انڈیا: قرض میں ڈوبا شخص جو گھر بکنے سے دو گھنٹے قبل لاٹری جیت گیا
- چیریلان مولان اور میرل سباسچیئن
- بی بی سی نیوز
جب محمد باوا کے دوست نے ان کو ایک غیر متوقع خوش خبری سنائی تو یہ ان کے لیے ایک انتہائی خوشگوار موقع تھا۔
ان کے دوست نے بتایا تھا کہ وہ ایک کروڑ روپے کی وہ لاٹری جیت چکے ہیں جس کے لیے وہ ایک سال سے کوشش کر رہے تھے۔ تھوڑی دیر پہلے تک وہ اپنا گھر بیچنے والے تھے۔
یہ 25 جولائی کی بات ہے۔ چار دن بعد انڈیا کی ریاست کیرالہ کے شہر کسرگوڈ کے رہائشی محمد باوا ایک مشہور شخصیت بن چکے تھے۔
انڈیا کی بیشتر ریاستوں میں لاٹری غیر قانونی ہے۔ کیرالہ سمیت چند علاقوں میں اس کی اجازت تو ہے لیکن سخت قوائد و ضوابط بھی لاگو ہوتے ہیں۔
محمد باوا کے لیے یہ خبر اس سے بہتر موقع پر نہیں آ سکتی تھی۔ وہ قرض تلے ڈوبے ہوئے تھے جس کو واپس کرنے کی کوشش میں وہ بے پناہ مالی اور نفسیاتی دباؤ کا شکار ہو چکے تھے۔
اسی کوشش میں ناکامی کے بعد انھوں نے خاندان سے مل کر فیصلہ کیا کہ وہ قرض اتارنے کے لیے اپنا گھر بیچ دیں گے۔ لاٹری کی جیت کی خبر ملنے سے چند ہی گھنٹے قبل انھوں نے اپنا گھر بیچنے کا سودہ تقریبا طے کر لیا تھا۔
اس دن انھوں نے ایک خریدار سے ساڑھے پانچ بجے ملنا تھا اور پیشگی ادائیگی وصول کرنی تھی۔ لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ ان کو اب بھی وہ لمحہ یاد ہے جب ان کے دوست گنیش کا فون آیا تھا۔
تین بج کر 20 منٹ پر ان کے دوست گنیش نے ان کو لاٹری کے نتائج واٹس ایپ پر بھیجے۔ تھوڑی ہی دیر بعد اس نے فون بھی کر دیا۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے باوا نے کہا کہ ’میں نے سکھ کا سانس لیا۔ میرے پاس مدد کرنے والوں کی کمی پڑ چکی تھی۔ میں اتنا خوش تھا کہ اپنے جذبات کا اظہار کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں تھے۔‘
یہ بھی پڑھیے
ٹیکس کی کٹوتی کے بعد ان کو 63 لاکھ روپے ملنے کی توقع ہے۔ ابھی تک واضح نہیں کہ ان کو یہ رقم کب ملے گی لیکن اب وہ پریشان نہیں ہیں کیوں کہ ان کو قرض دینے والوں نے ان کا دروازہ کھٹکھٹانا چھوڑ دیا ہے۔
’قرضہ دینے والے میری جیت کے بعد سے خاموش ہیں۔ جب پیسہ نہیں ہوتا تو لوگ شور مچاتے ہیں۔ لیکن جب ایک بار ان کو معلوم ہوا کہ آخرکار میرے پاس اتنا پیسہ آنے والا ہے کہ میں قرض لوٹا سکوں گا تو معاملات ٹھیک ہو گئے ہیں۔‘
ان کا خاندان کبھی ایک ایسا متوسط خاندان تھا جس کے ذمے کوئی قرض واجب الادا نہیں تھا۔ محمد باوا تعمیراتی شعبے میں کنٹریکٹر تھے جن کام کچھ برسوں سے متاثر ہوا تھا۔ کورونا کی وبا کے بعد ان کے حالات خراب ہونا شروع ہو گئے۔
ان کو کام نہیں مل رہا تھا اور ایسے میں قرض بڑھنا شروع ہو گیا۔ انھوں نے خاندان کی ضروریات ادھار مانگ کر پوری کیں۔ ان کے پانچ بچے ہیں جن میں سے دو کی حال ہی میں شادی ہوئی ہے۔ انھوں نے شادی پر بھی اخراجات کیے جن سے معاشی مسائل اور بڑھے۔
ایک سال سے محمد باوا لاٹری پر بھی قسمت آزما رہے تھے
باوا نے اپنے بیٹے کو اس امید سے قطر بھجوایا کہ اسے اچھی نوکری مل جائے گی اور اس کام کے لیے بھی انھوں نے قرضہ لیا۔
ان کو امید تھی کہ ان کو کام ملنا شروع ہو گا تو وہ اپنا قرضہ لوٹانا شروع کر دیں گے جو جون میں تقریبا 50 لاکھ تک پہنچ چکا تھا۔
’شادی پر ہی 10 سے 15 لاکھ روپے قرض لینا پڑا۔ میں سب کے پیسے واپس کرنا چاہتا تھا لیکن کوئی آمدن ہی نہیں تھی۔‘
بڑھتا ہوا قرضہ ان کے خاندان کے لیے درد سر بن چکا تھا۔ جب آمدن کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دیا تو انھوں نے خاندان سے مل کر اپنا گھر بیچنے کا مشکل فیصلہ اٹھایا۔
وہ حال ہی میں اپنے گھر میں منتقل ہوئے تھے۔ باوا نے کرائے پر رہنے کے لیے ایک مکان تلاش کیا اور پھر اپنا گھر بیچنے کے لیے اشتہار دے دیا۔
ایک سال سے وہ لاٹری پر بھی قسمت آزما رہے تھے لیکن ان کو کوئی کامیابی نہیں ملی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’یہ ایک آخری کوشش تھی‘ اور وہ جانتے تھے کہ کوئی معجزہ ہو گا تو وہ لاٹری جیتیں گے کیوں کہ اس کا امکان تو لاکھوں میں ایک ہوتا ہے۔
انھوں نے ایک سال تک انتظار کے بعد ہار مان لی تھی۔
باوا اپنے دوست گنیش سے لاٹری ٹکٹ خریدتے تھے جن کی ایک چھوٹی سی دکان ہے۔ ہر دن وہ گنیش سے ٹکٹ خریدتے اور پھر ان کو معلوم ہوتا کہ وہ نہیں جیتے۔ یہ سلسلہ ایک سال تک چلتا رہا۔
جس دن گنیش کو معلوم ہوا کہ ان کا دوست لاٹری جیت گیا ہے وہ بہت ہی خوش تھے اور انھوں نے فورا باوا کو فون کیا۔
فون پر گنیش نے باوا سے کہا ’تو بچ گیا ہے۔‘
باوا کو یہ الفاظ بلکل ایسے ہی یاد ہیں۔ وہ واقعی بچ گئے تھے۔
اس وقت یہ لاٹری کافی بڑی رقم لگتی ہے لیکن قرض اتارنے کے بعد باوا کے پاس کچھ زیادہ باقی نہیں بچے گا۔ وہ چاہتے ہیں کہ باقی رقم سے گنیش کی گھر خریدنے میں مدد کریں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’گنیش بھی مشکل حالات سے گزر رہا ہے کیوں کہ اس کے پاس اپنا گھر نہیں ہے۔‘
وہ کچھ رقم غریبوں کو بطور عطیہ بھی دینا چاہتے ہیں۔
Comments are closed.