی سفارتکاروں کو ملک بدر کر دیا۔

ہینسن کو فلورنس، کولوراڈو میں جیل بھیج دیا گیا تھا جہاں وہ اس ہفتے اپنی موت تک دو دہائیوں سے قید رہے۔

اس تاریخی مقدمے نے ہر ایک کی زندگی بدل دی۔

ایجنٹ ایرک او نیل نے اس کیس کے بارے میں ایک کتاب ’گرے ڈے‘ لکھی اور اب وہ ان کی ویب سائٹ کے مطابق ’ایک کلیدی مقرر اور جاسوس پکڑنے والے‘ ہیں۔

انھوں نے برسوں تک اپنی کتاب کے لیے ہینسن کا انٹرویو لینے کی کوشش کی لیکن انھیں کامیابی نہیں ملی۔ سنہ 2000 کی دہائی کے اوائل میں ہینسن کے ساتھ ایک چھوٹے اور بیوروکریٹک دفتر میں ہفتوں تک کام کرنے کے بعد جیل حکام نے انھیں ہینسن کے سیل میں ایک لمحہ بھی گزارنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔

جب انھیں ہینسن کی موت کا علم ہوا تو انھوں نے اس پر افسوس کرتے ہوئے کہا کہ انھیں اس کا انٹرویو کرنے کے لیے مزید کوشش کرنی چاہیے تھی۔ ’میں اس سے پوچھتا کہ تم نے یہ کیوں کیا؟‘

رچرڈ گارشیا کا اس متعلق اپنا نظریہ ہے کہ ہینسن نے ملک سے غداری کیوں کی۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کی وجہ اس کی ’انا‘ تھی وہ خود کو خدا سمجھتا تھا اور وہ سمجھتا تھا کہ وہ امریکہ اور روس کے معاملات کو کنٹرول کر سکتا ہے۔‘

وہ ہینسن کو امریکی تاریخ کا سب سے تباہ کن جاسوس قرار دیتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ اتنے لمبے عرصے تک اس نے امریکہ کو نقصان پہنچایا اور اس کی دی گئی معلومات کے نتیجہ میں کتنے لوگ مارے گئے۔ اس لیے جو کچھ جیسے ہوا یہ صرف حیرت انگیز تھا۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