لی مینگ-چو: تائیوان کے ’جاسوس‘ تاجر جنھیں تصاویر لینے کے الزام میں 1400 دنوں تک زیر حراست رکھا گیا

لی مینگ-چو

  • مصنف, جوئے چنگ
  • عہدہ, بی بی سی نیوز

پیر کو بیجنگ ایئرپورٹ سے واپس تائیوان لوٹنے کے لیے تیار تاجر لی مینگ-چو کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ چین کی فضائی حدود سے باہر جانے والی یہ پرواز تائیوان کے تاجر کے بُرے دنوں کے خاتمے کا سبب بنی جنھیں 14 سو دنوں سے چین میں حراست میں رکھا گیا۔

انھوں نے اس ہفتے بی بی سی کو بتایا کہ ’پاسپورٹ چیک کرنے والی جگہ سے گزر کر مجھے بہت سکون محسوس ہو رہا ہے اور میں کچھ لمحے کے لیے چلایا بھی۔ میں دوبارہ آزاد دنیا میں آ چکا ہوں۔‘

لی کو سنہ 2019 میں اس وقت گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا تھا جب انھوں نے شینزن میں پولیس افسران کی تصاویر لی تھیں۔ ان پر جاسوسی اور ریاست کے راز چرانے جیسے الزامات عائد کیے گئے مگر انھوں نے اس فرد جرم کی صحت سے انکار کیا ہے۔

انھیں جولائی 2021 میں رہا کیا گیا مگر انھیں چین سے باہر جانے سے روک دیا گیا کیونکہ انھیں تمام سیاسی حقوق سے محروم کر دیا گیا تھا۔

بیچنگ نے بہت کم ہی کسی کو اس طرح کی سزا سنائی ہے، جس میں ملک سے باہر جانے پر پابندی عائد کر دی گئی ہو اور وہ بھی ایک ایسے شخص پر جو ’مین لینڈ‘ چین کا باشندہ ہی نہ ہو۔

سماجی کارکنان کا کہنا ہے کہ لی کی تائیوانی شناخت ان کے خلاف اتنی سخت کارروائی کی وجہ بنی ہو کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی پائی جاتی ہے۔

تائیوان اپنے آپ کو خود مختار علاقے کے طور پر متعارف کراتا ہے جو کہ چین سے مختلف خطہ ہے۔ تائیوان کا اپنا نظام اور منتخب سربراہ مملکت ہے۔

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

تاہم چین تائیوان کو اپنے ایک ٹوٹے ہوئے صوبے کے طور پر دیکھتا ہے جسے اگر ضرورت پڑی تو بالآخر زبردستی بیجنگ کے زیر انتظام لایا جائے گا۔

چین میں کاروبار کرنے والے ہزاروں تائیوانیوں کی طرح لی نے اگست 2019 میں چین کا کاروباری دورہ کیا۔ اس وقت وہ ایک ٹیکنالوجی کی کمپنی میں کام کر رہے تھے۔

وہ چین کے لیے کوئی اجنبی نہیں تھے کیونکہ وہ پہلے یہاں کام کرتے تھے اور مشرقی شہر سوزو میں رہتے تھے اور سال میں تقریباً دو بار سرزمین چین کا سفر بھی کرتے تھے۔

جب انھوں نے چین کا دورہ کیا تو اس وقت کشیدگی بہت زیادہ عروج پر تھی کیونکہ ہانگ کانگ سب سے زیادہ وسیع پیمانے پر جمہوریت نواز مظاہروں کی لپیٹ میں تھا، جو اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھنے میں آئے۔ تقریباً ہر ہفتے کے آخر میں شہر میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان بڑھتی ہوئی پرتشدد جھڑپیں دیکھنے میں آئیں۔

