ماتا ہاری: ڈانسر سے جاسوس بننے والی خاتون، جن کی زندگی ایک صدی بعد بھی معمہ ہے
اس واقعے کو پوری ایک صدی ہو گئی ہے جب جرمنی کے لیے جاسوسی کے الزام میں ماتا ہاری کو فرانس میں سزائے موت دے دی گئی تھی۔ دوسرے الفاظ میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ایک صدی پہلے ایک ولندیزی ڈانسر اور اپنے وقت کی مشہور داشتہ کا دوسرا جنم ہوا اور وہ ایک تاریخی شخصیت بن گئی۔
ماتا ہاری کی پہلی سوانح عمری سنہ 1917 میں منظر عام پر آ گئی تھی۔ اس کے بعد سے ایسے 250 ناول اور سوانح حیات لکھی جا چکی ہیں جن کا موضوع ماتا ہاری کی زندگی ہے۔ اس کے علاہ ان کی زندگی پر بننے والے سٹیج ڈراموں، ٹی وی سیریز اور فلموں کا ایک طویل سلسلہ ہے، جن میں سے سب سے مشہور سنہ 1931 میں بننے والی فلم ہے جس میں ماتا ہاری کا کردار اپنے وقت کی معروف اداکارہ گریٹا گاربو نے ادا کیا تھا۔
یہ صرف ان ڈراموں، ناولوں، فلموں اور دیگر کتب کی تعداد ہے جن میں ماتا ہاری کی شخصیت کو باقاعدہ موضوع بنایا گیا۔ ان کے علاوہ ایسی بہت سی فرضی جاسوس حسینائیوں کے کرداروں کے بارے میں بھی یہ واضح ہے کہ انھیں تخلیق کرنے والوں کے ذہن میں بھی ماتا ہاری کی مثال تھی۔
اس حوالے سے سنہ 1931 کی فلم ’ڈس آنرڈ‘ سے لے کر ایلفرڈ ہِچکاک کی فلموں کی مثال دی جا سکتی ہے جن میں ہمیشہ ایک ایسی خاتون جاسوس ہوتی ہے جو اپنے مشن میں کامیابی کے لیے جب چاہتی ہے اپنی جنسی کشش کو استعمال کر لیتی ہے۔
یہ سلسلہ جاری ہے اور اگر آپ فلم ’ریڈ سپیرو‘ (سرخ چڑیا) کا ٹریلر دیکھیں تو اس میں بھی جنیفر لارینس ایک ایسی ہی روسی جاسوسہ کے روپ میں دکھائی دیتیں ہیں جو دشمن کو اپنی جنسی کشش سے ورغلانے کے تمام ہتھکنڈوں سے لیس ہوتی ہے۔
شادی ختم ہونے کے بعد ماتا ہاری نے خود کو ایک غیر یورپی ّانسر کے طور پر متعارف کرایا اور سنہ 1905 تک پیرس کے ایک میوزیم میں ان کی تصاویر لگ چکی تھیں
ہو سکتا ہے خاتون جاسوس کے ان فلمی کرداروں کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہ ہو لیکن اگر آپ ماتا ہاری کی زندگی پر نظر دوڑائیں تو آپ کو لگتا ہے کہ انھوں نے ایسے ہتھکنڈے استعمال کیے تھے۔
ان کی زندگی پر ایک کتاب کے مصنف پیٹ شِپمین کے بقول ماتا ہاری آپ کو ’شروع سے آخر تک ایک ایسے کردار کی شکل میں نظر آتی ہیں جو مسلسل خود میں ردوبدل کرتا رہتا ہے۔‘
