ماحولیاتی تبدیلی: قطر کے پرل آئی لینڈ سے دبئی میں ’دی پام‘ تک، ہم مصنوعی جزیروں کے دور میں کیوں جی رہے ہیں؟
قطر میں مصنوری طور پر بنائے جانے والا 40 لاکھ مربع میٹر طویل پرل آئی لینڈ پر اربوں دالر خرچ ہوئے
’ہم عہد جزائر میں جی رہے ہیں۔ نئے جزائر جس تعداد اور پیمانے پر بنائے جا رہے ہیں اس کی نظیر نہیں ملتی۔‘
دنیا بھر میں مصنوعی جزائر بنانے کے عمل میں غیر معمولی حد تک اضافہ ہوا ہے۔ بی بی سی کی تازہ ترین فوٹوگرافک سیریز میں ہم نے اس تازہ ترین رجحان کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے جس کے تحت انسان دنیا بھر کی جھیلوں اور سمندروں کو زمین میں بدلنے کی مصنوعی کوششوں میں مصروف ہیں۔
سینکٹروں سال قبل سولومون جزیروں کے رہائشیوں نے، جنھیں لاو بھی کہا جاتا ہے، ایک جھیل میں اسی (80) مصنوعی جزیرے بنائے تھے۔ پانی میں پتھر اور مونگے تہہ در تہہ رکھتے رکھتے، اس عمل کو مکمل ہونے میں صدیاں بیت گئیں۔
انسانی تاریخ میں ایسی کئی کوششوں کی نظیر ملتی ہیں جن میں یہ سعی کی گئی کہ دریاؤں، سمندروں اور جھیلوں میں رہائش کے قابل خشک زمین کے چھوٹے چھوٹے خطے بنائے جا سکیں۔ لیکن 21ویں صدی میں ان کوششوں میں ایک نئی آرزو شامل ہوئی، جس میں کسی حد تک گھمنڈ اور غرور کی جھلک بھی ملتی ہے۔
برطانیہ کی نیو کیسل یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے سماجی جغرافیہ دان الیسٹر بونیٹ کے مطابق ’ہم عہد جزائر میں جی رہے ہیں۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’نئے جزائر جس تعداد اور پیمانے پر بنائے جا رہے ہیں اس کی نظیر نہیں ملتی۔‘
مصنوعی جزائر کی اس نئی پود میں جہاں ایک جانب پہلے کی نسبت زیادہ بہادری اور شان و شوکت نظر آتی ہے وہیں الیسٹر بونیٹ کی کتاب ’ایلس ویئر: اے جرنی ان ٹو اوور ایج آف آئی لینڈز‘ کے مطابق ’ماضی میں ہمارے آباؤ اجداد کے بنائے گئے جزیروں کی نسبت یہ کہیں زیادہ نقصان دہ بھی ہیں۔‘
الیسٹر بونیٹ نے دنیا بھر میں انسانوں کے بنائے گئے ان مصنوعی جزائر کا دورہ کیا ہے جہاں انھوں نے ان تعمیرات کا بغور مشاہدہ کیا۔ کہیں سمندر میں لاکھوں ٹن ریت انڈیل کر دیوقامت مصنوعی جزیرہ نما ٹیلا بنایا گیا تو کہیں فوجی اور سیاسی طاقت کے اظہار کے لیے کنکریٹ سے بھری ایسی بدشکل جزیرہ نما چٹانیں کھڑی کر دی گئیں جنھیں دیکھ کر انگریزی ناول کا کردار فرینکنسٹائن یاد آ جاتا ہے۔ دنیا بھر کے سمندروں میں تیل کی دریافت اور کھدائی کے کنویں ان کے علاوہ ہیں۔
ان مصنوعی تعمیرات کے سبب یہاں سمندری اور نباتاتی زندگی معدوم ہو جاتی ہے۔ ان میں سے اکثر کو قدرتی طور پر اصل حالت میں آنے میں بہت وقت درکار ہوتا ہے لیکن ان انسانی مصنوعی جزائر کے نیچے حیاتیات کا نام و نشان مٹ جاتا ہے۔ الیسٹڑ بوینٹ لکھتے ہیں کہ’زیادہ تر مصنوعی جزائر ڈیڈ زون بن جاتے ہیں۔ ان کو دوبارہ زندہ کرنا بہت مشکل کام ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے
