قرضوں کی حد مقرر کرنے پر تنازع امریکہ کو معاشی بحران کی طرف دھکیل رہا ہے؟

USA

،تصویر کا ذریعہReuters

  • مصنف, انتھونی زرچر
  • عہدہ, بی بی سی نیوز

اگر بات کی جائے امریکہ کے لیے قرض کی مقررہ حد کو بڑھانے سے متعلق ہونے والی گفت و شنید کی تو رواں ہفتہ امریکہ کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اگر کانگریس یکم جون سے قبل قرض کی حد نہیں بڑھاتی تو پھر ایسے میں امریکہ ڈیفالٹ کر سکتا ہے۔

اپنے پیدا کردہ معاشی بحران پر قابو پانے سے متعلق غور کرنے کے لیے منگل کے روز امریکی صدر جو بائیڈن، ایوان اور دونوں جماعتوں ڈیموکریٹ اور ریپبلکن سے تعلق رکھنے والے سینیٹ کے رہنما وائٹ ہاؤس میں ملاقات کی تھی مگر کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔

خیال رہے کہ اگلے مہینے (جون) کے اوائل میں امریکی حکومت ملکی قرضوں کی آخری قانونی حد تک جا سکتی ہے، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ فیڈرل ٹریژری یعنی وزارت خزانہ اضافی فنڈز نہیں حاصل کرسکی گی۔

اس ناکامی کے بعد یہ معاشی بحران اس قدر سنگین ہو جائے گا کہ پھر امریکہ کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں ہوں گے کہ وہ موجودہ قرض کی ادائیگی کر سکے، سرکاری ملازمین کو تنخواہیں اور ریٹائرمنٹ کے پیسے ادا کر سکے یا کسی بھی قسم کا سرکاری بل کی ادائیگی ممکن ہو سکے۔

کانگریس کسی بھی وقت قرض کی حد بڑھانے کے لیے ووٹ دے سکتی ہے لیکن مقننہ میں ریپبلکن کے اراکین صرف اس صورت میں ایسا کرنا چاہیں گے جب وہ صدر جو بائیڈن اور ڈیموکریٹس سے کچھ پالیسی مراعات حاصل کر لیں۔

واضح رہے کہ صدر جو بائیڈن اور ان کے اتحادیوں نے اب تک اس ان مذاکرات کا حصہ بننے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا ہے کہ وہ معاشی تباہی کے خطرے کے سائے میں ایسا نہیں کر سکتے ہیں۔

یہ ملاقات بذات خود جو بائیڈن کے لیے پہلے سے ہی کسی حد تک رعایت کی حامل ہے کیوںکہ انھوں نے اب تک ریپبلکن تجاویز پر بحث کے امکان کو مسترد کر رکھا تھا۔ اس سے پہلے انھوں نے اصرار کیا تھا کہ اخراجات اور پالیسی مذاکرات کو قرض کی حد سے علیحدہ رکھا جائے۔

اب یہ ایک ایسا تنازع ہے جو ملک کو اقتصادی تباہی کی طرف دھکیل سکتا ہے۔

قرض کی آخری حد کو چھونے کا مطلب یہ ہے کہ امریکی حکومت اب اس وقت تک مزید رقم قرض نہیں لے سکتی جب تک کانگریس قرض حاصل کرنے کی حد کو بڑھانے پر راضی نہ ہو جائے۔ اس وقت امریکی حکومت کی قرض حاصل کرنے کی حد تقریباً 31.4 کھرب ڈالر ہے۔

اس بحران سے امریکہ کی دو بڑی جماعتوں کو کیا فوائد اور نقصانات ہو سکتے ہیں۔ اس پر یہاں ایک نظر دوڑاتے ہیں۔ مگر پہلے یہ جانتے ہیں کہ یہ قرض کی حد کا مسئلہ ہے کیا؟

قرض کی حد کا مسئلہ انا کی جنگ کیسے بن گیا؟

قرض کی حد پہلی بار سنہ 1917 میں متعارف کرائی گئی تھی، جس کا مقصد پہلی جنگ عظیم کے دوران حکومت کو رقم اکٹھا کرنے کے لیے گنجائش فراہم کرنا تھا۔

اصولی یا نظریاتی طور پر یہ کانگریس کے لیے اخراجات کو کنٹرول کرنے کا ایک طریقہ فراہم کرتا ہے۔

لیکن قرض کی زیادہ سے زیادہ حد کے متعلق رسہ کشی وقت کے ساتھ نقصاندہ ہوتی گئی کیونکہ اس کی وجہ سے سیاسی تقسیم اور امریکی قرض (جو ایک دہائی میں تقریباً دوگنا ہو گیا ہے) دونوں میں اضافہ ہوا۔

