’لٹل بوائے‘: وہ لڑکیاں جنھوں نے انجانے میں ہیروشیما پر گرائے جانے والے تباہ کُن ایٹم بم کی تیاری میں مدد کی
’لٹل بوائے‘: وہ لڑکیاں جنھوں نے انجانے میں ہیروشیما پر گرائے جانے والے تباہ کُن ایٹم بم کی تیاری میں مدد کی
ان لڑکیوں کو بعد میں پتا چلا کہ وہ اس ایندھن کو بنانے کا کام کر رہی تھیں جس سے ایٹم بم تیار ہوا
یہ سنہ 1943 کی بات ہے جب دوسری جنگ عظیم کے وسط میں امریکہ کے ایک چھوٹے شہر ٹینیسی سے تعلق رکھنے والی روتھ ہڈلسٹن نے اپنے ہائی سکول کی تعلیم مکمل کی تھی۔
ہائی سکول کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد انھوں نے جرابیں تیار کرنے کے ایک مقامی کارخانے میں نوکری کر لی، لیکن وہاں انھوں نے دیکھا کہ ان کے ساتھ زیادہ تر کام کرنے والے قریبی شہر ’اوک رج‘ میں بننے والے ایک بڑے کارخانے میں کام کرنے کے لیے درخواستیں دے رہے ہیں۔
ان کی کئی دوستوں نے انھیں بھی نئی فیکٹری میں نوکری کی درخواست دینے کی ترغیب دی۔
روتھ نے فیصلہ کیا کہ وہ اچھی تنخوا پر ایک بڑی فیکٹری میں کام کرنے کا موقع نہیں گنوائیں گی۔ وہ سوچ رہی تھیں کہ امریکہ کے شعبۂ توانائی کے اس بڑے پراجیکٹ میں اگر انھیں نوکری کرنے کا موقع مل گیا تو ان کے لیے اس سے بہتر اور کیا ہو گا۔
کئی دہائیوں بعد اب روتھ 93 سال کی ہیں اور انھوں نے اٹامک ہیریٹیج فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ’وائسز فرام دی مین ہٹن پروجیکٹ‘ کے نام سے ایک خصوصی سیریز کے حصے کے طور پر ایک انٹرویو کے دوران اس سفر کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم دونوں کو نوکریاں مل گئیں۔‘
روتھ اور ان کے والد اس بات سے ناواقف تھے کہ وہ اوک رج نیشنل لیبارٹری کے لیے کام کر رہے تھے، جو مشہور مین ہٹن پروجیکٹ میں ایٹم بم بنانے کے خفیہ امریکی منصوبے کا ایک اہم حصہ تھا۔ اس پر حال ہی میں ریلیز ہونے والی مشہور فلم اوپن ہائیمر ہے۔ اوپن ہائیمر وہ ماہر طبیعیات ہیں جو پہلا جوہری ہتھیار بنانے میں کامیاب ہوئے تھے۔
روتھ نے اپنے ٹین ایج کے دوران اوک برج کے پلانٹوں میں سے ایک ’وائی-12‘ میں ’کیوبیکل آپریٹر‘ کے طور پر کام کرنا شروع کیا۔
سنہ 2018 کے انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ ‘ہم اسے اسی نام سے جانتے تھے لیکن اب وہ ہمیں ’کیلوٹرن کی لڑکیاں‘ کہتے ہیں۔’‘خیال رہے کہ سنہ 2018 میں اوک رج نیشنل لیب نے اپنی 75ویں سالگرہ منائی۔
18-19 سال کی ہزاروں لڑکیاں وہاں آپریٹرز کے طور پر کام کر رہی تھیں
’کیلوٹرن کی لڑکیاں‘ کیا کرتی تھیں؟
روتھ ان تقریباً 10,000 نوجوانوں کے گروپ کا حصہ تھیں جو نادانستہ طور پر ایک ایسے کام میں مصروف تھے جو ’لٹل بوائے‘ کو بنانے میں کلیدی حیثیت کا حامل تھا اور یہ لٹل بوائے نامی ایٹم بم دو سال بعد جاپان کے شہر ہیروشیما پر گرایا جانے والا تھا۔
یہ خواتین کیلوٹرونز کے کنٹرول پینل چلاتی تھیں۔ کیلوٹرن ایک ایسی مشین تھی جو یورینیم کے آئیسوٹوپس کو الگ کرنے کے لیے استعمال ہوتی تھی تاکہ اس کی افزودگی کی جا سکے اور اسے جوہری ایندھن کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔
اور وہ ایسا ہی تھا۔ اگرچہ وہ اس بات سے بے خبر تھے لیکن وائی-12 دراصل ایک ایسا پلانٹ تھا جسے صنعتی پیمانے پر برقی مقناطیسی آئیسوٹوپس کو الگ کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ اس میں ہلکے ترین یورینیم 235 کو سب سے بھاری اور عام یورینیم 238 سے الگ کیا جاتا تھا تاکہ اس کی افزودگی کی جا سکے۔