اپنے خاندانی پس منظر کے حوالے سے ماتا ہاری جس قسم کے بڑے بڑے دعوے کرتی دکھائی دیتی ہیں، ان کی بدولت ماتا ہاری کو لوگوں کے سامنے اپنی بڑی شخصیت کی شبیہ بنانے میں مدد ملی، ایک ایسی انوکھی خاتون کی شبیہ جس کے ہاں آپ کو سیکس، حسن کا سحر، مکروفریب اور خطروں سے کھیلنے کی عادت، سب کچھ دکھائی دیتا ہے لیکن پھر یہی چیزیں اکتوبر سنہ 1917 میں 41 سال کی عمر میں ان کی موت کا سبب بن جاتی ہیں۔
خود کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا، یہ ایک ایسی مجبوری تھی جو ماتا ہاری کو اپنے والد سے ورثے میں ملی تھی۔ ان کے والد کا نام ایڈم زیلے تھا جو ہالینڈ کے قصبے لیوواردنے میں ٹوپیوں (ہیٹ) کی دکان چلاتے تھے لیکن انھیں ’نواب‘ کہلوانے کا بہت شوق تھا۔
انھوں نے بچپن سے ہی اپنی بیٹی مارگریٹا کو بھی یہی تربیت دی کہ وہ بھی زرق برق لباس پہنا کرے لیکن والد کا تمام لاڈ پیار ان کے لڑکپن میں اس وقت اچانک ختم ہو گیا جب والدین میں طلاق ہو گئی اور پھر ان کی والدہ چل بسیں۔ اس کے بعد مارگریٹا اپنے مختلف رشتہ داروں کے ہاں رہنے لگیں۔ انھیں سکول ٹیچر بنانے کے لیے ایک کالج میں داخل کیا گیا لیکن پھر یہ افواہ پھیل گئی کہ مارگریٹا کا کالج کے ہیڈ ماسٹر سے معاشقہ چل رہا ہے۔ نتیجتاً مارگریٹا کو کالج سے نکال دیا گیا لیکن ہیڈ ماسٹر صاحب اپنے عہدے پر براجمان رہے۔
ماتا ہاری کو فروری 1917 میں حراست میں لیا گیا اور جب اسی برس انھیں سزائے موت دی گئی تو وہ 41 برس کی تھیں
سیکس بکتا ہے
مارگریٹا کو پیسے اور معاشرے میں عزت کی ضرورت تھی اور پھر جب انھوں نے اخبار میں ایک فوجی کا اشتہار دیکھا تو ہاں کر دی۔ فوجی کا کہنا تھا کہ وہ بہت اکیلا ہے، ان دنوں چھٹیوں پر انڈونشیا سے واپس ہالینڈ آیا ہوا ہے اور اسے کسی ساتھی کی تلاش ہے۔
یہ سنہ 1895 کی بات ہے جب 18 سال کی مارگریٹا کی ملاقات ایمسٹرڈیم کے ایک عجائب گھر میں 39 سال کے روڈولف میکلوئڈ سے ہوئی۔ چھ دن بعد دونوں نے اپنی منگنی کا اعلان کر دیا لیکن مارگریٹا نے جلد ہی جان لیا کہ ایک تابعدار بیوی کا کردار نبھانا ان کے لیے ناممکن ہے۔
چنانچہ جب یہ دونوں جاوا کے جزیرے پر پہنچے، جہاں میکلوئڈ تعینات تھے تو ان کے تعلقات خراب ہونا شروع ہو گئے۔ میکلوئڈ اپنی اہلیہ پر برہم رہنے لگے کہ وہ فیشن اور گپ شپ میں بہت دلچسپی لیتی ہیں حالانکہ شادی کے بعد خود میکلوئڈ نے بھی اپنی زیادہ شراب نوشی اور دوسری عورتوں کے ساتھ جنسی تعلقات جیسی عادتوں کو کوئی لگام نہیں ڈالی۔
اس دوران میکلوئڈ نے اپنے بیٹے نورمن اور بیٹی نون کا تو خیال رکھا لیکن مارگریٹا کو برا بھلا کہنے کے علاوہ ان پر جسمانی تشدد بھی کیا اور پھر جب بیٹے نارمن کا انتقال ہو گیا تو اس کے ساتھ ساتھ یہ شادی بھی اپنی موت مر گئی۔