یہ جزوی طور پر (سنہ 2008 کے) مالیاتی بحران اور (کووڈ) وبائی امراض کے دوران حکومت کی طرف سے کیے گئے نمایاں اخراجات کی وجہ سے ہے، لیکن یہ اس کا نتیجہ بھی ہے کہ ملک سنہ 2001 سے مسلسل بجٹ خسارے میں چل رہا ہے اور یہ اپنی آمدن سے زیادہ خرچ کر رہا ہے۔

اور اب قرض کی حد امریکی سیاست میں مستقل طور پر سیاسی سودے بازی کا حصہ بن گئی ہے۔

اس مسئلے پر سنہ 2011 میں پیدا ہونے والا تنازع اس وقت حل ہوا جب اس وقت کے صدر براک اوباما نے 900 ارب ڈالر سے زیادہ کے اخراجات میں کمی کرنے پر اتفاق کیا، جس کی وجہ سے قرض کی حد میں اتنی ہی رقم کی کمی واقع ہوئی۔

بعض ریپبلکن اس بار پھر اخراجات میں کٹوتیوں پر زور دے رہے ہیں، جسے ڈیموکریٹس نے مسترد کر دیا ہے۔

امریکی معیشیت

،تصویر کا ذریعہBILL CLARK

جو بائیڈن اور ڈیموکریٹس کیا چاہتے ہیں؟

قرض کی حد ایک ایسا نازک معاملہ ہے کہ جس پر ڈیموکریٹس کسی بھی قسم کی سیاسی چال نہیں چلتے۔ انھوں نے کبھی دیوالیہ ہونے کی دھمکی تک نہیں دی۔ جیسا کہ ماضی میں جب ریپبلکن کم از کم اجرت میں اضافہ کرنے، حکومت کی مالی امداد سے چلنے والی صحت کی دیکھ بھال کو بڑھانے یا دولت مندوں پر ٹیکس بڑھانے سے انکار کر دیا تھا تو ڈیموکریٹس نے کوئی تنازع نہیں کھڑا کیا۔

اب جواب میں ڈیموکریٹس بھی یہی چاہتے کہ ریپبلکن اس معاملے پر کوئی سیاست نہ کریں۔

ایک دہائی سے زائد کا وقت گزر چکا ہے جب پہلی بار کانگریس میں ریپبلکنز نے اس وقت کے ڈیموکریٹس سے تعلق رکھنے والے امریکی صدر پر اس معاملے پر دباؤ ڈال کر اس معاملے کو اپنے لیے پالیسی مراعات حاصل کرنے کا ذریعہ بنایا تھا۔ ڈیموکریٹس اس معاملے پر پارٹی سیاست کو ملک کی معاشی تباہی سے تعبیر کرتے ہیں۔

سنہ 2011 میں اس مسئلے پر جو تعطل ہوا تھا اس کی وجہ سے کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی ’ایس اینڈ پی‘ ملک کی درجہ بندی گھٹانے پر مجبور ہو گئی تھی اور ایسا امریکہ کی تاریخ میں پہلی بار ہوا تھا۔

اب اس دور کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے والے ڈیموکریٹس سمیت بہت سے اراکین اس پریکٹس کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنا چاہتے ہیں۔

وہ قرض کی حد کو بڑھانے کے لیے ایک صاف ستھرے اقدام کا مطالبہ کر رہے ہیں یعنی ایسا جو کسی اور قانون سازی کے اقدامات سے منسلک نہ ہو۔

ان کا کہنا ہے کہ ان کے مخالفین صرف قومی قرض کی فکر اس وقت کرتے ہیں جب ڈیموکریٹس برسراقتدار آتے ہیں۔ ان کے مطابق ماضی میں جب ٹرمپ انتظامیہ نے قرض کی حد میں تین بار اضافہ ہوا اور یوں ریپبلکن حمایت یافتہ اخراجات اور ٹیکسوں میں کٹوتیوں سے قومی قرضوں میں سیکڑوں اربوں کا اضافہ ہوا۔

امریکہ

امریکی معیشیت

کس قسم کے خطرات ہیں؟

ڈیفالٹ ملک کے اعتبار کو برباد کر سکتا ہے، عالمی مالیاتی منڈیوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور وہ اس طرح کہ وہاں امریکی قرضوں کی بہت زیادہ تجارت کی جاتی ہے کیونکہ امریکی بانڈز کی خریداری کو روایتی طور پر کم خطرناک سرمایہ کاری سمجھا جاتا ہے۔

اگرچہ اس کے سیاسی نتائج کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ تاہم ایک حالیہ سروے سے پتا چلتا ہے کہ اس پر رائے یکساں طور پر منقسم ہے۔ ایک تہائی عوام جو بائیڈن کو ایسے منظر نامے میں مورد الزام ٹھہرائیں گے، ایک تہائی ریپبلکنز کو اور ایک تہائی کی رائے اس پر واضح نہیں ہے۔