مظاہرین سے ہمدردی رکھنے والے لی نے ہانگ کانگ کا ایک مختصر دورہ کیا، جہاں انھوں نے وہاں دور سے ایک ریلی کا نظارہ کیا اور حمایت کے پیغامات والے پمفلٹ بھیجے۔ پھر وہ ایک ساتھی سے ملنے کے لیے سرزمین چین کے پڑوسی ملک شینزن گئے۔

اس وقت سینکڑوں مسلح پولیس افسران جمع تھے اور بکتر بند گاڑیاں شینزین کے ایک سٹیڈیم میں نمائش کے لیے موجود تھیں۔ بہت سے لوگوں کو خدشہ تھا کہ بیجنگ ہانگ کانگ میں مظاہروں کو روکنے کے لیے ان فورسز کو بھیجے گا۔

انھوں نے اپنے ہوٹل کے کمرے کی کھڑکی سے اس سارے منظر کو دیکھا تو وہ سٹیڈیم چلے گئے اور کچھ تصاویر کھینچیں۔ انھوں نے کہا کہ وہاں تصاویر لینے سے متعلق کوئی انتباہ نہیں تھا اور وہ پولیس قافلے کے درمیان سے نہیں گزرے۔

ان کے مطابق وہاں پر موجود بہت سے دوسرے لوگ بھی اس سارے منظر کی تصویر کشی کر رہے تھے۔

لی اس بات سے انکاری کہ وہ جاسوسی کر رہے تھے۔ ان کے مطابق ’میں صرف ایک متجسس راہگیر تھا۔۔۔ اگر یہ واقعی کوئی ریاستی راز ہوتا تو ہوٹل سے سب کچھ کیسے دیکھا جا سکتا تھا؟‘

ٰچین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

جب وہ شینزین سے روانہ ہو رہے تھے تو دس ویڈیو کیمرے جو وہ اپنے کاروباری سلسلے میں واپس تائیوان لے جا رہے تھے ان پر ایئرپورٹ کے حکام کی نظر پڑ گئی۔

انھوں نے ان کو تلاشی کے لیے روکا۔ ان کے سامان اور فون کی تلاشی لی گئی۔ حکام کو ان کے فون سے شینزین سٹیڈیم میں تقسیم کے گئے پمفلٹس کے علاوہ پولیس فورسز کی تصاویر بھی ملیں۔

اس کے بعد قومی سلامتی کے افسران انھیں ایک ہوٹل لے آئے۔ 72 دنوں تک انھیں اپنے کمرے سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی گئی اور ہر روز تین لوگ ان پر نظر رکھنے کے لیے مامور تھے۔ انھیں ٹی وی دیکھنے، اخبار پڑھنے، پردے کھولنے یا بولنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔

لی کا کہنا ہے کہ ’میں درحقیقت ہر روز ان کی تفتیش کا ہی منتظر رہتا تھا، اور تو کوئی بھی مجھ سے بات کرنے کو تیار نہیں تھا۔ ہر روز میرے پاس کرنے کے لیے کوئی کام نہیں ہوتا تھا، اس لیے میں صرف فرش، بیڈ کے نیچے اور چھت کی صفائی کرتا رہتا تھا۔ یہ سب بہت تکلیف دہ تھا۔‘

سماجی کارکنان کا کہنا ہے کہ بیجنگ اکثر قومی سلامتی کے جرائم میں ملوث افراد کے خلاف حراست کے خفیہ اور من مانے حربے استعمال کرتا رہتا ہے اور ایسے ملزمان پر بغیر کوئی مقدمہ قائم کیے مہینوں تک ایسے زیر حراست رکھا جا سکتا ہے۔

لی کو اس ہوٹل سے نکال کر ایک اور حراستی مرکز میں لے جایا گیا اور کئی مہینوں بعد وہ دوبارہ منظر عام پر آئے۔

وہ سرکاری نشریاتی ادارے سی سی ٹی وی پر یہ کہتے ہوئے نمودار ہوئے کہ انھیں ’مادر وطن کو کسی حد تک نقصان پہنچانے‘ کے اپنے اس عمل پر افسوس ہے۔