جب سنہ 1902 میں ہالینڈ میں دونوں میں طلاق کا اندراج ہوا تو بیٹی نون کو مارگریٹا کے سپرد تو کر دیا گیا لیکن ان کے پاس اپنا کوئی پیسہ نہیں تھا۔ ان حالات میں مارگریٹا کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا کہ وہ اپنی بیٹی کو میکلوئڈ کے حوالے کر کے اپنے لیے کوئی نیا کردار تلاش کرتیں۔
ایک مرتبہ پھر مارگریٹا کو زندہ رہنے کے لیے اپنی ذاتی صلاحیتوں، حاضر دماغی، اچھی شکل و صورت اور جنسی کشش کا سہارا لینا پڑا۔ ہالینڈ سے پیرس منقل ہونے کے بعد انھوں نے ایک مصوّر کی ماڈل کے طور پر کام کرنے کے علاوہ سرکس میں بھی کام کیا۔
ماتا ہاری نے اخباروں کے تراشوں اور مخلتف تصویروں کی مدد سے ایک کتاب بھی بنائی تھی جو ہالینڈ میں ان کے آبائی قصبے میں ایک عجائب گھر میں رکھی ہوئی ہے
اسی دوران ایک دوست نے مشورہ دیا کہ وہ سیلون میں ڈانسر کے طور پر کام شروع کر دیں جہاں آنے والے اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے مہمان دنیا کے دوسرے علاقوں کے کلچر اور آرٹ کے شوقین تھے۔ ایک دوسرے دوست نے تجویز دی کہ مارگریٹا کو خود کو بطور ڈانسر ایک نئے نام سے متعارف کرانا چاہیے اور دوست نے جو نام تجویز کیا وہ تھا ’ماتا ہاری۔‘
انڈونیشیا کی (ملے) زبان میں ماتا ہاری کا مطلب ’دن کی آنکھ‘، ’چڑھتا سورج‘ یا ’صبح‘ ہوتا ہے۔ یوں مارگریٹا کی زندگی میں ایک نئی صبح کا آغاز ہو گیا۔
پیرس کے سٹیج پر نمودار ہوتے ہی ماتا ہاری نے ہلچل مچا دی۔ اس کی وجہ صرف یہ نہیں تھی کہ اپنے مخصوص ہیجان انگیز رقص کے دوران یہ نئی ڈانسر اپنے جسم پر لپٹے ہوئے پردوں کو ایک ایک کر کے اتار پھینکتی اور برہنہ ہو جاتیں بلکہ دیکھنے والوں کی نظر میں اس نئی ڈانسر کو جاذب نظر بنانے میں ہیروں سے مزیّن تاج اور سینے کے گرد لپٹی ہوئی واجبی سے چمکدار کپڑے جیسے تکلفات کا بھی بڑا کردار تھا۔
اگر کسی شائق کے لیے یہ روایت شکن اور باغیانہ حرکات بھی اسے ماتا ہاری کا گرویدہ بنانے کے لیے ناکافی ثابت ہوتیں تو ماتا ہاری اسے یہ کہانی بار بار سناتیں کہ ان کا رقص بالکل ویسا ہی ہوتا ہے جو جزیرہ جاوا کے مندروں میں کیا جاتا ہے۔
یوں دیکھنے والوں کو خود کو یہ بتانے میں آسانی ہو جاتی کہ وہ سیلون میں کوئی فحش اور بے لباس رقص دیکھنے نہیں جاتے بلکہ وہ تو ’پراسرار مشرق‘ کی مذہبی رسومات کی ایک جھلک دیکھنے آتے ہیں تاکہ مشرقی تہذیب کے بارے میں اپنے علم میں اضافہ کر سکیں۔
ان کے آبائی قصبے لیووارڈن میں نصب ماتا ہاری کا یہ مجسمہ خواتین کی آزادی، ہمت اور جذبے کی علامت سمجھا جاتا ہے