وہان 1,500 سے زیادہ کیلوٹرنز تھے اور اس ماس سپیکٹومیٹر کو امریکی جوہری کیمیا دان ارنسٹ لارنس نے یورینیم کی افزودگی کے لیے مین ہٹن پروجیکٹ کے حصے کے طور پر بنایا تھا اور یہ ایک انتہائی باریک اور حساس کام انجام دیتا تھا لیکن اس مشین کو چلانا اتنا پیچیدہ نہیں تھا۔ آپ کو بس میٹروں کی نگرانی کرنی ہوتی تھی اور یہ خیال رکھنا تھا کہ کب نوبز (گھنڈی) کو ایڈجسٹ کرنا ہے۔
جنگ کی وجہ سے ہنر مند مزدوروں کی کمی کو دیکھتے ہوئے پروجیکٹ کے پروموٹرز نے علاقے سے نوجوان خواتین کو بھرتی کرنے کا فیصلہ کیا۔
جانچ کی ایک سیریز کے ذریعے انھوں نے دریافت کیا کہ ان لڑکیوں نے بہت سے سائنسدانوں کے مقابلے میں ان مشینوں کی نگرانی کے دوران زیادہ بہتر کام کیا ہے، کیونکہ ماہرین کا رجحان مشینوں سے ہٹ جانے یا ان کے ساتھ تجربہ کرنے کی کوشش میں ہوتا تھا۔
روتھ کو یاد ہے کہ جب انھوں نے پہلی بار ان عجیب و غریب بڑی سی مشینوں کو دیکھا تھا۔
زیادہ تر لڑکے جنگی محاذ پر تھے اس لیے اس کارخانے میں زیادہ تعداد میں لڑکیاں رکھی گئی تھیں
روتھ نے وائی-12 میں کام پر اپنے پہلے دن کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ’جب انھوں نے ہمیں کام شروع کرنے کی اجازت دی، تو وہ ہمیں ایک ایسے کمرے میں لے گئے جو بھرا ہوا تھا، جسے ہم کیوبیکل کہتے تھے، جہاں دھات کے بڑے آلات نصب تھے جن میں ہر قسم کے گیجز تھے اون انھوں نے ہمیں ان کو چلانے کا طریقہ سکھایا تھا۔‘
’انھوں نے ہمیں سمجھایا کہ اگر کیلیبر دائیں طرف بہت دور چلا جائے تو ہمیں اسے دوبارہ مرکز میں کرنے کے لیے ڈائل کے ساتھ ایڈجسٹ کرنا ہو گا، اور اگر یہ بائیں طرف بہت دور چلا جائے تو بھی ایسا ہی کرنا ہے۔ بعض اوقات آپ اسے مستحکم نہیں کر پاتے تھے اور اس صورت میں آپ کو سپروائزر کو بلانا پڑتا تھا۔‘
یہ بھی پڑھیے
لڑکیوں کا اہم کام ٹینک میں درجہ حرارت کو مستحکم رکھنا تھا۔ اگر یہ بہت زیادہ گرم ہو جائے تو انھیں ٹھنڈا کرنے کے کا (مائع نائٹروجن کی شکل میں) طریقہ سکھایا گیا تھا۔
روتھ نے اپنے کام کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم سارا دن کیوبیکلز کے سامنے سٹول پر بیٹھ کر گزارتے اور بمشکل ہی باتھ روم جانے کے لیے اٹھتے تھے۔‘
’آپ کو جانے سے ڈر لگتا تھا کیونکہ اس دورانیے میں مشین ’آؤٹ آف آرڈر‘ ہوسکتی ہے، جیسا کہ ہم سے کہا گیا تھا۔‘
روتھ ہڈلسٹن اب 93 سال کی ہیں اور انھوں نے اس کارخانے میں کام کیا تھا جہاں یورینیم کی افزودگی کی جا رہی تھی
ریاستی راز
روتھ کو اس وقت کی جو چیز سب سے زیادہ یاد ہے وہ رازداری تھی جو تمام کاموں کے سلسلے میں برتی جاتی تھی۔
انھوں نے کہا کہ ’کام شروع کرنے سے پہلے ہمیں کئی ہفتوں تک تربیت دی گئی اور پہلی بات جو بتائی گئی وہ یہ تھی کہ وہاں کیا ہو رہا ہے یا ہم وہاں کیا کر رہے ہیں اس کے بارے میں کسی سے بات نہیں کر سکتے۔‘
‘اس بارے میں وہ بہت سنجیدہ تھے۔ انھوں نے ہمیں بتایا کہ اگر ہم کچھ کرتے ہوئے پکڑے گئے تو اس کے نتائج بھگتنے ہوں گے اور جرمانے کے ساتھ ساتھ ہمیں نوکری سے برطرف کردیا جائے گا۔‘
روتھ نے تسلیم کیا کہ اگر کوئی ان سے پوچھتا کہ وہ کیا کرتی ہیں تو وہ ’انھیں کچھ نہیں بتا سکتی تھیں کیونکہ سچ یہ ہے کہ میں واقعی نہیں جانتی تھی۔‘
