طالبان کا کابل پر قبضہ اور لندن کی افغان نژاد کونسلر پیمانہ اسد کی کابل سے بچ نکلنے کی داستان
پیمانہ بتاتی ہیں کہ علاقے میں سڑکیں بند تھیں تو انھوں نے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ ائیرپورٹ کی جانب پیدل چلنا شروع کر دیا
ایک سابق پناہ گزین بچی جو بڑی ہو کر لندن کی کونسلر بن گئی ہیں، نے بتایا ہے کہ انھیں اس ہفتے افغانستان سے بھاگتے ہوئے اپنی زندگی کے بارے میں کیا خوف لاحق تھا۔
پیمانہ اسد تین سال کی عمر میں برطانیہ آ گئی تھیں لیکن جب کابل پر طالبان کا قبضہ شروع ہوا تو وہ اس وقت اپنے خاندان سے ملنے کے لیے وہاں موجود تھیں۔
پیمانہ اسد شمال مغربی لندن کے علاقے ہیرو میں لیبر کونسلر ہیں اور ان کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ برطانیہ میں عوامی عہدے کے لیے منتخب ہونے والی پہلی افغان نژاد شخصیت ہیں۔
انھوں نے بی بی سی ریڈیو 5 لائیو کو بتایا کہ انھیں ایک مقامی شخص نے خبردار کیا کہ ’اگر طالبان نے آپ کو پکڑ لیا تو وہ آپ کو مار دیں گے۔‘
پیمانہ نے بتایا کہ انھوں نے منگل کو برطانیہ کی پرواز پر کابل سے روانہ ہونے سے قبل ہوائی اڈے کے قریب ’افراتفری‘ کے مناظر دیکھے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’یہ میرے لیے واقعی ایک مشکل اور تکلیف دہ تجربہ رہا۔ مجھے لگتا ہے اس تجربے نے واقعی زندگی کے بارے میں میرا نقطہ نظر بدل دیا اور مجھے ایک شخص کے طور پر تبدیل کر دیا ہے۔‘
30 برس کی پیمانہ اسد جولائی میں افغانستان پہنچی تھیں۔ اگست کے شروع میں جب ملک بھر میں طالبان کی پیشقدمی بڑھنے لگی تو ان کے رشتہ دار پریشان ہونے لگے۔
’میری فیملی نے مجھ پر بہت زیادہ دباؤ ڈالنا شروع کیا اور کہا کہ آپ کو ٹکٹ بک کروانے کی ضرورت ہے اور یہاں سے چلی جائیں۔‘
پیمانہ کو محسوس ہوا کہ ان کا خاندان بس ’سنسنی‘ پھیلا رہا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ’مجھے یقین تھا کہ طالبان کابل پر قبضہ نہیں کر پائیں گے اور حکومت ختم نہیں ہو گی‘ لیکن وہ تسلیم کرتی ہیں کہ ’سب کچھ مکمل طور پر بدل گیا‘ اور 14 اگست کو شدت پسند افغانستان کے دارالحکومت کے مضافاتی علاقوں میں جمع ہو گئے۔
’بنیادی طور پر کابل کا گھیراؤ ہو چکا تھا اور میرے خاندان نے محسوس کیا کہ مجھے اپنا خاندانی گھر چھوڑنا ہو گا۔‘
پیمانہ کہتی ہیں کہ ان کے خاندان والے پریشان تھے کہ طالبان گھر اور گاڑیوں کی تلاشی لیں گے اور انھیں ملک چھوڑنے سے روک دیا جائے گا۔
تو ہفتے کی شام انھوں نے ’جلدی سے اپنے بیگ پیک کیے‘ اور حامد کرزئی انٹرنیشنل ائیرپورٹ کے قریب ایک عارضی قیام گاہ میں منتقل ہو گئیں۔
تب تک برطانیہ کی حکومت نے برطانوی اور ایسے افغان باشندے جو برطانیہ کی فوج کے لیے کام کر چکے تھے، کی افغانستان چھوڑنے میں مدد کرنا شروع کر دی تھی۔
پیمانہ بتاتی ہیں کہ ’میں جب صبح دس بجے اٹھی تو مجھے سفارتخانے سے فون آیا۔ برطانوی سفارتخانے نے کہا کہ ہم آپ کو کابل سے نکال رہے ہیں۔‘
تب پیمانہ کو اندازہ ہوا کہ صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے ان کے پاس بہت کم وقت ہے۔