ماتا ہاری کی زندگی پر ایک کتاب کی مصنفہ جُولی وھیل وائٹ کہتی ہیں کہ ماتاہاری کی برہنگی کو آرٹ کی نظر سے دیکھا جاتا تھا نہ کہ بازاری ننگے پن کی مثال کے طور پر۔ ان کے بقول چونکہ ماتا ہاری نے ’اپنے فن کا آغاز بڑے سٹیج کی بجائے ایک سلیون میں منعقد کی جانے والی نجی محفلوں سے کیا تھا، اسی لیے انھیں عزت دی جاتی تھیں اور چونکہ (اس دور میں) ایساڈورا ڈنکن اور کچھ دوسرے لوگ کلاسیکی روایت کے علاوہ دیگر تہذیبوں کچھ چیزیں مستعار لیکر ڈانس کو ایک نیا انداز دے رہے تھے، اس لیے ماتا ہاری کے ڈانس کی محفلوں کو بھی ایک ثقافتی محفل سمجھا جاتا تھا۔‘
ایک اور خاص بات یہ تھی کہ ماتاہاری نہ صرف سٹیج پر کلچر کے نام پر ہیجان انگیز رقص سے شائقین کو اپنا گرویدہ بنا رہی تھیں بلکہ باقی زندگی میں بھی یہی کر رہی تھیں۔
مثلاً انھوں نے کچھ صحافیوں کو یہ بتا رکھا تھا کہ ان کی پیدائش ہی جاوا کی ہے اور ان کے والدین یورپی تھے جبکہ کچھ دیگر لوگوں کو یہ کہا کہ ان کی والدہ انڈین تھیں اور وہ ایک مندر میں مذہبی رقص کیا کرتی تھیں۔
شاید یہی وجہ ہے کہ ایک مرتبہ ایک اخبار نے لکھا تھا کہ ’ماتا ہاری ہندوستان کی تمام شاعری کی مجسم تصویر ہیں۔ ہمیں ماتا ہاری کی شکل میں انڈیا کی تہذیب کی پراسرار (گہرائی)، ان کی جنسیت، اس میں پوشیدہ لذت اور اس کی جادوئی کشش، سب کچھ دکھائی دیتا ہے۔‘
سنہ 1931 میں بننے والی فلم ’ماتا ہاری‘ میں مرکزی کردار گریٹا گاربو نے ادا کیا تھا۔ فلم میں ان کی زندگی تو دکھائی گئی لیکن فائرنگ سکوائڈ کے سامنے کھڑا کر کے گولی مار دینے والا منظر نہیں دکھایا گیا
پیرس کے بیل ایپوخ کے سٹیج کی روح رواں ہونے کے ساتھ ساتھ ماتا ہاری نے اپنی شہرت کے عروج پر برلن، ویانا، مونٹی کارلو اور میلان کے دورے بھی کیے۔اور وہ جہاں بھی جاتیں، ان کے پاس اپنے امیر چاہنے والوں کی کمی نہ ہوتی۔
یہ لوگ ماتا ہاری کو ہر وہ پرتعیش سہولت فراہم کرتے، جس کی وہ اب عادی ہو چکی تھیں۔ شاید اسی لیے جب پہلی جنگ عظیم شروع ہو گئی اور ایمسٹرڈیم میں جرمنی کے قونصل خانے نے انھیں فرانس کے راز چرانے کے لیے 20 ہزار فریکنس کی خطیر رقم کی پیشکش کی تو یہ کوئی غیرمنطقی بات نہ تھی۔
ماتا ہاری نہ صرف کئی زبانیں بول سکتی تھیں، وہ یورپ بھر میں گھومتی پھرتی تھیں بلکہ وہ یورپ کے کئی سرکاری افسروں، سیاستدانوں، امرا اور صنعتکاروں کے ساتھ نجی نوعیت کے تعلقات بھی قائم کر چکی تھیں۔ ایسے میں ان سے بہتر کون ہو سکتا تھا جو یہ معلوم کر سکتا کہ بڑی بڑی شخصیات بند دروازوں کے پیچھے کیا باتیں کرتی ہیں۔