اور حقیقت یہ ہے کہ روتھ کی ہی طرح زیادہ تر خواتین جنھوں نے خود کو یورینیم کی افزودگی کے لیے وقف کیا ہوا تھا وہ یہ بالکل نہیں جانتی تھیں کہ وہ کیا کر رہی ہیں۔
روتھ نے ایک بوڑھی عورت کے طور پر اعتراف کیا: ’میں نے اپنے آپ سے پوچھا ہے کہ ہم نے ایک دوسرے سے یہ کیوں نہیں پوچھا کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔‘
’ہم نے اس پر بات کیوں نہیں کی؟ لیکن سچ یہ ہے کہ مجھے یاد نہیں کہ اس وقت کبھی ہم نے اس پر غور کیا ہو۔‘
مین ہٹن پروجیکٹ نیشنل ہسٹوریکل پارک کے مطابق کچھ ’سلٹی (پھوہڑ) لڑکیاں‘ اس بارے میں زیادہ متجسس تھیں۔
ایجنسی نے نوٹ کیا کہ ’ان میں سے کئی خواتین نے اپنی ساتھی کارکنوں کے اپنے عہدوں سے غیر متوقع طور پر غائب ہونے کے واقعات کو یاد کیا، اکثر اس وجہ سے کہ وہ اپنے کام کے بارے میں بہت زیادہ متجسس تھیں۔‘
روتھ کو صرف اتنا یاد ہے کہ ’انھوں نے ہمیں صرف ایک ہی بات بتائی تھی کہ ہم جنگ جیتنے میں مدد کر رہے تھے، لیکن ہمیں یہ نہیں معلوم تھا کہ ہم کس چیز سے ان کی مدد کر رہے ہیں۔‘
رازداری کی یاددہانی کراتا ایک سائن بورڈ
ہیروشیما
یہ 6 اگست سنہ 1945 کی بات ہے جب امریکہ نے جاپان پر ایٹم بم گرایا تھا اور اس کے بعد ہی انھیں بتایا گیا تھا کہ وہ دو سال سے کیا کام کر رہے تھے۔ روتھ یاد کرتی ہیں کہ اس دن انھوں نے کیسا محسوس کیا تھا۔
‘جب اس کا اعلان ہوا تو میں کام پر تھی۔ پہلے تو آپ یہ سوچ کر خوش ہوئے کہ جنگ ختم ہو گئی ہے۔ پہلی چیز جو میں نے سوچی وہ یہ تھی: ’اب میرا بوائے فرینڈ واپس آ سکے گا۔‘ انھوں نے اپنے ساتھی کے بارے میں کہا جسے بہت سے دوسرے نوجوان امریکیوں کی طرح اتحادیوں کی طرف سے لڑنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔
انھوں نے کہا: ’لیکن پھر وہ ان تمام لوگوں کے بارے میں بات کرنے لگے جو وہاں مارے گئے تھے۔ اور پھر میں نے یہ سوچنا شروع کر دیا کہ اس میں نے بھی حصہ ڈالا تھا۔‘
لٹل بوائے نامی ایٹم بم 6 اگست کو ہیروشیما پر گرایا گیا
’لیکن آپ جانتے ہیں، جنگ تو جنگ ہوتی ہے اور آپ اسے روکنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں کر سکتے۔‘ انھوں نے اس جنگ کے بارے میں نتیجہ اخذ کیا جو اس حقیقت کے باوجود جاری رہا کہ نازیوں نے پہلے ہی مئی میں ہتھیار ڈال دیے تھے۔
انھوں نے کہا: ’مجھے اب بھی یہ خیال پسند نہیں ہے۔ لیکن آپ کو کرنا پڑتا ہے۔ کسی کو یہ کرنا ہوتا ہے۔‘
خیال کیا جاتا ہے کہ اس دن 50,000 سے 100,000 کے درمیان لوگ ہلاک ہوئے جب وائی-12 میں تیار ہونے والے 64 کلوگرام یورینیم-235 والا لٹل بوائے پھٹ پڑا۔
دھماکے سے تقریباً 4.5 کلومیٹر کے دائرے میں 4,000 سینٹی گریڈ سے زیادہ درجۂ حرارت والی لہر پیدا ہوئی۔
دھماکے میں زندہ بچ جانے والوں میں سے 50 فیصد بعد میں تابکاری سے مر گئے۔
انتہائی تابکار مواد کے قریب کام کرنے کے باوجود ان ‘سلگر لڑکیوں’ پر کوئی اثر نہیں ہوا کیونکہ ان کی تابکاری کی سطح ہر روز ناپی جاتی تھی۔
لٹل بوائے کے گرائے جانے کے تین دن بعد امریکی حکومت نے دوسرا ایٹم بم ’فیٹ مین‘ گرایا جو کہ پہلے کے برعکس یورینیم کے بجائے پلوٹونیم سے بنا تھا۔
جاپان نے بالآخر ہتھیار ڈال دیے اور 2 ستمبر 1945 کو دوسری عالمی جنگ کا خاتمہ ہوا۔
Comments are closed.