اگر اس تعطل میں معیشت تباہ ہو جاتی ہے تو، ڈیموکریٹس- بطور حکمران، کو اس کی زیادہ سیاسی قیمت چکانی ہو گی۔

جب بیروزگاری بڑھے گی اور سٹاک مارکیٹ میں کمی آئے گی تو یہ سب ملبہ حکومت پر ہی گرے گا۔ بہت سے ڈیموکریٹس سیاسی نقصانات کے باوجود کانگریس کو قلیل مدتی رعائت دینے کے خلاف ہیں اور ان کے خیال میں اس نقصان کا ازالہ ہو سکتا۔ ان کے مطابق انھیں آئندہ برس کانگریس میں مزید اکثریت حاصل ہو جاتی ہے تو پھر صدارت ان کے پاس آ جائے گی تو پھر ان اقدامات کا ازالہ ممکن ہے۔

اگر اس پر پارٹی تقسیم ہوتی ہے تو پھر صدر بائیڈن پر اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹنے پر دباؤ بڑھایا جا سکتا ہے، جس سے ان کی جماعت کے قرض کی حد سے متعلق سخت گیر مؤقف رکھنے والے ناراض ہو جائیں گے، جس سے وہ سیاسی طور پر آئندہ قیادت کے لیے کمزور ہو سکتے ہیں۔ ان کی جماعت میں پہلے ہی سے ایسے لوگ ہیں جو آئندہ برس کے لیے ان کی پارٹی پر گرفت سے متعلق صلاحیت کے بارے میں پریشان ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

سپیکر کے لیے بھی نیا چیلنج

ریپبلکنز صدر جو بائیڈن اور ڈیموکریٹس کے حمایت یافتہ وفاقی پروگراموں کی توسیع جیسے اقدامات کی واپسی کے خواہاں ہیں۔ وہ وفاقی اخراجات کو محدود کرنا چاہتے ہیں- یا ہر صورت ڈیموکریٹس کی ترجیح کے منصوبوں پر کٹوتی چاہتے ہیں۔

تاہم ان اہداف کے حصول کے امکانات کم ہیں۔

کانگریس کے ایک ایوان کے کنٹرول کے ساتھ، مذاکرات اور سمجھوتہ کے روایتی ذرائع سے ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے قانون سازی کرنے کی ان کی صلاحیت محدود ہے۔

قرض کی حد ایوان نمائندگان میں ریپبلکنز کو ایک طریقہ فراہم کرتی ہے جس کے ذریعے بڑی رعایتیں حاصل کی جا سکتی ہیں۔

ڈیموکریٹس کو ان میں سے کچھ قانون سازی کے اقدامات پر بھی راضی کرنا ریپبلکنز کی فتح ہوگی۔ تاہم، پارٹی کے کچھ سخت گیر مؤقف کے حامل اراکین اس پیکج کو کم سے کم رعائت کے طور پر دیکھتے ہیں کہ وہ قرض کی حد میں اضافے کے لیے قبول کریں گے۔

اس میں کیا خطرات ہیں؟

ریپبلکن ایک خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں۔ ڈیموکریٹس کی طرح وہ بھی ایک ایسے معاشی بحران کا خطرہ مول لے رہے ہیں جو ان کی جماعت پر عوام کی تنقید کا سبب بن سکتی ہے اور انتخابات میں بھی اس کا سیاسی خمیازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے۔

ایوان نمائندگان میں پارٹی کا مارجن انتہائی کم ہے۔ ووٹر کی رائے میں معمولی تبدیلی بھی اس جماعت کو ایوان میں اقلیت میں لے جائے گی۔

اس وقت سینیٹ میں ری پبلکنز کو اگلے سال اکثریت کی امید ہے مگر ایک معمولی غلطی بھی بڑا فرق ڈال سکتی ہے۔

اگر عوام ریپبلکنز کو انتہا پسندوں کی جماعت کے طور پر دیکھتی ہے جو حکومت کرنے سے کے اہل نہیں ہیں تو یہ جو بائیڈن کی دوبارہ انتخابی مہم کا اہم پیغام بن کر ابھرے گا۔

قرض کی حد سے جڑا معاشی بحران ایوان کے سپیکر کیون میکارتھی کے لیے بھی خاص چیلنجز میں سے ایک ہے۔ اس ایوان میں اقتدار پر ان کی گرفت کمزور ہے۔ اگر وہ مذاکرات میں کسی ایک طرف جھکاؤ دکھاتے ہیں تو پھر ایسے میں ان کے لیے جہاں آئندہ انتخاب مشکل ہو جائے گا وہیں انھیں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اپنے عہدے سے ہاتھ دھونے پڑ سکتے ہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