معاشقوں سے بھرپور زندگی
فرانسیسی خفیہ ایجنسی کے سربراہ جارجز لیڈوکس کو ماتا ہاری کو بطور جاسوس استعمال کرنے والی تجویز پسند آئی اور ماتا ہاری نے بھی پیشکش قبول کر لی لیکن انھوں نے فرانسیسیوں سے یہ ذکر نہیں کیا کہ وہ اس سے پہلے فرانس کے دشمن، جرمنی کو بھی ہاں کر چکی ہیں۔
ماتا ہاری یا تو نہایت چالاک خاتون تھیں یا بے وقوفانہ حد تک سادہ لوح۔ ان کی زندگی پر تحقیق کرنے والے لوگوں کی اکثریت کا خیال ہے کہ وہ بے وقوف تھیں۔
جولیا وھیل وائٹ کہتی ہیں کہ ماتا ہاری ’ہمیشہ خود کو نئے کردار میں ڈھال لیتی تھی۔ جیسے انھوں نے (مارگریٹا) سے ماتا ہاری کا روپ دھار لیا لیکن انھیں یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ اگر انھوں نے جنگ کے دنوں میں کوئی نیا روپ دھار لیا اور جاسوسہ بن گئی تو بہت خطرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ (جاسوس کا کردار) ادا کرنا کوئی کھیل نہیں تھا اور یہ چیز شائقین کے سامنے اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے سے بالکل مختلف تھی۔‘
سنہ 1964 میں بننے والی فلم ’ماتا ہاری: ایجنٹ ایچ 21‘ میں انھیں گولی مارنے کا منظر شامل تھا
ایک باقاعدہ جاسوس کی حیثیت میں انھوں نے اتنا کم کام کیا کہ ان کے کچھ سوانح نگاروں کو شک گزرتا ہے کہ آیا ماتا ہاری کو جاسوس کہا بھی جا سکتا ہے یا نہیں۔
مثلاً پیٹ شِپمین لکھتے ہیں کہ ’اگر وہ واقعی ایک جاسوسہ تھیں تو ماتا ہاری کا شمار یقیناً دنیا کے سب سے نااہل خفیہ ایجنٹوں میں ہونا چاہیے۔۔۔ وہ لیڈروں کو (خفیہ زبان میں) لکھے خط عام ڈاک میں ڈال دیتی تھیں۔۔۔ وہ انھیں ٹیلی گراف (تار) بھی سب کے سامنے بھیج دیتی تھیں، وہ کئی مرتبہ ان کے دفتر پہنچ جاتی تھیں۔۔۔ انھیں ہر جگہ پہچان لیا جاتا تھا اور لامحالہ لوگوں کی توجہ ان پر مرکوز ہو جاتی۔۔۔ (آپ ہی بتائیں) اس قسم کی خاتون کیسے ایک کامیاب جاسوسہ ثابت ہو سکتی تھی اور وہ بھی بیک وقت دو دشمن ملکوں کی (ڈبل ایجنٹ) جاسوسہ۔‘
یہ بھی پڑھیے
ایک شخص مشہور ہو اور ساتھ ساتھ خفیہ ایجنٹ بھی ہو، یہ تو تقریباً کھلا تضاد ہے لیکن ماتا ہاری کی ذات میں چالبازی اور شہرت کا ایسا عجیب امتزاج پایا جاتا ہے کہ جاسوسی کی دنیا کی کتابوں کے بہت سے کرداروں میں ہمیں ماتا ہاری کا عکس نظر آتا ہے۔