ان کے مطابق جنوبی چین کے سمندر میں موجود قدیم اور اچھوتے پتھریلے ساحل مسخ کیے جا چکے ہیں اور ان کی سطح کنکریٹ سے بھری جا چکی ہے۔
تمام تر خدشات کے باوجود الیسٹر بونیٹ نے ان مصنوعی جزائر کی تعمیر کے پیچھے چھپے عوامل کا جائزہ لینے اور ان کے سمجھنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ آپ ان کو پسند کریں یا ناپسند، اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ مصنوعی جزائر آنے والی نسلوں کے لیے انسانی دنیا کے اس دور کی نشانی ثابت ہوں گے جس میں تعمیر اور ترقی کی دوڑ نے ارضیات اور ماحولیات پر منفی اثرات مرتب کرنا شروع کر دیے۔
عہد جزائر کو بہتر انداز میں سمجھنے کے لیے آپ مندرجہ ذیل چند ایسی تصاویر کا جائزہ لے سکتے ہیں جو مصنوعی جزائر کی متاثر کن عکاسی کرتی ہیں۔ یہ تصاویر دنیا کے مختلف حصوں میں جزائر کی تعمیر کی نشان دہی کرتی ہیں جن میں امریکہ، برطانیہ، ایشیا کے سمندر اور خلیجی ممالک شامل ہیں۔
سولومن آئی لینڈ کے جزیرے میں مصنوعی جھیل پر بنایا گیا روایتی گھر
خلیج فارس میں ایک بحری جہاز کے ذریعے سمندر میں لاکھوں ٹن ریت پھینک کر مصنوعی جزیرہ بنانے کا عمل
دبئی میں نقشہ نما ’دی ورلڈ‘ انتہائی امیر طبقے کے لیے قائم کیا گیا تھا لیکن اب کئی جزائر پر ہوٹل اور اپارٹمنٹ بنائے جا رہے ہیں
قطر میں مصنوعی طور پر بنائے جانے والا 40 لاکھ مربع میٹر طویل پرل آئی لینڈ پر اربوں ڈالر خرچ ہوئے
پیرس کے پلوں کی حفاظت کے لیے سنہ 1800 میں تعمیر کیا جانے والا سوان آئی لینڈ
امریکی شہر میامی کے ساحل پر 20ویں صدی کے آغاز میں اس وقت چھ مصنوعی جزائر پر پراپرٹی کی خرید و فروخت شروع ہو چکی تھی جب ابھی یہ جزائر سطح سمندر سے بھی نیچے تھے
میامی کا بڑا ونیشین پراجیکٹ بعد میں سمندری طوفانوں، گرتی ہوئی قیمتوں اور کریڈٹ ڈپریشن کے باعث متاثر ہوا
دبئی کے مصنوعی جزیرے ’دی پالم‘ کی تعمیر میں 120 ملین کیوبک میٹر ریت استعمال ہوئی
امریکی شہر کیلیفورنیا میں بیلبوا آئی لینڈ ایسی گیلی ساحلی مٹی پر بنایا گیا تھا جس کے رہائشیوں کو کئی سال تک مسائل کا سامنا کرنا پڑا
اس وقت کیلیفورنیا کے بیلبوا آئی لینڈ کا شمار انتہائی مہنگے علاقوں میں ہوتا ہے جہاں تین ہزار افراد رہائش پزیر ہیں
تیل کی کھدائی کے سمندری کنویں بظاہر تو مصنوعی جزیرے کی شرط پر پورے نہیں اُترتے لیکن سطح سمندر کی تہہ کو چھوتی یہ طویل القامت عمارتیں کئی بلند و بالا سکائی سکریپرز سے زیادہ لمبائی رکھتی ہیں
سکاٹ لینڈ کے ایک ساحلی گاؤں سے دیکھ کر اس تیل کی کھدائی کے کنویں پر کسی خلائی مخلوق کا گمان ہوتا ہے
برطانیہ کے لال ریتلے قلعے جن کو دوسری جنگ عظیم میں طیارہ شکن گنز سے لیس کیا گیا تھا
مصنوعی جزائر کا مستقبل کیا ہو گا؟ جنوبی چین کے سمندر میں سوبی ریف سے کچھ حد تک اندازہ لگایا جا سکتا ہے جہاں چین نے بہت بڑی سطح پر مصنوعی جزائر بنانے کا آّغاز کیا ہوا ہے
یہ مصنوعی جزائر چین کو اپنی جغرافیائی اور سیاسی طاقت دکھانے کے ساتھ ساتھ تیل تک رسائی میں بھی مدد دے رہے ہیں
Comments are closed.