لی نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے اس امید پر معذرت کی ہے کہ انھیں جلد از جلد رہا کر دیا جائے گا۔ ان کے مطابق آپ کے وقار اور مرتبے جیسی چیزوں سے ہی صرف آپ کو پریشانی میں مبتلا نہیں رکھا جاتا۔

Lee

،تصویر کا ذریعہCCTV

لیکن اس کے فوراً بعد ان پر مقدمہ چلا اور انھیں ’غیر ملکی جاسوسی اور غیر قانونی طور پر ریاستی راز بھیجنے‘ کے جرم میں ایک سال اور دس ماہ قید کی سزا سنائی گئی۔

چین کے سرکاری میڈیا نے اس کیس کی بہت کوریج کی، جس میں الزام لگایا گیا کہ تائیوانی تاجر نے شینزین سٹیڈیم کی تصاویر تائیوان کے گروپوں کو بھیجنے کے لیے حاصل کی تھیں۔

انھوں نے اس حقیقت کا بھی حوالہ دیا کہ انھوں نے امریکہ میں تعلیم حاصل کی تھی اور تائیوان کی غیر سرکاری تنظیموں کے رکن تھے۔ ان پر یہ بھی الزام لگایا گیا تھا کہ وہ تائیوان کی ’تحریک آزادی‘ کے کارکن ہیں، جس سے لی انکاری ہیں۔

لی نے اپنی سزا گوانگ ڈونگ جیل میں پوری کی، جہاں انھیں 15 دیگر قیدیوں کے ساتھ ایک چھوٹے سے سیل میں بند کر دیا گیا۔ لیکن لی کے لیے، جیل رہائشی حراستی مرکز سے ایک بہتر جگہ تھی کم از کم ان کے ساتھ کچھ لوگ تو موجود تھے۔

جیل میں انھیں ایک پروڈکشن لائن میں کام پر لگایا گیا تھا اور انھیں ہر روز کمپیوٹر کیبلز کو لپیٹنا پڑتا تھا۔ انھوں نے کہا کہ انھیں کہا گیا کہ اگر وہ اپنے کاموں کو وقت پر مکمل کرنے میں ناکام رہے تو انھیں جسمانی طور پر سزا دی جائے گی۔

چین کے تائیوان امور کے دفتر نے بی بی سی کے سوالات کا جواب نہیں دیا۔ بی بی سی نے لی کے تمام دعوؤں کی آزادانہ طور پر تصدیق کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے، لیکن ان کی قید کا عرصے وہی بنتا ہے جو دوسرے قیدیوں نے بتایا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

اپنے مقدمے کی سماعت کے دوران لی کو ’سیاسی حقوق سے محرومی‘ کی سزا سنائی گئی تھی۔ اس وقت انھوں نے اس پر زیادہ غور نہیں کیا۔ انھوں نے کہا کیونکہ وہ اپنے آپ کو چین کے شہری کے طور پر نہیں دیکھ رہے تھے۔

لیکن اپنی مقررہ رہائی سے ایک ماہ قبل وہ یہ جان کر حیران رہ گئے کہ وہ مزید دو سال تک چینی سرزمین نہیں چھوڑ سکتے۔

ہیومن رائٹس واچ کی یاکیو وانگ نے کہا کہ لی کے معاملے میں ’چینی حکومت یہ بتانا چاہتی تھی کہ وہ چینی شہری ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ قومی سلامتی کے جرائم میں چین میں گرفتار تائیوان سے جڑے افراد کی تعداد کا پتہ لگانا مشکل ہے۔ تاہم یہ فرض کرنا ’معقول‘ ہے کہ بیجنگ اور تائیپی کے درمیان بگڑتے تعلقات کے درمیان یہ تعداد بڑھ رہی ہے۔