یہ فرضی کردار ماتا ہاری سے متاثر ہو کر تراشے گئے۔ جیمنز بانڈ کے کردار کو لے لیجیے، سوائے اس کے یہ کردار ایک مرد ہے، جیمزبانڈ اور ماتا ہاری میں کوئی خاص فرق دکھائی نہیں دیتا۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ جیمز بانڈ ہر دوسری خاتون پر ڈورے ڈال لیتا ہے اور دنیا بھر میں جہاں جاتا ہے داد عیش دیتا پھرتا ہے بلکہ یہ کردار ماتا ہاری کی طرح جہاں جاتا ہے اپنا نام بھی نہیں چُھپاتا۔
یہ بنیادی خیال کہ خفیہ ایجنٹ اپنی جنسی کشش کو استمعال کر کے اپنے مقصد تک پہنچ سکتا ہے، فکشن لکھنے والوں کو ماتا ہاری کی زندگی سے ملا
فرضی کرداروں کی بات فکشن پر چھوڑتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ جس نے بھی جاسوسی کی دنیا کو بہت چمک دمک والی دنیا سمجھا، وہ یہ کام زیادہ عرصے تک نہیں کر سکا۔ ماتا ہاری کے ساتھ بھی یہی ہوا اور انھیں ڈبل ایجنٹ بننے کے الزام میں فروری 1917 میں گرفتار کر لیا گیا۔
فرانسیسی حکام کے پاس ماتا ہاری کے خلاف کوئی خاص ثبوت نہیں تھے لیکن جنگ کے دوران ملک کی اتنی تباہی ہو چکی تھی کہ قومی جذبے کی خاطر حکام نے کسی نہ کسی کو مورد الزام ٹھہرانا ہی تھا۔
شاید یہی وجہ ہے کہ ماتا ہاری کے کورٹ مارشل کے دوران سرکاری وکیل نے ان کے اعمال پر توجہ مرکوز نہیں کی بلکہ ان کے کردار کو نشانہ بنایا۔
فوجی عدالت اور لوگوں کو بتایا گیا کہ یہ خاتون بہت آزاد خیال ہیں، آبرو باختہ ہیں، ان کا کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں اور یہ جب چاہتی ہیں اپنے اصل ماضی کو بھلا کر ایک نئی کہانی گھڑھ لیتی ہے۔
لیکن یہ باتیں ہمیں دل پر لینے کی ضرورت نہیں کیونکہ بقول شخصے یہی تو ماتا ہاری کے وہ اوصاف تھے جن کی بدلت وہ امن کے دنوں میں اتنی زیادہ مشہور ہو چکی تھیں لیکن جنگ کے دنوں میں یہی اوصاف انھیں سزائے موت دینے کے لیے کافی سمجھے گئے۔
سزائے موت کے بعد کے عشروں میں ماتا ہاری کو ایسی عورت کے طور پر پیش کیا جاتا رہا جو اپنا کام نکلوانا جانتی ہیں۔ ایک ایسی شیطانی عورت جس نے یہ ثابت کیا کہ وہ عورت جو جنسی لحاظ سے پراعتماد ہوتی ہے، اسے اپنے کیے کی سزا ملنی چاہیے لیکن بعد کے عشروں میں حقوں نسواں کے حامیوں نے ماتا ہاری کو ایک مرتبہ پھر اپنایا لیا۔
ان کے خیال میں ماتا ہاری وہ عورت تھی جس نے مردوں کی دنیا میں اپنی ذہانت اور جذبے کی بدولت اپنی ایک نئی شناخت بنائی اور اسے زندہ کیا۔ ایک صدی گزر جانے اور 250 کتابیں لکھے جانے کے بعد ہم آج بھی پوری طرح نہیں جانتے کہ ماتا ہاری آخر اپنی حرکات سے حاصل کیا کرنا چاہتی تھیں۔
لگتا ہے ان کی زندگی پر پڑے پردے یوں ہی سرکتے رہیں گے کیونکہ بہت سے لوگوں کا تجسس ابھی ختم نہیں ہوا۔
Comments are closed.