’میں وہاں بیٹھی چائے پی رہی تھی کہ پڑوسیوں نے میرا دروازہ کھٹکھٹایا۔‘
’وہ بہت زیادہ گھبرائے ہوئے تھے۔ انھوں نے کہا کہ طالبان کابل میں داخل ہو چکے ہیں اور وہ کچھ اضلاع پر قبضہ بھی کر چکے ہیں اور اب وہ اس ضلعے کی طرف پیش قدمی کر رہے ہیں۔ آپ کو ابھی نکلنا ہو گا۔‘
پیمانہ بتاتی ہیں کہ علاقے میں سڑکیں بند تھیں تو انھوں نے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ ائیرپورٹ کی جانب پیدل چلنا شروع کر دیا۔
’ایک گلی سے میں نے ہزاروں لوگوں کو ائیرپورٹ کی جانب چلتے اور بھاگتے دیکھا۔ لوگ گاڑیوں سے نکل کر ائیرپورٹ کی جانب بھاگ رہے تھے۔‘
’عورتیں، نوجوان اور بچے بھی۔۔۔ اور پھر ان کے ساتھ میں بھی بھاگنے لگی۔‘
’دکاندار بھی خوف کے مارے گھبراہٹ اور افراتفری میں ایئرپورٹ کی طرف بھاگتے لوگوں کو دیکھنے کے لیے باہر نکل آئے اور پھر ان میں سے ایک نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’ تم۔۔۔ اگر طالبان نے تمہیں پکڑ لیا تو وہ تمھیں مار دیں گے۔ تیز بھاگو۔‘
’اس سے میرے دل میں شدید خوف پیدا ہو گیا کیونکہ اگر وہ مجھے پکڑ لیتے تو ایسا سچ ہو سکتا تھا۔ تو میں نے ائیر پورٹ کی جانب اور تیزی سے بھاگنا شروع کر دیا۔‘
پیمانہ کو برطانوی شہریوں کا میٹنگ پوائنٹ مل گیا لیکن انھیں بتایا گیا کہ وہ کافی دیر سے آئی ہیں۔ حکام پہلے ہی وہاں پہنچ کر اب وہاں سے جا چکے تھے۔
’میں وہاں سڑک پر کھڑی تھی۔ میرے فون کی بیٹری صرف تین فیصد تھی اور میں نے سوچا کہ اگر میرا فون بند ہو گیا اور میں یہاں کھڑی ہوں اور سفارتخانہ یہاں نہیں تو پھر کیا ہو گا اور طالبان اس علاقے کی جانب بڑھ رہے ہیں تو مجھے کسی محفوظ جگہ پر پہنچنا ہے۔ مجھے کہیں اندر جانا ہو گا۔‘
’مجھے اس سارے ہنگامے کے دوران ایک افغان خاندان ملا تھا، انھوں نے مجھے اپنے گھر لے جانے کا فیصلہ کیا۔ وہ مجھے اپنے گھر لے گئے، مجھے میرا فون چارج کرنے دیا اور مجھے کھانا دیا۔‘
پیمانہ اسد کہتی ہیں کہ وہ دفتر خارجہ اور لندن میں اپنے رکن پارلیمان گیرتھ تھامس کو کال کرنے میں کامیاب ہوئیں، جنھوں نے انھیں مشورہ دیا کہ وہ مقررہ وقت پر میٹنگ پوائنٹ پر واپس جائیں۔
’وہ افغان خاندان بہت مہربان تھا۔ انھوں نے مجھے اپنی گاڑی میں بٹھایا اور محفوظ میٹنگ پوائنٹ پر دوبارہ لے گئے۔ میں جب وہاں پہنچی تو میں نے دیکھا کہ برطانوی فوجی وہاں موجود تھے۔‘
’جیسے ہی میں نے انھیں اور انھوں نے مجھے دیکھا تو میں نے خود کو بہت محفوظ محسوس کیا اور ایک قسم کا سکون ملا کہ میں اب محفوظ ہوں۔‘
افغانستان کی حالیہ صورتحال پر برطانیہ کی حکومت کے ردعمل کا حوالہ دیتے ہوئے پیمانہ نے کہا کہ ’ہمارے پاس وقت نہیں، ہمیں اب افغانیوں کو محفوظ مقام پر پہنچانے کی ضرورت ہے۔‘
’ہم بیوروکریسی سے بعد میں نمٹ لیں گے۔ طالبان گھر گھر تلاشی لے رہے ہیں اور ایسے لوگوں کو تلاش کر رہے جن کا افغان حکومت سے ساتھ تعلق رہا اور انھوں نے غیر ملکی افواج کے ساتھ کام کیا ہو۔ ان کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان کی مدد کریں جنھوں نے ہماری مدد کی۔‘
Comments are closed.