اپریل میں تائیوان میں مقیم پبلشر فوچا، جو اکثر بیجنگ پر تنقیدی کتابیں چھاپتے تھے، کو قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کے الزام میں تحقیقات کے لیے حراست میں لیا گیا تھا۔ اُس مہینے کے شروع میں تائیوان کے کارکن یانگ چی یوان پر علیحدگی کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

لی کے ساتھ چینی حکام کے سلوک میں گذشتہ کیسز کے مقابلے میں فرق اس بات کی علامت بھی ہو سکتا ہے کہ وہ تائیوان کے قیدیوں پر سختی کر رہے ہیں۔

جب انسانی حقوق کے کارکن لی مینگ-چی نے گزشتہ سال اپنی پانچ سال کی سزا مکمل کی تو انھیں فوراً واپس تائیوان جانے کی اجازت دی گئی۔

Lee

لی مینگ چو کے معاملے میں انھوں نے کہا کہ رہائی کے بعد پہلے ہفتوں میں چینی پولیس نے ان سے کئی بار رابطہ کیا۔ جب وہ شنگھائی میں فلائٹ میں سوار ہو کر چین سے باہر جانے کی کوشش کی تو انھیں امیگریشن افسران نے روک دیا۔

تھوڑی دیر بعد انھوں نے محسوس کیا کہ وہ پولیس کی زیادہ سخت نگرانی میں ہیں۔ اب چونکہ وہ ملک چھوڑ کر بھی کہیں نہیں جا سکتے تھے تو اس لیے سفر کے شوقین تائیوان کے اس تاجر نے چین کے 100 شہروں کا دورہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کے لیے انھوں اپنی جمع پونجی اور اپنے خاندان کے فنڈز کو استعمال کیا۔

لیکن وہ اس سارے سفر میں تن تنہا ہی تھے۔ ان کے اہل خانہ ان کے خلاف مزید انتقامی کارروائی کے خوف سے اس سے رابطہ کرنے سے ہچکچاتے تھے۔ تائیوان کے دیگر تاجروں نے خود کو ان سے دور کر لیا، اس ڈر سے کہ چینی حکام انھیں بھی نشانہ بنائیں گے۔

انھوں نے کہا کہ ’میں پہلے ہی بیجنگ میں اس انتقامی کارروائی سے گزر چکا ہوں اور اب اپنے ہی لوگوں سے الگ تھلگ رہنا دوسری بار اس مصیبت سے گزرنے کے مترادف تھا۔

انھوں نے وقت کے ساتھ ساتھ چینی شہریوں سے بھی دوستی کر لی، جن میں کارکنان اور انسانی حقوق کے وکلا بھی شامل تھے۔ ابتدائی طور پر وہ متفکر تھے کہ ان کے سرکاری میڈیا کے سامنے آنے کے بعد انھیں پہچان لیا جائے گا یا ان پر حملہ بھی کیا سکتا ہے۔

لی نے کہا کہ یہ اس سب خوف کے برعکس تھا۔ ان کے مطابق وہ جن لوگوں سے ملے ان میں سے بہت سے ان پر بہت مہربان تھے اور یہاں تک کہ انھیں گھر پر رہنے کے لیے جگہ کی بھی پیشکش کی۔

لی اب جاپان میں ہیں، جہاں وہ تائیوان واپس آنے سے پہلے ماضی کی تلخی سے باہر آنا چاہتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ وہ چین کے بارے میں صرف منافع بخش کاروبار کرنے کی جگہ کے طور پر سوچتے تھے۔۔۔ لیکن اب انھیں خوب سبق مل چکا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’میں نے ایسی بہت سی بری چیزوں پر زیادہ توجہ نہیں دی تھی جو پس پردہ ہو رہی تھیں۔‘

ان کے مطابق ’میں نے سوچا کہ کمیونسٹ پارٹی بہتر ہو گئی ہے۔ میری یہ سوچ اس وقت تک برقرار رہی جب تک میرے ساتھ یہ سب نہیں ہوا تھا کہ مجھے احساس ہوا کہ میں بہت ہی معصوم ہوں۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